محفل سے اٹھ نہ جائیں کہیں خامشی کے ساتھ ہم سے نہ کوئی بات کرے بے رخی کے ساتھ اس زندگی کا سانحہ کتنا عجیب ہے ہم دیکھتے ہیں موت کو لیکن کسی کے ساتھ سچی بات تو یہ ہے کہ اس وبا کے موسم میں تو موت نظر آنے لگی ہے۔ موت سے کس کو رستگاری ہے، آج وہ کل ہماری باری ہے۔ یہ تو ایک آفاقی سچائی ہے کہ ہر کسی کو اجل کا مزہ چکھنا ہے۔ مگر اب کے وبا میں تو ایسی پت جھڑ ہوئی ہے کہ توبہ ہے نیٹ آن کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ کوئی سیاہ پوسٹ سامنے آ جائے گی۔ ہمارے پیارے دوست محمد جنید اکرم کی رحلت نے تو بالکل سن ہی کر دیا۔ چلیے : شام ہوتے ہی اڑ گئے پنچھی وقت جتنا بھی تھا پرایا تھا اپنے جاوید اکرام کی لکھی پوسٹ دیکھی تو دیکھتا ہی رہ گیا۔ فوراً جاوید اکرام کو فون کیا کہ وہ میرے عزیزوں میں بھی ہے یاروں میں بھی۔ ہم دیر تک محمد جنید اکرم کی باتیں کرتے رہے۔ محمد جنید اکرم بڑے عرصہ سے بیمار تھے۔ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ وہ ادبی اور سماجی شہرت رکھنے والے خاندان سے تھے۔ معروف لیجنڈ فنکار سہیل احمد ان کے بھائی ہیں۔ دوسرے بھائیوں میں اورنگزیب اکرم اور جاوید اکرم ہیں۔ جاوید اکرم تو کلی فقیر دی۔ ایک پروگرام بھی کرتے رہے ہیں ان کے والد اکرم پولیس میں تھے۔ محمد جنید اکرم اردو کے پروفیسر تھے۔ کمال کی بات جو میں بتانا چاہتا ہوں کہ وہ شدید بیماری کے عالم میں بھی کلاس پڑھاتے تھے۔ مجھے پروفیسر جاوید اکرام نے بتایا کہ ان کے لئے سائیڈ پر بیڈ بھی لگوا دیا گیا تھا۔ حتیٰ کہ ان کے لئے علیحدہ واش روم کا بھی ساتھ ہی بندوبست کیا گیا۔ آخر جب ہمت جواب دے گئی تو چار سال پیشتر ریٹائرمنٹ لے لی۔ حیران کن آدمی تھے وہ ایک دن آدھمکے۔ میں نے بٹھایا اور کہا مجھے کہتے میں آ جاتا‘ اپنا نانا فقیر محمد فقیر کی تین چار کتب میرے سامنے کر دیں۔ میں اس کی ہمت اور حوصلے پر دنگ رہ گیا۔ خیر میں نے دو تین مرتبہ ان کی اس کاوش پر کالم بھی لکھے۔فقیر محمد فقیر پنجابی ادب کا سرمایہ ہیں محمد جنید اکرم پروفیسر تو اردو کے تھے مگر ایم اے پنجابی میں بھی کر رکھا تھا ۔ مجھے پے درپے کتب بھیجتے رہتے تھے۔ وہی کہ پست حوصلے والے تیرا ساتھ کیا دیں گے۔ زندگی ادھر آ جا۔ ہم تجھے گزاریں گے۔ محمد جنید اکرم کا ہفتہ میں دو مرتبہ ڈائیلسز ہوتا تھا۔ وہ جب ملتے تو مسکراتے ہوئے ہشاش بشاش نظر آتے۔ اصل میں فقیر محمد فقیر کی دعا بھی تھی شاید کہ سارے خاندان کے لوگوں میں فقیری نظر آتی ہے۔ کبھی کبھی وہ دوستوں سے کہا کرتے کہ یار لگتا ہے مجھ میں فقیری کی ف ضرور ہے۔ میں اس کی شہادت دیتا ہوں۔ وہ اپنی ماں جی کا تذکرہ بہت کرتے کہ انہی کی دعائیں ان کے شامل حال تھیں۔ سہیل احمد حالانکہ شوبز میں ہیں مگر ان میں بھی خاندانی شرافت اور نجابت دیکھی جا سکتی ہے۔ اپنے پروفیشن کے ساتھ جنوں کی حد تک وابستگی۔ ابھی میں ان کی وال پر ایک غزل دیکھ رہا تھا۔ یقین مانیے کہ میری چھٹی حس بتا رہی تھی کہ یہ جنید کی علامہ خادم رضوی سے وابستگی کا پتہ دیتی ہے۔ محمد جنید اکرم ایک عاشق رسولؐ تھے۔ وہ اکثر نعت کے شعر وال پر لگاتے۔ آپ اس غزل کا مطلع دیکھ لیں: ابھی تو گھر سے ہے نکلا جنازہ راہ میں ہے ہجوم شہر کا سارا جناز گاہ میں ہے چلیے اس کی غزت کا مقطع بھی آپ کے ذہنوں میں رہے گا: وصال یار سے بڑھ کر مزہ جنید اکرم کوئی جو پوچھے تو اس بے وفا کی چاہ میں ہے وہ اپنے نانا کو پیرو مرشد کہتے اور واقعتاً لگتا ہے کہ انہوں نے فقر محمد فقیر کو اوڑھ لیا تھا اور فقیر صاحب کے افکار ان پر غالب تھے۔ وہ اٹھتے بیٹھتے اپنے نانا کی بات کرتے۔ ان کا کلام سناتے ،کہنے کا مقصد یہ کہ اس وجہ سے ان کے تشخص میں ایک صوفیانہ رنگ جھلکتا تھا۔اس باعث انہوں نے ایسی بیماری سے اتنی دیر جنگ لڑی اور فقیر محمد فقیر کا فیض عام کیا۔بزم فقیر پاکستان کے تحت کیا کچھ اشاعت کیا۔انہوں نے جو کلام نانا کا سنایا‘اس میں سے دو شعر: تدھ بن کوئی دم غیر دا بھردا اے تے مورکھ منگتا جے کسے ہور دے دردا اے تے مورکھ مورکھ ترا اقرار جے کر دا اے تے مورکھ دانا ترا انکار جے کردا اے تے مورکھ جاوید اکرام نے فون کر کے ایک اور دردناک خبر سنا دی تو تذکرہ کرنا ضروری ہو گیا۔ ہمارے بہت ہی پیارے دوست آفتاب جاوید کی والدہ بھی کورونا کی نذر ہو گئی۔جاوید آفتاب بہت نفیس اور تہذیب والا آدمی ہے۔ وہ ایسے ایسے گیان لکھتا ہے کہ انسان داد دیے بغیر نہیں رہتا۔ ایک گیان اپنے قارئین کی نذر: علی اصغر کو میری آنکھوں میں دفن کرنا کہ میں روتا بھی رہوں اور اس کی پیاس بجھتی رہے راجا رشید محمود کی رخصتی کا دکھ بھی ہوا۔وہ بہت کمال کے نعت گو تھے۔ ان کے ساتھ کئی مشاعرے بھی پڑھے۔انتہائی عاجز اور نفیس الطبع۔ ان کے بے شمار نعتیہ مجموعے ہیں۔ پتہ چلا کہ انہوں نے سعودی حکومت سے لکھوا کے رکھا ہوا تھا کہ ان کی تدفین اس پاک زمین پر ہو۔ یقینا ان پر تفصیل سے لکھنا بنتا ہے کہ ایک عہد انہوں نے گزارا ، نعت میں زندگی کی۔ان پر بہت کچھ لکھا جائے گا۔ ان کا نعت کے حوالے سے بہت کام ہے ایک رسالہ بھی وہ نکالتے تھے۔ ماہنامہ کہکشاں نعت اس کا نام تھا۔ راجا رشید محمود کی کلیات حمد بھی آ چکے ہیں اور یہ اردو ادب کا اولین اعزاز ہے۔یہ کلیات 2010ء میں شائع ہوئے تھے۔ شاعر علی شاعر نے یہ شائع کئے ہیں۔اس کلیات میں ان کے چھ حمدیہ مجموعے بھی۔ وہ سیرت نگار بھی ہیں اور نقاد بھی۔ ان کے مجموعوں کی تعداد 65ہے۔ نوادرات ادب۔ کے نام سے انہوں نے ادب کو مالا مال کیا۔ ان کے دو پنجابی نعتیہ مجموعوں کو صدارتی ایوارڈ بھی ملا۔ بچوں کے لئے حجاز کے سفر نامے بھی ہیں۔وہ حمد و نعت کی فضا میں زندگی گزارتے تھے۔ یقینا یہ سب کچھ ان کے لئے توشہ آخرت ثابت ہو گا۔