وزیراعظم عمران خان نے بالآخر بھارتی پردھان منتری نریندر مودی کی جنگی دھمکیوں کا جواب دے دیا۔ کئی روز کی تاخیر سے ہی سہی پر جواب تو دیا۔ ہوئی تاخیر تو کچھ وجہ تاخیر بھی تھی اور وہ یہ تھی کہ بقول خان کہ ہم مہمان کی مہمانداری میں مصروف تھے۔ مہمان آیا تھا یا بحران؟ یہ بھی ہوسکتا ہے مناسب جواب سوچنے میں اتنے دن لگ گئے ہوں۔ سوچنا بہرحال اچھی بات ہے۔ وزیراعظم نے بھارت کو پلوامہ حملے کی تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی، دہشت گردی پر مذاکرات کا بھارتی مطالبہ بھی مان لیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ بھارت نے حملہ کیا تو ہم سوچیں گے نہیں، فوری جواب دیں گے۔یہ آخری وضاحت اصولی بنیادوں پر کی گئی ہوگی ورنہ دشمن حملہ کرے تو سوچا نہیں جاتا، غوروخوض کی بھی گنجائش نہیں ہوتی، فوراً ہی جوابی کارروائی ہوتی ہے لیکن ٹھیک ہے، وزیراعظم نے اصولی وضاحت کردی۔ اصولی وضاحت کو چھوڑ کر باقی تین نکات وہی ہیں جو پٹھان کوٹ حملہ کے بعد اس وقت کے وزیراعظم نوازشریف نے بیان کئے تھے۔ نوازشریف نے سوچنے سمجھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی، فوراً ہی جوابی خطاب داغ دیا تھا۔ ہو بہو یہی نکات بیان کئے جو آج کے خان صاحب کے خطاب میں ہیں۔ زمینی سچائیاں وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہتی ہیں اور فی زمانہ تو کچھ زیادہ ہی جلدی۔ تب نوازشریف کو ان کے ان تین نکات کی بنا پر محب وطن حلقوں نے بالآخر قوم کا غدار اور مودی کا یار قرار دے دیا تھا۔ آج کی زمینی سچائیاں کچھ اور ہیں، خان صاحب کا ہو بہو وہی خطاب حب الوطنی کا شاہکار قرار پایا ہے۔ نوازشریف کے خطاب کو بزدلانہ کہا گیا تھا، خان کا بہادرانہ ہے۔ زمینی سچائیوں کی تبدیلی پر بہرحال اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں۔ ٭٭٭٭٭ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ کیا واقعی جنگ ہوگی؟ بھارت لہجے کی تیزی امریکی آشیر باد سے بھی بڑھی۔ اس بار امریکہ نے وہ بات کہی ہے جو پہلے کبھی نہیں کہی تھی۔ اس کے بیان میں ہے کہ بھارت کو اپنے دفاع کے لیے کارروائی کا پورا حق ہے۔ اس کے باوجود لگتا نہیں ہے کہ جنگ ہوگی۔ ہوئی تو ایسے ایسے تباہ کن ہتھیار دونوں طرف سے چلیں گے کہ پچھلی جنگوں میں ان کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ تباہی آر ہو گی تو پار بھی ہوگی۔ بھارت کی اقتصادی مہانتا کا سر ویسے ہی کٹ جائے گا جیسے شیوجی کے کھانڈے سے مہاراج گنیش کا کبھی کٹا تھا اور آج تک جڑ نہیں پایا۔ چینی اور سعودی عرب دونوں نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کشیدگی دور کریں اور مسئلے مذاکرات سے حل کریں۔ بھارت چین کی بات ٹال سکتا ہے، سعودی عرب کی ٹالنا مشکل ہے۔ سعودی ولی عہد بھارت میں بہت بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا سوچ رہے ہیں تو ساتھ ہی جنگ کے خطرے ٹالنے کے لیے بھی زور لگا رہے ہیں۔ مزے کی بات ہے، سعودی سرمایہ کاری کے دعوئوں پر بھارت کے اندر بے اعتباری بھی پائی جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ 2010ء میں سعودی عرب نے بھارت میں 70 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا اور نو برس بیت گئے لیکن ایک ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی نہیں ہوئی۔ محض تیس پینتیس کروڑ ڈالر کا سرمایہ بھی آیا لیکن سعودی سفارتی حلقے کہتے ہیں، اس بار ایسا نہیں ہوگا۔ سرکاری سرمایہ کاری کے علاوہ بھی بھارت میں سعودی پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ نجی شعبے سے فلاحی کاموں کے لیے بہت رقم آتی ہے۔ مدرسے، یتیم خانے، عورتوں کی خانگی دستکاری اور ہوٹلنگ وغیرہ کے کاروبار میں نجی پیسہ لگا ہے۔ بھارت ایک چوتھائی تیل سعودی عرب ہی سے لیتا ہے اور حالیہ برسوں میں بھارت کا سعودی عرب پر اعتبار اتنا بڑا ہے کہ ایران سے دوستی ایک درجے نیچے آ گئی ہے۔ بڑھتے ہوئے تعلقات کی وجہ سے مودی مسلمانوں کا کچھ لحاظ بھی کر رہے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ لحاظ کا عالم ہے تو بے لحاظی کا کیا ہوتا ہے؟ یہ ہوتا کہ مودی جی سارے بھارت کو گجرات بنا ڈالتے یا اس کی کوشش کرتے۔ یہ الگ بات ہے کہ سارے لوگوں کی سوچ ویسی نہیں جیسی گجراتیوں کی ہے۔ مثلاً بنگال، تمل ناڈ، کرناٹک، کیرل، آندھرا اور راجستھان کو ایک کی جگہ سو مودی بھی گجرات نہیں بناسکتے۔ ٭٭٭٭٭ مسلم لیگ کے رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ پچھلے چند دنوں میں وزیراعظم ہائوس کی تزئین و آرائش پر پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا۔ اتنا روپیہ خرچ کیا گیا کہ ستر برس کا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ یہ ستر سال والی بات مبالغہ ہے۔ اس لیے کہ ایوب، یحییٰ کے تیرہ سال، پھر ضیا اور مشرف کے ادوار کے ابتدائی سال تو ایسے تھے کہ وزیراعظم ہائوس اجاڑ پڑا رہا۔ بہرحال ان چند دنوں میں واقعی اتنی دولت خرچ کی گئی کہ اہل وطن کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔ ایسا استقبال دنیا کے کسی اور خطے میں کسی اور کا ہوا ہوگا؟ یاد تو نہیں آ رہا۔ یحییٰ خان کے زمانے میں ایک بار شاہ ایران پاکستان تشریف لائے تھے، بہت شاندار، بے مثال استقبال ہوا تھا لیکن آج کے استقبال کے اس کا مقابلہ ایسا ہی ہوگا جیسے سیٹھ امبانی کے ’’ولا‘‘ سے گنگو تیلی کی جھونپڑی کا موازنہ کیا جائے۔ بہت خرچہ ہوا، کچھ تو حفظ ماتقدم کے طور پر بھی کیا گیا جیسے کہ تین سو پجارو گاڑیاں کرائے پر لی گئیں تاکہ شاہی وفد کو ضرورت ہو تو کام آئیں۔ اگرچہ ان کے استقبال کی نوبت ہی نہیں آئی لیکن آ جاتی تو…! خان کی دوراندیشی کی داد دینی چاہیے۔ شاہی تقریبات میں عوام نے خان صاحب کی تیز رفتار خوش خوراکی کے مناظر بھی دیکھے اور مان گئے کہ ’’زیستن برائے خوردن‘‘ ہی اصل سچائی ہے۔ شاہی وفد کچھ دے دلا کر نہیں گیا۔ ایم او یوز کی بات تو وعدہ فرداہی ہے ع آئے ’’معشوق‘‘ گئے وعدہ فردا دے کر لیکن پریشانی کی ضرورت نہیں، وعدہ کیا ہے تو پورا بھی کریں گے، دیر یا سویر۔ ٭٭٭٭٭ پنجاب بزدار حکومت نے 18 معزز شخصیات کو سرکاری ترجمان کے منصب پر فائز کر دیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کارکردگی کا دائرہ اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ ایک آدھ روایتی ترجمان پورا پڑہی نہیں سکتا تھا۔ فی الوقت صوبائی کابینہ میں 35، 36 وزیر، متعدد مشیر، بہت سے معاون خصوصی اور 37 پارلیمانی سیکرٹری ہیں۔ سادگی اور کفایت شعاری کا ہدف پورا کرنے میں 18 کی کمی تھی، وہ بھی دور ہوئی۔ ماشاء اللہ۔