ترک وزیر اعظم کے حوالے سے یہ خبر آئی ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کو ضم کرنے کے بھارتی فیصلے پر بھارت سے بات کریں گے۔ معاملات کی شکل نو کے بعد یہ پہلا حرف نیم تسلی ہے جو ہمیں سننے کو ملا ہے۔ نیم تسلی اس لئے کہ ترکی نے ابھی تک بھارتی اقدام کی مذمت نہیں کی اور ناقابل یقین حد تک یہ بھی کہ اس نے ہمارا ساتھ دینے کا اعلان بھی نہیں کیا۔ پاکستانی وزیر اعظم نے ترک وزیر اعظم کو فون کیا تو جواب میں انہوں نے کہا کہ معاملات کو ترکی غور سے دیکھ رہا ہے اور اسے صورتحال پر تشویش ہے۔ ہمارا بھلا تو حرف مذمت سے بھی ہونا‘ پھر یہ حرف تشویش اور تقریباً سو فیصد یہی جواب ملائشیا کے وزیر اعظم کا تھا۔ نہ کسی نے مذمت کی نہ ہمارے ساتھ کھڑے ہونے کا اعلان کیا۔ چین کے ردعمل پر بہت بات چیت ہو چکی ہے خلاصہ اس کا یہ ہے کہ اسے لداخ والے معاملے کی فکر ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا موقف واضح ہے متحدہ عرب امارات جس نے یمن کی جنگ میں ساتھ نہ دینے پر پاکستان کو عبرت ناک سزا کی دھمکی دی تھی آج کھل کر کشمیر پر میںبھارت کا اندرونی معاملہ قرار دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ کشمیریوں کی فلاح و بہبود کے لئے اس کی ہڑپ کاری مناسب ہے۔ ایران بوجوہ دیگر بھارت کے ساتھ ہے۔ اگرچہ بھارت نے امریکی فرمائش کی تعمیل کرتے ہوئے ایرانی تیل کی خریداری بند کر دی ہے لیکن عجوبہ بات یہ ہے کہ چاہ بہار بندرگاہ کی بھارتی تعمیر پر امریکہ کو ذرا بھی اعتراض نہیں‘ چنانچہ بھارت ایران بھائی بھائی ‘کوئی دراڑ نہیں آئی۔ بحیرہ عرب کے جنوب میں بحر ہند کے اندر مالدیپ نام کا ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ آبادی کوئی یہی لاہور یا کراچی کی ایک درمیانی سی ہائوسنگ کالونی کے برابر۔ مطلب ساڑھے چار پانچ لاکھ ۔ دو سال پہلے خبریں آئی تھیں کہ مالدیپ سے ہمارے اسلامی برادری والے تعلقات خوب گہرے ہو گئے ہیں۔ کل مالدیپ نے سرکاری ردعمل دیا کہا کہ مقبوضہ کشمیر کی انضمام کاری بھارت کا داخلی معاملہ ہے۔ سری لنکا کی خونیں بغاوت‘ تامل ٹائیگر تحریک نے ملک کو بکھیر کر رکھ دیا تھا۔ پاکستان اور اسرائیل نے سری لنکا کی بے مثال فوجی مدد کی۔ اس کے بغیر تامل بغاوت ختم ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ اس نے بھی کشمیر پر بھارتی اقدام کی تائید کی ہے۔ کویت اور قطر بھی خاموش ہیں اور خاموشی کا مطلب نیم بھارتی رضا مندی کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کی ’’ولولہ انگیز قیادت نے ساری دنیا کو پاکستان کی پشت پر لاکھڑا کیا اور بھارت کو تنہا کر کے رکھ دیا۔ جو کام ستر سال میں نہیں ہو سکا‘ وہ اب ہو گیا۔ واقعی ‘ سچ ہی تو کہا‘ ستر سال بھارت کو کشمیر کواس طرح ضم کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ جرأت تو کیا اس کی سوچ تک اس کے دل میں نہیں آئی۔ ولولہ انگیز قیادت ہمارے ہاں آتے ہی وہ ہو گیا جو ستر سال میں نہ ہوا۔ ٭٭٭٭٭ ایک امید افزا خبر البتہ آئی ہے۔ وفاقی وزیر علی محمد خاں نے اعلان کیا ہے کہ وہ سری نگر اور لال قلعہ دہلی‘ دونوں پر اسلام کا پرچم لہرانے والے ہیں۔ ان سے دو دن پہلے نسیم حجازی کے سرخ ٹوپ مجاہد نے ایک ٹی وی پر فرمایا‘ پندرہ بیس ہزار مجاہد کشمیر میں داخل کر دیے جائیں جو بھارت کی ستر ہزار فوج کو محصورکر دیں اور بھارت کو گھٹنوں کے بل گرا دیں۔ ابتدا اب کر دی جانی چاہیے۔ ہر اول دستے کے طور پر انہیں فوراً سے پیشتر مقبوضہ کشمیر داخل کر دیا جائے کہ تاکہ بھارت کو گھٹنوں کے بل گرانے کا عمل شروع تو ہو۔ ٭٭٭٭٭ علی محمد خاں نے پرچم لہرانے کی خوشخبری دیتے ہوئے غزوہ ہند کی روایت کا حوالہ بھی دیا۔ اس کا حوالہ ماضی میں (اوران دنوں پھر) مولانا سرخ ٹوپ کثرت سے دیتے آئے ہیں۔ یہ روایت صحیح ہے یا ضعیف؟ ہم آپ کوئی رائے دینے کے مجاز ہیں نہ اہل۔ یہ روایت کئی مجموعہ ہائے احادیث کے باب الفتن میں شامل ہے۔ کتاب الفتن کا ذکر آپ نے اکثر سنا ہو گا۔ یہ دراصل ایک کتاب کا نام نہیں۔ درجنوں کتابیں اس نام سے الگ الگ مصنفوں نے جداگانہ طور پر لکھی ہیں۔ مجموعہ ہائے احادیث میں آثار و علامات قیامت والے ابواب کا نام بھی کتاب الفتن یا باب الفتن ہے۔ علماء جانتے ہوں گے ان تمام کتاب ہائے الفتن اور ان کی روایات کے بارے میں علماء کی کیا رائے ہے۔ علامہ رشید رضا مصری مرحوم (صاحب تفسیر المنار) تمام مکاتب فکر کے نزدیک جید اور قابل احترام ہستی ہیں۔ وہ ان روایات کے یکسر منکر ہیں اگرچہ علمائے کرام ان کی اس رائے کو مسترد کرتے ہیں۔ ابن ابی دائود کے مجموعہ احادیث میں ایک ہی جگہ اس حوالے سے آٹھ روایات ہیں ابن خلدون نے انہیں موضوع قرار دیا لیکن علماء نے ان کی رائے مسترد کی۔ غزہ ہند والی روایت کا کوئی تعلق موجودہ زمانے سے نہیں ہے۔ روایت میں ہے کہ غزوے کا لشکر پلٹے گا تو اس کی ملاقات حضرت مسیح علیہ السلام سے ہو گی۔ یعنی یہ ورود ثانی کے دور کا معرکہ ہو گا اور ابھی ورود ثانی کی کوئی واضح نشانی نہیں ہے۔ اس روایت کو دور حاضر سے جوڑنا بذات خود بلا یقینی نہیں؟ ٭٭٭٭٭