یاد رکھیے‘ دلیل کی کاٹ تلوار کی کاٹ سے زیادہ تیز ہوتی ہے۔ گزشتہ روز ایک ملاقات کے دوران سابق وزیر خارجہ پاکستان خورشید محمود قصوری سے میں نے پوچھا کہ بھارت جنگ چاہتا ہے یا امن؟ دلیل کے پیمانے میں نپا تلا ان کا جواب تھا کہ بھارت جنگ چاہتا ہے نہ امن‘ وہ حالات کو جوں کا توں رکھنا چاہتا ہے۔ آج کل ہر کوئی ایک ہی سوال پوچھ رہا ہے کہ بھارت نے پہلے امن کے لیے ہماری خواہشات کو خوش آمدید کہا اور بھارت کے دفتر خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے تصدیق کی کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران سائیڈ لائنز پر پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ شاہ محمود قریشی اور سشما سوراج کے درمیان ملاقات ہوگی۔ چوبیس گھنٹے بمشکل گزرے ہوں گے کہ ایک بار پھر بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان نے تصدیق شدہ ملاقات کی منسوخی کا اعلان کیا اور عذر گناہ بدتراز گناہ کے طور پر کچھ ایسے بہانے تراشے جن کا وجود ہی نہ تھا۔ بھارت نے پہلے اقرار اور پھر انکار کیوں کیا؟ بھارت نے ملاقات کا اقرار تو اس لیے کیا کہ خود بھارت اپنی ہٹ دھرمی کی بنا پر خطے میں تنہا ہوتا جارہا ہے نیز اس پر بھارت کے اعتدال پسند لوگوں اور عمران خان فینز کا دبائو بھی تھا اور عالمی طور پر بھی پاک بھارت مفاہمت پر زور دیا جارہا تھا۔ بھارت نے دوطرفہ ملاقات سے اس لیے انکار کیا کہ اسے غالباً اندازہ ہی نہیں تھا کہ بی جے پی اور نریندر مودی نے اپنی انتخابی کامیابی کے لیے جو مسلم اور پاکستان دشمنی کی آگ بھڑکائی تھی اس کے شعلے پہلے سے بلند ہو گئے ہیں۔ دسمبر میں ریاستی اور پھر 2019ء کے انتخابات میں مودی کو اپنی شکست دکھائی دے رہی ہے۔ اس وقت مودی سرکار پٹرول مہنگا کرنے کی بنا پر تنقید کی بوچھاڑ کا سامنا کر رہی ہے۔ اس پر فرانس کے سابق صدر فرانکوئس ہولاندے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ 2016ء میں ہولاندے کے دور صدارت میں بھارت نے ایک فرنچ کمپنی ڈزالٹ ایوی ایشن سے 8.7 بلین ڈالر کے 36 رافیل طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا۔ ہولاندے نے چند روز پہلے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا کہ اس سودے سے پہلے بھارتی حکومت نے ہمیں پیغام بھیجا کہ ہم بھارت کو یہ طیارے رلائنس ڈیفنس نامی کمپنی کے ذریعے فروخت کریں۔ یاد رہے کہ یہ کمپنی مودی کے بھارتی دوست انیل امبانی کی ملکیت ہے۔ بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کانگریس کے صدر راہول گاندھی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مودی اور انیل امبانی نے بھارتی فوج پر 136 ہزار کروڑ روپے کی سرجیکل سٹرائیک کی۔ راہول نے یہ بھی کہا کہ مودی نے بھارت کی روح سے غداری کی ہے۔ ملاقات و مذاکرات سے انکار پر فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بہت اچھا تبصرہ کیا کہ بھارت کسی مہم جوئی سے کام لینے کی غلطی نہ کرے۔ پاکستانی فوج وطن کے دفاع کے لیے مستعد ہے۔ تاہم امن کاراستہ جنگ نہیں مذاکرات ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی کسی غضبناکی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ البتہ جب وزیراعظم عمران خان نے اپنی نیک خواہشات کا یہ حشر دیکھا اور بھارتی ترجمان کو یہ کہتے سنا کہ عمران خان کا اصل چہرہ سامنے آ گیا ہے تو خان صاحب کا خون کھول اٹھا اور انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے انداز میں اظہار غضب کیا اور کہا کہ چھوٹے لوگ بڑے عہدوں پر آ بھی جائیں مگر وہ چھوٹے ہی رہتے ہیں۔ اس ذاتی حملے سے پاکستان کے امن کے لیے عالمی سطح پر مقبول ہوتے ہوئے موقف کو خاصا نقصان پہنچا۔ خان صاحب کو اپنے ٹویٹ صرف تہنیت اور تعزیت کے پیغامات تک محدود رکھنے چاہئیں۔ بھارت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ تحریک آزادی کشمیر اب خالصتاً کشمیری تحریک ہے‘ آزادی کا ولولہ جوانوں‘ بوڑھوں‘ کشمیری بہو بیٹیوں اور بچے بچے میں سرایت کر چکا ہے اور وہ اس کے لیے گزشتہ پندرہ بیس برس سے لاکھوں جانوں کی قربانی پیش کر چکے ہیں۔ بھارت کو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ ظلم و ستم اور قتل و غارت گری کو جتنا بڑھاتا ہے اتنا ہی کشمیری عوام میں اس کے خلاف غم و غصہ اور نفرت بڑھتی ہے اور شعلہ آزادی اتنا ہی بھڑکتا ہے۔ بھارت پیلٹ گنوں سے نوجوانوں کی آنکھوں پر گولیاں چلا کر انہیں اندھا کرتا ہے۔ بھارت نے انسانی حقوق کی کشمیر میں اتنی پامالی کی ہے کہ اب اس پر اقوام متحدہ کی رپورٹ بھی چیخ پڑی ہے۔ بھارت مسئلہ کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے بھی پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔ بھارت اچھی طرح سمجھتا ہے کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا مگر جب کبھی اس پر جنگ مسلط کی گئی تو پاکستان کی بری‘ فضائی اور بحری افواج نے دشمنی کا مردانہ وار مقابلہ کیا اور ایسے یادگار کارنامے سرانجام دیئے جو عسکری تاریخ میں آج تک سنہری حروف سے لکھے جاتے ہیں۔ 1965ء میں اسلحہ کی تعداد کے اعتبار سے اور فضائی جہازوں کی کمی کے باعث پاکستان قوت میں کہیں کم تھا مگر جذبوں اور شوق و شہادت کے اعتبار سے بھارت کا پاکستان سے کوئی مقابلہ ہی نہ تھا اور عملاً ایسا ہی ہوا۔ آج بھارت کی طرح پاکستان بھی ایک ایٹمی قوت ہے۔ ایٹم بم استعمال کرنے کا بھارت اور نہ پاکستان رسک لے سکتے ہیں کیونکہ یہ تباہی ہی تباہی ہے‘ تاہم روایتی ہتھیاروں کے اعتبار سے پاکستان بھارت سے کہیں آگے ہے۔ 1965ء میں پاکستان اسلحہ اور فاضل پرزوں کے لیے امریکہ کی طرف دیکھنے پر مجبور تھا مگر آج 2018ء میں پاکستان اسلحہ سازی اور گولہ بارود کی تیاری‘ جنگی طیاروں اور میزائلوں کے لحاظ سے خود انحصاری کی منزل پر پہنچ چکا ہے۔ اس لیے روایتی جنگ میں بھی پاکستان کا پلہ بھاری ہوگا۔ بھارتی جرنیل گاہے بگاہے اس طرح کے تبصرے کرتے رہتے ہیں کہ بھارتی فوج کے پاس انیسویں صدی کا اسلحہ ہے اور بھارتی فوجیوں کی جدید ترین پروفیشنل ٹریننگ بھی نہیں۔ پاکستانی افسروں اور جوانوں کی عسکری تربیت کی ساری دنیا نہ صرف مداح بلکہ قائل ہے۔ سابق گورنر بھارتی پنجاب نے بھارتی رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے بڑی پتے کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ وطن کے لیے کمٹمنٹ‘ جذبہ جہاد اور تزویراتی شعور کے اعتبار سے پاکستانی فوج کے نوجوان افسران ہمارے مقابلے میں بہت آگے ہیں۔ وہ ورلڈ ویو کا ادراک رکھتے ہیں اور اچھی طرح جانتے ہیں کہ عالمی و علاقائی سطح پر پاکستان کے سفارتی تعلقات و معاملات کی کیا نوعیت ہے۔ پاکستان نے روز اول سے بھارت کے ساتھ مذاکرات کئے‘ لیاقت علی خان سے عمران خان تک بھارتی حکمرانوں میں جواہر لعل نہرو سے لے کر نریندر مودی تک کئی بھارتی وزرائے اعظم نے کسی نہ کسی سطح پر پاکستان سے ڈائیلاگ کیا۔ پاک بھارت مذاکرات کی تاریخ جتنی طویل ہے اس سے طویل تر بھارت کی کہہ مکرنیوں کی فہرست ہے۔ بھارت خود مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں 1948ء میں لے کر گیا تھا وہ وہاں وعدہ کر آیا تھا کہ سردست جنگ رکوائی جائے اور حالات کے درست ہوتے ہی ہم کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق اس مسئلے کو حل کروائیں گے۔ فروری 1951ء کو بھارتی پارلیمنٹ میں بیان دیا کہ ہم نے اقوام متحدہ میں وعدہ کیا تھا کہ ہم مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی منشا کے مطابق حل کریں گے۔ ہم اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرسکتے۔ اس سے قبل اگست 1950ء میں پنڈت جواہر لعل نہرو وزیراعظم ہندوستان نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو ایک تار بھیجا تھا جس میں لکھا تھا کہ کشمیری عوام کی منشا معلوم کرنے کا بہترین طریقہ رائے شماری ہے اور ہم اس طریقے پر عمل کریں گے مگر اس کے بعد بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہنے لگا۔ بھارت کو سمجھ لینا چاہیے کہ مقبوضہ کشمیر کا بچہ بچہ جاگ اٹھا ہے۔ اب انہیں بندوقوں‘ توپوں اور بموں سے نہیں ڈرایا جاسکتا۔ بھارت اگر خطے میں امن چاہتا ہے اور اپنے 50 کروڑ باشندوں کو غربت کی پستیوں سے نکالنا چاہتا ہے تو اس کا راستہ جنگ نہیں امن ہے۔ امن کے لیے جنگی دھمکیاں اور گیدڑ بھبکیاں نہیں ملاقات اور مذاکرات کی ضرورت ہوتی ہے۔ یاد رکھئے دلیل کی کاٹ تلوار کی کاٹ سے تیز ہوتی ہے۔