درگاہ حضرت نظام الدین سے کافی پہلے ایک تنگ سے بازار سے گزرنا پڑتا ہے۔دونوں طرف بریانیوں، کبابچیوں، نان بائیوں اور چائے فروشوں کے خوانچے اور ریڑھیاں۔عام طور پر ہندوستان میں صفائی کے حالات بہت خراب ہیں۔گندگی ،کوڑا کرکٹ ،آوارہ کتے، بلیاں اور نئی دہلی سمیت بہت سے شہروں میں جارحانہ عزائم والے بندر۔سڑکوں پر آوارہ پھرتی گائیں اس پر مستزاد۔مزید بدقسمتی یہ کہ مسلمانوں کے مرکزی علاقوں میں صفائی کا حال زیادہ خراب ہے۔چنانچہ ہنومان جی کی کمی کے علاوہ باقی سب کچھ یہاں بھی اسی طرح تھا ۔ذرا سا آگے قدرے کشادہ جگہ پر بائیں ہاتھ غالب اکیڈمی کی عمارت ہے اور اس سے اور آگے وہ احاطہ جس میں بائیں ہاتھ غالب کا مزار ہے۔ سچ یہ ہے کہ غالب کا اردو زبان میں وہی مقام ہے جو اردو کے فروغ میں دلی کا۔دلی کو نکال دیں تو گویا اردو کا دل نکال دیا۔غالب کو نکال دیا تو گویا اس نگار کا زیور ہی اتار لیا گیا۔غالب کے بغیر اردو ایک اجڑی ہوئی نگار ہے۔جیسے اجڑی ہوئی دلی۔جہاں مزار غالب واقع ہے، وہ جگہ مرزا غالب کے سسر نواب الہٰی بخش خاں کے خاندان کی ملکیت تھی ۔ اس جگہ پر خاندان لوہارو کا ذاتی قبرستان تھا۔ اس قبرستان میں مرزا غالب کی اہلیہ امرائو بیگم ، غالب کے سسر، ان کی بیگم کے بھانجے زین العابدین عارف اور دوسری قبریں ہیں۔غالب کی اپنی خواہش کے مطابق انہیں سسرالی قبرستان میں دفن کیا گیا۔بہت مدت تک یہ مزار لاوارث پڑا رہاپھر تقسیم ہند کے بعد آوازیں اٹھیں۔چندے ہوئے اور بالاخر مزار غالب موجودہ شکل میں مکمل ہوا۔ دو سیڑھیوں کی اونچائی پر سنگ مرمر کا چھوٹا سا چبوترہ۔چبوترے پر ایک چھوٹا سا حجرہ نما کمرہ جہاں چار طرف سنگ مرمر کی منقش دیواریں اور جالیاں ہیں اور ایک وقت میں ایک ہی شخص کے کھڑے ہونے اور مرمریں تعویذ کے چار طرف پھرنے کی گنجائش ہے۔یہ اس باکمال کی آخری آرام گاہ ہے جس نے کہا تھا ؎ ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن خاک ہوجائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک زین العابدین عارف کی قبر پر ہم نے غالب کا وہ شعر یاد کیا جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور مزارغالب کے قریب ہی چونسٹھ کھمبا ہے۔چونسٹھ کھمبا جلال الدین محمد اکبرکے دودھ شریک بھائی مرزا عزیز کو کلتاش کا مقبرہ ہے۔ سن تعمیر 1623-ء 24 ئ۔ یہ عمارت سنگ مرمر کے چونسٹھ کھمبوں پر کھڑی ہے،اس میں 25گنبد ہیں اورچاروں طرف سنگ مرمر کی خوبصورت جالیاں لگی ہیں۔ ہم درگاہ کے اندر جانے کے لیے اس تنگ راستے کی طرف چلے جہاں دو طرفہ پھولوں ،نذرانوں اور چڑھاووں کی چادروں کی دکانیں ہیں۔یہ بل کھاتا تنگ اور طویل راستہ ہم نے دونوں طرف کے ان دکانداروں سے بمشکل بچتے بچاتے طے کیا جو ہر ہر قدم پر یہ چاہتے تھے کہ ہم ان سے خریداری کیے بغیر وہاں سے نہ گزرسکیں۔لیکن سب سے زوردار اور خاصے دھمکی آمیز جملے ان دکانداروں کے تھے جو پیسوں کے عوض زائرین کے جوتے کچھ دیر کے لیے رکھتے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ اگر ہم نے انہیں جوتے تھمائے بغیر ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو درگاہ کا تقدس پامال ہوجائے گاحالانکہ درگاہ کی دہلیز ابھی دور تھی۔خدا خدا کرکے دہلیز تک پہنچے اور یہاں سے آگے ننگے پاؤں ہی جانے کی اجازت تھی۔ اس درگاہ نے بہت لوگوں کو آخری پناہ دی تھی۔بلا تمیز و تخصیص ۔شاہ و گدا ،سلاطین،علمائ، اولیا، صوفیا، امراء ، شاعر، باکمال اور بے کمال سب کی خواہش ہوتی تھی کہ اسے اس درگاہ کے قرب کی مٹی مل جائے ۔