پاکستان کی سیاسی اشرافیہ اور دانشوربرادری روزمرہ کے لایعنی اور فضول جھگڑوں میں مستقل اور مسلسل الجھی ہوئی ہے، جلوسوں، جلسوں، شور مچاتے ٹی وی ٹاک شوز اور’’مہذب‘‘ پارلیمنٹ کے اکھاڑوں میں گونجتی آوازوں میں ان شخصیات کو نہ تو خطے میں آنے والی جنگ کے ڈھولوں کا شور سنائی دے رہا ہے اور نہ ہی آسمان پر منڈلاتے جنگ کے بادل دکھائی دے رہے ہیں۔میرے ملک کے محدود زاویۂ نظر رکھنے والے اکثر دانشور اور تجزیہ نگار جو عوامی مقبولیت کے لیئے روز پاپڑ بیلتے ہیں اور ’’ریٹنگ‘‘ کی دوڑ میں اندھے ہوچکے ہیں، ان کی حالت بالکل بغداد کے ان عادی جھگڑالو بحث کاروں جیسی ہو چکی ہے کہ جب ہلاکو نے بغداد پر حملہ کیا تو شہرکے فلسفی لایعنی اور بے معنی بحثوں میں الجھے ہوئے تھے۔ میرے ملکِ پاکستان کا یہ ’’عظیم‘‘ اور ملحد نما لبرل دانشوربغداد کی اس مثال کو مولویوں پر چسپاں کرتا تھا اورپھر اسے بحیثیت اُمت مسلمانوں سے منسوب کر کے مذاق اڑایا کرتا تھا۔ آج ان سب کی اپنی حالت بھی بالکل ویسی ہو چکی ہے۔ انہیں اندازہ تک نہیں کہ یہ خطہ جس میں وہ سانس لے رہے ہیں بہت جلد بارود کے زہریلے دھویںکا مزا چکھنے کے لیئے گرم کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ دو دنوں میں امریکہ اور چین دونوں کے عسکری میڈیا کے میگزینوں میں اس آنے والے معرکے کے بارے میں بہت زیادہ گفتگو ہوئی ہے۔ یہ میگزین سنجیدہ قسم کے مضامین چھاپتے ہیں اور ان کے قارئین بھی وہ لوگ ہوتے ہیں جو اولاً فوج سے وابستہ ہوں یا ایسے تجزیہ کار جو عسکری معاملات پر نظر رکھتے اور لکھتے ہیں۔ان مضامین کے بیشتراہم حصے ’’مین سٹریم میڈیا‘‘ میں بھی لوگوں کی معلومات میں اضافہ کے لیے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ پہلی وارننگ امریکی ’’تزویراتی کمانڈ‘‘(US Strategic Command)کے گیارہویں سربراہ ’’ایڈمرل رچرڈ اے چارلس‘‘ نے اپنے مضمون میں دی ہے ۔ یہ وارننگ اسکے اس مضمون میں ہے جو امریکی نیوی کے فروری کے میگزین میں شائع ہوا ہے۔اس نے کہا ہے کہ ماسکو اور بیجنگ نے عالمی تعلقات اور معیارات کو جس شدت کے ساتھ چیلنج کرنا شروع کیا ہے اس کی مثال سرد جنگ کی انتہا کے زمانے میں بھی نہیں ملتی تھی۔ اس نے کہا ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ دونوں ممالک علاقے میں موجود تنازعے کو اس قدر بڑھا دیں گے کہ اگر ان کو کسی بھی لمحے یہ اندازہ ہوا کہ جنگ ہارنے کی صورت میں فاتح افواج یا عوامی نفرت کی وجہ سے ان ملکوں میں انکی قیادتیں تبدیل ہو جائیں گی تو وہ ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال کردیں گے۔اس نے امریکہ کی افواج کو اپنی اس پرانی سوچ اور پالیسی بدلنے کے لیے کہا ہے جس کے تحت ’’ایٹمی‘‘ ہتھیاروں کا استعمال نا ممکن سمجھا جاتا تھا۔ اس نے مشورہ دیا ہے کہ اس قدیم رویے کی بجائے اب نئی پلاننگ اس پالیسی کے تحت ہونی چاہیے کہ ’’ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال ایک حقیقی امکان بن چکا ہے‘‘۔ ہمیں اب ہم اپنے ہتھیاروںکو مزاحمت اور توازن (Deterrence) کے لیے نہیں بلکہ جارحانہ طور پر استعمال کے لیے تیار رکھنا ہوگا، ورنہ ہم لوگ انجانے میں مارے جائیں گے۔ اس نے کہا ہے کہ ہمارے مخالفین اپنی ایٹمی صلاحیتوں اور میزائل ٹیکنالوجی میں دن بدن اضافہ کرتے چلے آرہے ہیں۔ ہمیں ان کی شدت سے بڑھتی ہوئی عسکری قوت کا آگے بڑھ کر مقابلہ کرنا ہوگا اور اپنی برتری اور قوت میدانِ جنگ میں اترنے سے پہلے ہی ثابت کرنی ہوگی۔ ہمارے تمام اتحادی ممالک اپنی علاقائی و سیاسی پوزیشن اوراپنے اپنے طرزِ حکومت کی مجبوریوں کی وجہ سے قیادت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ ہم آج تک ’’سرد جنگ‘‘ کے ماحول میں ہی خودکو تصور کیے ہوئے ہیں، جبکہ تناؤ یہاں تک آن پہنچا ہے کہ کسی بھی وقت چشمِ زدن میں’’گرم جنگ‘‘ شروع ہو سکتی ہے، اور یہ جنگ اچانک شروع ہوجائے گی مگر اسقدر خطرناک اور بہت ہی مختصر مدت کے لیے ہوگی۔ مگراس کی تباہی ناقابلِ یقین حد تک خوفناک ہوگی۔ روس نے دس سال پہلے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو جدید تر بنانے کا عمل شروع کر دیا تھا اور اس نے اپنے بین البراعظمی میزائل، آبدوز سے مار کرنے والے بلاسٹک میزائل، ایٹمی ہتھیاروں سے لیس آبدوزیں، وارننگ سسٹم اور کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم ، سب کا سب جدید ترین کر لیا ہے۔ روس نے اپنے ایٹمی پروگرام کو جدید بنانے کے پراجیکٹ پر بھی ستر فیصد کام مکمل کر لیاہے۔ مضمون نگار نے اس کے ساتھ ہی چین کے ایٹمی ہتھیاروں کے ذخیرے، میزائل سسٹم اور ان جدیدت کی بھی اپنے مضمون میں تعریف کی ہے اور بتایا ہے کہ ہم فی الحال ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس مضمون کے ساتھ ساتھ امریکہ، یورپ اور آسٹریلیا کے دیگر عسکری میگزینوں میں بھی امریکی فوجی قوت کے جو تجزیے پیش ہو رہے ہیں وہ بہت مایوس کن ہیں۔ ان کا خلاصہ یہ ہے کہ امریکہ کی عسکری قوت کوگذشتہ بیس سال مشرقِ وسطیٰ کی جنگوں میں شمولیت نے بہت پیچھے ڈال دیا ہے۔ اس کی حالت اسقدر خراب ہوچکی ہے کہ اسکی اپنے ہتھیاروں کو جدید تر کرنے کے عمل پر سرمایہ کاری اس وقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہند چینی(Indo-Pacific) محاذ پر چین سے جنگ کی صورت میں امریکی افواج بالکل جدید ٹیکنالوجی سے لیس نہیں ہیں ۔جبکہ ان کے مقابلے میں چین کادفاعی نظام (Counter Intervention System) ہی اسقدر مضبوط ہے کہ امریکی افواج کواپنی پوری قوت اور صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کر نے دے گا۔ یوں امریکہ کے مقابلے میں چین تھوڑی سی طاقت و قوت حاصل کر کے بھی فتح حاصل کر لے گا۔ امریکہ نے اپنے آپ کو مدت سے ایسی کسی جارحانہ کارروائی کے لیے کبھی تیار ہی نہیں کیا جس میں امریکہ کے مدِ مقابل کوئی بہت زیادہ طاقتور ملک ہو۔کمزور ممالک افغانستان اور عراق میں اپنی توانائیاں جھونکنے کے عمل نے امریکی عسکری قوت کو سست اور کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ بیس سال کی اس مسلسل جنگ، کانگریس کی جانب سے اس کے جواز پر لمبی بحثیں، بجٹ میں کٹوتیاں، سپاہیوں کے تابوت، زمینی شکست، ایئر فورس کی بالادستی کی ناکامی، یہ وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے امریکی فوج اب کسی طور پرایک ایسی عالمی جنگ کے لیے بالکل تیار ہی نہیں ہے جس میں مخالف چین یا روس جیسی طاقتیں ہوں، جو دونوں ہی تازہ دم بھی ہیں اور انہیں افواج، اسلحہ اور میزائلوں پر خرچ کرنے کے لیے کسی کانگریس نما جمہوری ادارے کے سوالات کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑتا۔ آئندہ آنے والی جنگ جس کا اعلان خود امریکہ نے عالمی سطح پرایک چار ملکی اتحاد بنا کر بالواسطہ طور پر کرتودیا ہے مگر امریکہ کواس میں کودنے سے پہلے اگلی دہائیوں بلکہ مستقبل والی قوت اور اہلیت (Next Generation Capabilities)کی ضرورت ہے۔ جبکہ امریکہ نے ایک عرصہ ہوا اپنے نئے اسلحہ کے تخلیقی پروگرام کو بھی روک رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کا زیادہ ترانحصار تین علاقائی اتحادی ممالک آسڑیلیا، جاپان اور بھارت پر بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ جاپان سوائے اس کے کہ جنگ میں سرمایہ فراہم کرے، کسی اور قسم کی کوئی مدد نہیں دے سکے گا۔ آسٹریلیا کی ٹیکنالوجی بہتر ہے لیکن اسے بھی مزیدبہتر بنانا ہوگا اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ تمام اسلحہ جاتی ذخیرے جن میں ایٹمی ہتھیار بھی شامل ہیں،وہ سب اس جنگ زدہ علاقے میں فوراً منتقل کرنا ہوں گے۔ تیسرا اتحادی ملک بھارت ہے جس کے پاس افرادی قوت کے علاوہ شاید کچھ اور نہیں ہے۔ بھارت کی اس کسمپرسی کا اظہار چین کے مشہور اخبار ’’گلوبل ٹائمز‘‘ میں چند عسکری تجزیہ کاروں کے سنجیدہ مضامین کے حوالوں سے کیا گیا ہے۔ اس جامع تجزیے کا عنوان ہے ’’اسلحہ کی خریداری بھارت کی فوج کو جدید بنانے میں کوئی مدد نہ کر سکے گی‘‘۔ (باقی آئندہ)