اچھا کیا کہ آپ نے اس کی چھٹی کرا دی۔ اس سے ایک تو یہ پتا چلا کہ حکومت حساس معاملات کے حوالے سے بے حس نہیں ہے۔ دوسرا اس سے ایک سبق اور بھی حکومت کو ملا ہو گا وہ یہ کہ ہر فیصلے پر عرش پر چڑھ کر بات کرنے کی عادت ترک کر دی جائے۔ جب میڈیا نے اس پر اعتراض کئے تو وزیر اطلاعات کا جواب اور انداز سن کر ہی مجھے اندازہ گیا تھا کہ یہ مشیر نہیں چلنے والا۔ میں عاطف میاں سے قطعاً واقف نہیں ہوں۔ مجھے نہیں معلوم ان کی عالمی سطح پر کیا شہرت ہے۔ وزیر صاحب نے بتایا کہ انہیں 5سال کے اندر نوبیل انعام ملنے والا ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کا تخصص کیا رہا ہے۔ کس وجہ سے وہ پاکستان کے لیے ناگزیر تھے۔ چلیے کھلے دل سے کام لیے لیتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے بارے میں بھی کہا جاتا تھا کہ ان کو مسلمان سائنسدان کہنا غلط ہے‘ مگر وہ پاکستانی تو ہیں‘ آپ ان سے ان کی شہریت تو نہیں چھین سکتے۔ عاطف میاں کے حوالے سے بات ذرا ٹیڑھی تھی۔ خاص طور پر اس وقت ہماری معیشت کا مسئلہ اتنا بنیادی ہے کہ اس کے لیے اعلیٰ ترین حکمت عملی کی ضرورت ہے اور ہم معاشی طور پر بھی سی پیک کی وجہ سے جس موڑ پر ہیں‘ اس کا تقاضا ہے کہ ایک ایسا شخص ہماری معیشت کی منصوبہ بندی کرے جس کی پاکستان اور پاکستان کے نظریے سے کسی دوری کا تصور بھی نہ کیا جا سکے۔ میں پھر عرض کرتا ہوں کہ میں ان میاں صاحب سے قطعاً واقف نہیں ہوں۔ اسے میری کم علمی سمجھ لیجیے‘ مگر جب اس طرح اچانک کوئی ہیرا چمکنے لگتا ہے تو مجھے شک پڑ جاتا ہے۔ ان دنوں تو ہمیں اس میدان میں قطعاً کسی شک میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے۔ اگر پاکستان کی سرزمین اتنی بانجھ ہو گئی ہے کہ اس کا کوئی نعم البدل نہیں تو الگ بات ہے۔ حکمرانوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص کسی بھی وجہ سے ان کے قریب ہو جائے اور دل کو بھا جائے تو وہ اسے سر پر بٹھا لیتے ہیں۔ وگرنہ مجھے یقین ہے کہ دنیا بھر میں ایسے پاکستانیوں کی کمی نہیں جو سارے ہمارے حکمرانوں کو معیشت پر اچھے مشورے دے سکیں۔ میں نے عرض کیا تھا کہ جب 2008ء کا عالمی اقتصادی بحران پیدا ہوا تو ایک ہی جگہ آٹھ نوبیل انعام یافتہ معیشت دانوں کے مضامین چھپے۔ سب نے مسئلے کا الگ الگ حل پیش کیا۔ آپ کسی کے سپرد جب اپنی معیشت کرتے ہیں یا اسے اس معاملے میں اپنا مشیر مقرر کرتے ہیں تو اس بات پر اعتبار کرتے ہیں کہ اس کا دیا ہوا حل درست ہو گا۔ وہ جو حکمت عملی پیش کرے گا وہ آپ کے سیاسی عزائم سے ہم آہنگ ہو گی مجھے ان صاحب کے بارے میں قطعاً معلوم نہیں کہ ان کے انتخاب میں کسی ایسی بات کا خیال رکھا گیا تھا۔ میں کوئی بدگمانی نہیں کرنا چاہتا‘ مگر وہ جو کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا‘ چھاچھ کو پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ تو ہم بہت سے عالمی شہرت کے معیشت دانوں کو بھگت چکے ہیں۔ ہماری معیشت جب تک ہمارے ہاتھ میں تھی‘ ٹھیک چل رہی تھی جب ’’غیروں ‘‘کے ہاتھ میں گئی تو پھر سنبھل نہ سکی۔ ایک صاحب ہمارے ہاں ایم ایم احمد ہوا کرتے تھے۔ شاید ہمارے پلاننگ کمشن کے سربراہ تھے۔ ان کا تعلق بھی اس کمیونٹی سے تھا جن سے عاطف میاں کا ہے ان دنوں ان کے بارے میں بہت شور مچا تھا۔ وزیر خزانہ شعیب اور یہ ایم ایم احمد نے ہماری معیشت کا وہ ڈھانچہ تشکیل دیا جو آج تک چل رہا ہے۔ یہ قرض لینا اور دوسرے بہت سے چونچلے ہم نے اسی زمانے میں سیکھے۔ ہمارے ہاں تاثر ہے کہ اس کمیونٹی کے جو لوگ عالمی اداروں سے وابستہ ہوئے ہیں وہ ایک عالمی ایجنڈے کے ساتھ مخلص ہوئے ہیں۔ اچھا کیا کہ حکومت نے فیصلہ بدل لیا۔ یہ ایک کلیدی پوسٹ تھی دوبارہ ایک بات دہرانا چاہتا ہوں کہ اس طرح کی باتوں پر جب اعتراض کئے جائیں تو منہ پھاڑ کر جواب دینے نہ بیٹھ جائے ۔ احتیاط برتئے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت کو بھی ایسی ہی صورت حال سے پالا پڑا تھا۔ اس کا جو نتیجہ نکلا وہ سب کے سامنے ہے۔ گناہ سبھی کا تھا پورے سیاسی ٹولے کا‘ مگر سزا صرف حکمرانوں کو اپنی اس بے احتیاطی کی وجہ سے بھگتنا پڑی۔ ایک بات میں زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری حکومت کو اندازہ ہو جانا چاہیے کہ اب وہ تندو تیز اپوزیشن نہیں ۔ امریکی وزیر خارجہ کے حوالے سے بھی ہم نے بے احتیاطی کا مظاہرہ کیا ہے۔ پہلے تو ہم نے ٹیلیفون پر کی جانے والی گفتگو کو متنازعہ بنا دیا۔ سفارت کاری میں ایسا نہیں کیا جاتا‘ پھر ہم نے امریکیوں کی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ جیسے نئے دور کا آغاز ہونے والا ہے۔ امریکہ نے ہمارا موقف سمجھ لیاہے۔ ایک نہیں کئی فقرے ایسے ہیں لگتا تھا کہ ہم اپنے لوگوں کو بتانا چاہتے تھے کہ پاکستان میں نئی حکومت کے آتے ہی امریکہ سدھر گیا ہے۔ اسی شام پاکستان میں اکثر ٹی وی چینلز نے صاف کہا کہ اصل اندازہ اس وقت ہو گا جب امریکی وزیر خارجہ دلی میں بیان دیں گے۔ دلی کے بیان کی ضرورت نہ پڑی‘ کیونکہ امریکہ کے دفتر خارجہ نے جو پریس ریلیز جاری کی‘ اس میں اور ہمارے بیانئے میں فرق تھا۔ وہی بات کہ ہمارا اصرارہے کہ ’’ڈومور‘‘ کی بات کی ہی نہیں۔ ادھر وہ جواب میں کہتے ہیں ہم کیسے یہ بات نہیں کریں گے۔ آخر ہمارے عوام سے کچھ چھپا نہیںکہ امریکہ کیا چاہتا ہے اور کیا کہہ رہا ہے۔ ہمیں اپنے عوام کو اعتماد میں بھی لینا ہے اور ذہنی طور پر تیار بھی کرنا ہے کہ ہمیں کسی صورت حال کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔ مخدوم شاہ محمود قریشی پہلے بھی وزیر خارجہ رہ چکے ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ دوسرے ممالک سے مذاکرات کسی خورشید شاہ سے مذاکرات نہیں کہ آپ نے اپنا موقف دے دیا۔ انہوں نے اپنی آپ نے کہا وہ غلط ہیں۔ انہوں نے کہا یہ غلط ہے آج بھارت سے اعلامیہ بھی آ گیا ہے۔ بھارت اور امریکہ کے درمیان یہ معاہدہ ہو گیا ہے کہ دائود ابراہیم کو پاکستان میں تلاش کیا جائے گا۔ اس کا مطلب سمجھتے ہیں؟ بھارت کا کہنا ہے کہ ان کا ایک شہری دائود ابراہیم ممبئی میں ہونے والے ہنگاموں کا ماسٹر مائنڈ تھا یہ دھماکے آئی ایس آئی نے کرائے تھے۔ اب اسے پاکستان نے پناہ دے رکھی ہے پاکستان اس سے انکاری ہے۔ اب اس معاہدے کا مطلب یہ ہے کہ بھارت اور امریکہ میں جوہری معاہدہ ہی نہیں چھوٹے چھوٹے معاملات پر بھی تعاون کرنے کا عہد ہوا ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ پٹھان کوٹ‘ ممبئی‘ اڑی اور سرحد پار دہشت گردی کے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ یوں لگتا ہے کہ بھارت کی پاکستان سے جنگ اب امریکہ کی جنگ بن گئی ہے۔ پٹھان کوٹ اور اڑی کے واقعات تو ابھی کل کی بات ہے۔ ان میں سے ایک کا مقدمہ تو پاکستان میں بھی درج کیا گیا۔ پاکستان کی اس وقت کی حکومت اس بارے میں تعاون کرنے کے اشارے بھی دیتی تھی۔ اب اگر بھارت اور امریکہ دونوں یہ سمجھتے ہیں کہ یہ پاکستان کا کیا دھرا ہے تو یہ بہت پریشان کن بات ہو گی۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا (باقی صفحہ 5نمبر2) ہے کہ اسلام آباد مذاکرات کے بارے میں ہماری لیپا پوتی کیا حیثیت رکھتی ہے۔ ہم کس کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ مجھے خواجہ آصف کا انٹرویو اچھا لگا۔ وہ ان مذاکرات کے بارے میں موجودہ حکومت پر کوئی حملہ نہیں کر رہے تھے۔ یہ کہہ رہے تھے کہ ہم یقینا مشکل میں ہیں‘ کچھ چھپانے کی ضرورت نہیں اور یہ کہ اس حکومت کو آئے ہوئے ابھی کتنے دن ہوئے ہیں‘ ہمیں دعا کرنی چاہیے کہ یہ کامیاب ہوں۔ میں بار بار یہ بتا رہا ہوں کہ ہمارے دو سب سے بڑے چیلنج معیشت اور خارجہ پالیسی ہیں۔ یہاں بھی یہ دو ہی زیر بحث ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ اس بارے میں کوئی سیاسی فائدہ نہیںاٹھایا جا رہا‘ کیونکہ یہ قومی معاملہ ہے۔ مشورہ میرا یہی ہے کہ حضور ذرا سوچ سمجھ کر۔ جو باتیں اچھی ہوں‘ ان کی تعریف ہونی چاہیے مگر ان کے اثرات کا بھی جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ کئی بار اچھی باتیں خراب نتائج بھی لے آتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ درست بات ہے کہ بعض سینئر افسر ایک عرصے سے ایک ہی صوبے میں ہیں۔ انہیں بدلنا چاہیے۔ بیورو کریسی کے لیے یہ درست فیصلہ ہے‘ مگر دیکھنا ہو گا اس پر عمل کیسے ہوتا ہے۔ یہ ذمہ داری ایک ایسی شخص کے سپرد ہے جو خیبر پختونخواہ میں اس حکومت کے ساتھ تھا۔ ایسا نہ ہو کہ کل کلاں کو شکایت آ جائے گی ہر معاملے کو پختونخواہی کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے۔ میں نے بیورو کریسی میں ایسی باتیں سنی ہیں اور بہت سی باتیں ہیں۔ تاہم اصولی طور پر فیصلہ درست ہے۔ اس طرح بلدیاتی نظام کو ازسر نو زندہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔اصولی طور پر یہ بھی ایک اچھا فیصلہ ہے۔ عرض کیا کہ اصولی طور پر عملی طور پر اس کا کیا رنگ بنتا ہے‘ وہ دیکھنا ہو گا۔ مشرف نے یہ کیا تھا کہ سارے اختیارات بلدیات کو اس طرح دیئے کہ درمیان میں صوبے غائب ہو گئے۔ کیونکہ وہ طاقت اپنے ہاتھ میں مرکوز رکھنا چاہتے تھے۔ اس لیے مرکز اہم تھا۔ صوبوں کو شکایت پیدا ہوئی۔18ویں ترمیم کے بعد یہ ہوا کہ سب کچھ صوبے لے گئے۔ وفاق ہی نہیں بلدیات بھی فارغ ہو گئے۔ صوبے چاہیں تو بلدیات نظام چلنے دیں اور جس طرح چاہے چلنے دیں اپنا اپنا قانون بنائیں۔ اس اختیار کو میرے سے لے کر آئین کے تحت لازمی کر دینا چاہیے۔ بلدیات کا نظام لازمی ہے اور اسے آئینی تحفظ حاصل ہو۔ آپ کی رضا پر منحصر نہ ہو۔ دل کرتا ہے کہ بعض بنیادی معاملات پر تفصیل سے بات کی جائے۔ مگر دیکھئے حکومت کیا کرتی ہے۔ بعض نعرے اچھے لگتے ہیں مگر عملی طور پر کچھ اور ہوتے ہیں۔ جب مشرف کا نظام آ رہا تھا تو پہلے یہ طے تھا کہ میئر یا ناظم شہر کا انتخاب براہ راست ہو گا۔ دلیل دی گئی تاکہ عام آدمی ہی منتخب ہو سکے۔ میں نے جنرل نقوی سے عرض کیا یہ آپ کیسے کہتے ہیں؟ ان دنوں کراچی میں قومی اسمبلی کے 13حلقے تھے ۔عرض کیا‘ کسی ایک حلقے سے انتخاب لڑنا کسی غریب آدمی کے بس میں نہیں ہوتا‘13حلقوں کو ملا کر بننے والے میئر کے حلقے سے یہ کیسے ممکن ہو گا۔ اور بہت سی باتیں ہیں۔ جو چاہے کیجئے‘ مگر یقین کر لیجیے ان کے نتائج درست نکلیں گے۔