شاہ جہاں کی بیٹی جہاں آرا بیگم ہو یا محمد شاہ رنگیلا۔سب یہیں آسودہ خاک ہوئے۔اتنے نامور جن کے نام بھی ہم نہیں جانتے ۔زمانہ انہیںبھول چکا اور ان کا نشان مٹی کی صرف ایک ڈھیری،پتھر کا ایک تعویذ یا لوح مزار رہ گیا۔بعض کا تو وہ بھی نہیں۔ کیا نظام ہے اللہ کا۔ جن ہستیوں سے لوگوں کو رہنمائی ،ہدایت اور فیض ملتے ہیں ۔دنیا سے چلے جانے کے بعد انہی ہستیوں کی اصل تعلیمات کے بجائے لوگوں کی اپنی خواہشات، خود ساختہ عقائد، اپنے رسوم و رواج ان کی ترجیحات بن جاتے ہیں۔ مزارات اور درگاہوں کا حال کم و بیش ایک سا ہے۔محبت ،عقیدت، دل سوزی ،جہالت، توہم پرستی، قصے کہانیوں اورعلاقائی رسوم و رواج کواس کلچر میں الگ الگ کیا جانا ممکن ہی نہیں رہا۔یہ مزارات اور شخصیات پسماندہ ترین طبقے کا غربت میں آخری سہارا بھی ہیں جو آنسو بہاتے ہوئے کپڑے کی کسی کترن میں گرہ دے کر کر یا جالی کے ساتھ تعویذ باندھ کر اپنی مراد کے لیے دعائیں کرتا ہے۔یہ اہل دل کے لیے سکون قلب کے مرکز بھی ہیں اور مجاوروں کے کاروبار بھی۔سب کچھ یہیں ہے اور افسوس کہ اچھائی کو برائی سے جدا کرنا شاید ممکن ہی نہیں رہا۔ ہم سنگ مرمر کے فرش والے ایک احاطے میں داخل ہوئے۔مفلوک الحال فقیر ایک طرف بچھے پڑے تھے۔کچھ ملنگ اور مجذوب سائے میں سستا رہے تھے۔قوالوں کی ایک ٹولی مزار کی طرف رخ کرکے اپنا کلام سنا رہی تھی۔کچھ عورتیں جو اپنے کپڑوں کے رنگوں اور انداز سے راجستھانی لگتی تھیں، نذرانہ چڑھانے تیز تیز مزارات کی طرف جارہی تھیں۔دوپہر کا وقت تھا اور دھوپ تیز تھی لہذا ہجوم نسبتاً کم تھا۔سامنے سنگ مرمر کے قبے والا مزار امیر خسرو کا تھا جس کی چوکھٹ کی پیشانی پر جلی قلم سے لکھا تھا۔’ ’ ملک الشعرا طوطی ٔہند ابوالحسن خواجہ حضرت امیر خسرو۔‘ ‘ خسرو دریا پریم کا الٹی وا کی دھار جو اُترا سو ڈوب گیا ، جو ڈوبا سو پار ہم پہلے خسرو کے حضور حاضر ہوئے۔گلاب اور عطر کی خوشبوؤں سے مقبرہ اور احاطہ مہک رہا تھا۔فاتحہ پڑھتے ہوئے میںآگرہ کے اس ترک زاد کا تصور کرتا رہا جس کے سینے کی آگ اسے جابجا لیے پھرتی تھی اور طرح طرح سے اظہار میں آتی تھی۔ایسا متنوع اظہار کہ نہ خسرو سے پہلے کسی کو نصیب ہوا نہ بعد میں۔ خوش خلعتی است جسم ولے استوار نیست خوش حالتے ست عمر ولے پائیدار نیست (خسرو) (جسم بہت اچھا شاہی لباس ہے لیکن دیرپانہیں۔زندگی بہت اچھی حالت ہے لیکن پائیدار نہیں۔) حضرت نظام الدین اولیاء اللہ کے حضور یہ دعا بھی مانگا کرتے کہ اے اللہ اس ترک بچے کے سینے کے سوز کے طفیل مجھے بخشش عطا کر۔ خسرو کے مزار کے پیچھے بڑی عمارت میں حضرت نظام الدین اولیاء کا مزار ہے۔کیا سلطانی ہے اس درویش کی جس نے تمام عمر بادشاہوں اور امراء کی صحبت سے گریز کیا۔بدایوں میں اکتوبر 1237ء میں پیدا ہونے والے سید زادے میں کیا محبوبیت تھی کہ لوگ کھنچے چلے آتے تھے۔بادشاہ ملاقات کی آرزو کرتے تھے اور امراء خانقاہ کے قریب اپنے گھر بنواتے تھے۔محبوببیت کا فرق دیکھنا ہو تو اس مزار اور ہمایوں کے مقبرے کے درمیان دیکھ لیں جو چند منٹ کے پیدل فاصلے پر ہے اور اتنی دور بھی کیوں جائیں۔اسی درگاہ میں شاہ ہند محمد شاہ رنگیلا بھی کہیں دفن ہے کسی کو قبر بھی نہیں پتہ۔ اندر مجاوروں کی بھرمار تھی جو ہمیں اپنے زیر نگرانی فاتحہ پڑھوانے پرمصر تھے۔ہم کسی نہ کسی طرح ان سے بچ کر قبر پر حاضر ہوئے۔بے حد ہجوم تھا اوراسی دھکم پیل میں ہم نے کسی نہ کسی طرح سلطان الاولیا کے حضور اپنا سلام پیش کیا۔یہ سعادت کم نہ تھی ۔ دلی آنا حاصل ہوگیا تھااور احسا س کے ساتھ ہم نے خانقاہ کو الوداع کہا۔