امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کا عہد تمام ہُوا۔ٹرمپ امریکہ کی سیاسی اشرافیہ کے لیے ایک گھُس بیٹھیے تھے جنکا صدر بننے سے پہلے سیاسی طبقہ سے تعلق نہیں تھا۔ وہ اپنی دولت اور متحرک شخصیت کے زور پر ری پبلکن پارٹی کے ٹکٹ پرصدر بننے میں کامیاب ہوئے۔امریکی ریاستی اداروں اور بااثر اشرافیہ نے انہیںچار برس تک بااَمر مجبوری قبول کیے رکھا۔ جیسے ہی نئے الیکشن کا موقع آیا ان کی چھٹی کا پکا بندوبست کردیا۔گزشتہ تیس سال میں کوئی امریکی صدر ایسا نہیں جو دوسری بار منتخب نہ ہوا ہو۔یہ ہزیمت ٹرمپ کے حصّہ میں آئی ہے۔ ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ جان کنیڈی کے بعد بائیڈن دوسرے امریکی صدر ہونگے جن کا تعلق کیتھولک مسلک ہے۔ باقی امریکی صدور کا تعلق پروٹسٹنٹ مسلک سے تھا۔ وہ ذاتی زندگی میںپکے مذہبی آدمی سمجھے جاتے ہیں لیکن سیاست اور مذہب کی علیحدگی کے قائل ہیں۔ وہ ٹرمپ کی طرح امیر نہیں بلکہ متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔انہیں کم آمدن والے امریکیوں کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ ایک تاریخی بات یہ ہوئی ہے کہ امریکہ میں پہلی بار ایک خاتون کملا ہیرس نائب صدر منتخب ہوگئی ہیں جنکا خاندان بھارتی نژاد ہے۔ ٹرمپ الیکشن متنازعہ بنانے کے لیے جو بھی دعوے کریںحقیقت یہ ہے کہ ڈیموکریٹ پارٹی کے امیدوار اور سابق نائب صدر جو بائیڈن نئے امریکی صدر کا الیکشن جیت چکے ہیں۔ ٹرمپ اپنی ہزیمت چھپانے کو صرف تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں۔ اقتدار کی منتقلی کارسمی عمل جنوری میں مکمل ہو گا۔ ٹرمپ نے عدالتوں میں چند صوبوںکے الیکشن نتائج کو چیلنج کیا ہے۔ اگر چند ہزار ووٹ مسترد بھی ہوجائیں تب بھی بائیڈن کی برتری اتنی زیادہ ہے کہ ان کی فتح شکست میںتبدیل نہیں ہوسکتی۔امریکی صدارتی الیکشن کا فیصلہ پورے ملک میں ڈالے گئے مجموعی ووٹوں سے نہیں ہوتا بلکہ صوبوں کے مختص ووٹوں میں کامیابی سے ہوتا ہے لیکن مجموعی طور پرحاصل کیے گئے ووٹوں کی تعداد امریکی رائے عامہ کے رجحان اور موڈ جاننے کا اہم اشاریہ ہے۔سات نومبر تک ٹرمپ کو چھ کروڑ نوّے لاکھ ووٹ پڑے۔ بائیڈن کوتقریباً ساڑھے سات کروڑ ۔اس مرتبہ امریکہ میں ریکارڈ ووٹنگ ہوئی ہے۔ جیتنے اور ہارنے والے دونوں امیدواروں کو تاریخی تعداد میں ووٹ پڑے ہیں۔جو بائیڈن کی فتح میں اہم بات یہ ہوئی ہے کہ وہ اُن ریاستوں میں بھی کامیاب ہوگئے جہاں روایتی طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کی اکثریت ہوتی تھی لیکن گزشتہ الیکشن ( 2016) میںٹرمپ نے چھین لی تھیں۔ان میں مشی گن‘ وسکونسن اور پینسلوینیا شامل ہیں۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ تین دہائیوں کے بعد ڈیموکریٹ پارٹی کو ایری زونا اور جارجیا کی ریاستوں میںکامیابی حاصل ہوئی ہے جہاں ری پبلکن پارٹی کی مضبوط گرفت ہوا کرتی تھی۔ اسکا ایک سبب یہ ہے کہ امریکہ کی کچھ ریاستوں میں آبادی کی ترکیب تبدیل ہورہی ہے۔ وہاں سیاہ فام اور لاطینی نژاد افراد کی تعداد پہلے کی نسبت بڑھ گئی ہے۔یہ دونوں طبقے زیادہ تر ڈیمو کریٹ پارٹی کی طرف مائل ہیں۔جو بائیڈن کی فتح میں سیاہ فام اور عورتوں کے ووٹوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ ٹرمپ واضح طور پر سفید فام افراد کی نسلی برتری میں یقین رکھتے ہیں۔ گو ڈیموکریٹ پارٹی صدارتی الیکشن جیت گئی ہے اسے سینٹ میں اکثریت حاصل نہیں ہوسکی۔ وہاں اب بھی ری پبلکن کو معمولی بر تری حاصل ہے۔ اسکا بائیڈن کو نقصان یہ ہوگا کہ وہ بہت سے اعلیٰ عہدوں پر اپنی مرضی سے نامزدگیاں نہیں کرسکیں گے کیونکہ یہ تقرریاں سینٹ کی منظوری سے کی جاتی ہیں۔خارجہ پالیسی میں بھی امریکی سینٹ اہم کردار ادا کرتی ہے۔صدر بائیڈن حکومت تو بنالیں گے لیکن انہیں ری پبلیکن پارٹی کی جانب سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی رخصتی سے امریکہ کی خارجہ پالیسی اور عالمی سیاست میں کئی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ ٹرمپ ایران کے ایٹمی پروگرام کے سخت مخالف تھے ۔ انہوں نے صدر اوبامہ کے دور میں ایران کے ساتھ کیے گئے ایٹمی معاہدہ سے دستبرداری اختیار کی۔ ایران پر سخت پابندیاں عائد کردیں۔ امکان ہے کہ بائیڈن اس پالیسی کو تبدیل کردیں اور ایران کے ساتھ نسبتاً نرمی سے پیش آئیں۔ ایران کے لیے ٹرمپ کا رخصت ہوجانا خاصا نیک شگون ہے۔ اگر ایران پر سے امریکی پابندیاں کم یا نرم ہوتی ہیں تو پاکستان کے لیے ایران کے ساتھ تجارت بڑھانا اور قدرتی گیس کی پائپ لائن بچھانا ممکن ہوسکے گا۔ اسکے ہماری معیشت پر مثبت اثرات ہونگے۔ البتہ سعودی عرب کے موجودہ بادشاہ اور انکے ولی عہد محمد بن سلمان کیلیے ٹرمپ کی شکست ایک دھچکہ ہے۔ امریکہ کے مقتدر ریاستی ادارے محمد بن سلمان کو پسند نہیں کرتے۔ خاص طور سے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد امریکی ریاست سعودی ولی عہد سے ناخوش تھی لیکن ٹرمپ نے محمد بن سلمان کا پوری طرح ساتھ دیا۔ سعودی شاہی خاندان کے اندر اقتدار کے جو کشمکش چل رہی ہے اس میں اب محمد بن سلمان کی پوزیشن کمزور ہوگی۔ جن سعودی شہزادوں کے امریکی ریاستی اداروں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں ان کی حیثیت مضبوط ہوگی۔ ٹرمپ نے افغانستان میں امن عمل شروع کیا تھا۔ٹرمپ تیزی سے افغانستان سے امریکی فوجیں نکال رہے تھے۔ وہ اس جنگ سے جان چھڑوانا چاہتے تھے۔وہ افغان طالبان کے ساتھ ملکر کام کرنے کے لیے تیار تھے۔ امریکہ کے نزدیک صدر اشرف غنی کا کردار کم ہورہا تھا۔صدر بائیڈن یہ پالیسی شائد پوری طرح تبدیل تو نہ کریں لیکن وہ اشرف غنی کو بالکل بے یار و مددگار بھی نہیں چھوڑیں گے۔ہوسکتا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجوں کی واپسی کا عمل سست پڑ جائے۔ اس صورتحال سے بھارت فائدہ اٹھائے گا کیونکہ اشرف غنی بھارت کی جھولی میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ تاہم امریکہ کی بھارت سے قریبی شراکت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی متوقع نہیں کیونکہ چین کو محدود کرنے کی غرض سے بنائی گئی انڈو پیسیفک پالیسی کی ابتداء صدر اوبامہ کے دور میں ہوگئی تھی۔انڈیا اور امریکہ قریبی اتحادی رہیں گے۔ البتہ صدربائیڈن بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی پر انسانی حقوق‘ اقلیتوں کے حقوق اور کشمیریوں کی شہری آزادیوں کے احترام کے حوالہ سے دباؤ ڈالیں گے کیونکہ ڈیموکریٹ پارٹی کی انتطامیہ ان اُمور پر زیادہ سخت رویہ اختیار کرتی ہے۔ انڈیا کی سیاست میں ہندو انتہا پسند سیاست کے علمبردار نریندرا مودی کو جھٹکا لگے گا۔