جو کچھ گوجرانوالہ میں نہیں ہوا تھا‘ وہ کراچی میں ہو گیا ہے۔ اب لوگ خوفزدہ ہیں کہ جو کراچی میں نہیں ہوا‘ وہ کہیں کوئٹہ میں نہ ہو جائے۔ میں نے خوفزدہ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ چاہتا تو یوں بھی کہہ سکتا تھا کہ لوگ پرامید ہیں کہ جو کراچی میں نہیں ہوا وہ کوئٹہ میں ہو سکتا ہے۔ کراچی میں رہی سہی جھجک بھی اٹھ گئی۔ میں ایک عرصے سے عرض کرتا رہا ہوں کہ سندھ بالخصوص کراچی کا سارا بندوبست مصنوعی ہے۔ یاد ہے آپ کو وہاں رینجرز کتنے عرصے سے ہے اور بلاوجہ نہیں۔بھتہ خوری اور بوری بند لاشوں کے کلچر والے اس شہر میں اس کے سوا چارہ نہ تھا۔ میں نے وہ دن دیکھے ہیں جب الطاف حسین شہر میں چکراتا ہوا اچانک ایئرپورٹ پر نمودار ہوا اور لندن روانہ ہوگیا۔ یہاں کہا گیا کہ دیکھنے والے منہ دیکھتے رہ گئے۔ ان دنوں اندرون سندھ کی یہ حالت تھی کہ اس کی شاہراہوں پر رات کو سفر کرنا ناممکن تھا۔ راستے میں لوگ لوٹ لیے جاتے۔ دریائی علاقوں میں کچے کی زمینوں پر ان ڈاکوئوں کے ڈیرے تھے۔ جہاں اغوا برائے تاوان کے لیے بھی لوگ لائے جاتے۔ ان ڈاکوئوں کی ایک بڑی دلچسپ شرط ہوتی۔ وہ تاوان کے ساتھ ایک راڈو گھڑی اور بوسکی کا ایک تھان بھی طلب کرتے۔ سندھ کے علاقے میں ٹرینوں کے سفر پر کوئی ٹکٹ نہ دیتا۔ کسی کی جرات نہ تھی کہ وہ ان بن بلائے مسافروں سے ٹکٹ طلب کرے۔ لا اینڈ آرڈر کی صورت حال اتنی تشویشناک تھی کہ لگتا تھا کہ کسی وقت بھی سندھ کو باقی ملک سے کاٹ سکتے ہیں۔ جب شاہراہوں پر قافلے چلتے تو یوں ہوتا کہ جب بہت سی گاڑیاں اکٹھی ہو جاتیں تو ان کے آگے پیچھے مسلح دستے ان کی نگرانی کرتے اور یوں یہ قافلے منزل کی طرف روانہ ہوتے۔ ایسے میں اعلان ہوا کہ حکومت نے اندرون سندھ فوجی آپریشن کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ان دنوں کم از کم یہی لفظ استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ آپریشن شروع ہوگیا کہ ایک دن اچانک معلوم ہوا کہ اس آپریشن نے اندرون سندھ کو خیر باد کہہ کر کراچی کا رخ اختیار کرلیا ہے۔ اس پر کراچی والے بہت تلملائے۔ مگر بہت سے عناصر خوش تھے کہ کراچی میں بھی وہ صورت حال پیدا ہو چکی تھی جو کسی فوجی آپریشن کا تقاضا کرتی تھی۔ اگلا مرحلہ آیا تو اعلان کر دیا گیا کہ فوج کو واپس بلا لیا گیا ہے۔ اس کی ذمہ داری رینجرز کو سونپ دی گئی۔ وہ دن اور آج کا دن رینجرز وہاں تعینات ہے۔ ایم کیو ایم سے خوفزدہ لوگ یہ سب کچھ برداشت کرتے رہے۔ سندھ میں حکومتیں بھی بڑے جوڑ توڑ سے بنتیں حتیٰ کہ فیصلہ کیا گیا کہ یہاں کی اصل طاقت کو قابو کر کے اقتدار دیا جائے۔ ایم کیو ایم‘ پیپلزپارٹی اور اے این پی کا بے جوڑ اتحاد اسی کوشش کا نتیجہ تھا۔ کہانی کو مختصر کرتے ہوئے یہ عرض کرتے ہیں کہ سندھ بالخصوص کراچی میں ایک عرصے سے فوج‘ رینجرز اور خفیہ اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا پڑ رہا ہے۔ یوں سمجھیے کہ یہ ناگزیر ہے۔ سندھ کی حکومت درمیان میں کہیں نہ کہیں اڑی کرتی ہے۔ ایک بار ہر تین مہینے بعد رینجرز کے قیام کی جو صوبائی حکومت کو توسیع کرنا پڑتی ہے، اس سے انکار کیا گیا۔ تاہم بالآخر ایسا کردیا گیا۔ یہ غالباً اس بات کا اعلان تھا کہ ہم پر یہ سب مسلط کیا گیا ہے وگرنہ ہم تو نہیں چاہتے کہ صوبائی پولیس کی موجودگی میں کوئی وفاقی عسکری ادارہ یہاں دخل اندازی کرے۔ یہ مگر دکھاوے کی جنگ بن کر رہ جاتی۔ ایپکس باڈی بھی بنا دی گئی۔ مطلب یہ کہ فیصلے وزیراعلیٰ یا سندھ کی سول حکومت نے اکیلے نہیں کرنا۔ شاید اسی کے تسلسل میں یہ واقعہ ہو گیا۔ سندھ کی حکومت وفاق کے خلاف تو بہت بولتی ہے مگر اچھے بچوں کی طرح یہ نہیں بتاتی کہ وفاق سے ان کی اصل مراد کیا ہوتی ہے۔ وہاں وفاق کے مسلح اور خفیہ ادارے کار حکومت میں برابر کے شریک ہوتے ہیں۔ اسی زعم میں شاید اس بار کچھ زیادہ ہی ہوگیا ہے جس نے یہ سوچ کر کراچی پر دبائو ڈالا ہے‘ وہ اپنی حد سے کچھ آگے نکل گیا ہے۔ پھر اس کا ایک پس منظر بھی تھا۔ وہ بھی اپنا کام دکھا گیا۔ پس منظر نوازشریف کا خطاب اور اس خطاب پر وفاقی حکومت کا ردعمل‘ عسکری حلقوں نے تو بہت تحمل کا مظاہرہ کیا مگر وفاق گلی محلے کے لڑکوں کی طرح منہ پر ہاتھ پھیرتا نظر آیا۔ سب سے پہلے محمد زبیر‘ پھر مریم نواز نے اعلان کیا کہ آئی جی کے ساتھ کیا ہوا۔ سندھ گورنمنٹ صوبے میں سول ملٹری تعلقات کے اس پس منظر میں جس کا میں نے اوپر ذکر کیا‘ احتیاط دکھاتی رہی حتیٰ کہ بلاول کو میدان میں آکریہ کہہ کر اترنا پڑا کہ میں اتنا شرمندہ ہوں کہ اپنے مہمانوں کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہا۔ معلوم ہوا کہ آئی جی سمیت سندھ پولیس کے دو درجن سے بھی زیادہ اعلیٰ افسروں نے چھٹی کی درخواست دے دی۔ مریم پہلے ہی کہہ چکی تھی کہ نوازشریف ٹھیک ہی کہتے تھے کہ ملک میں ریاست سے بالا ریاست وجود رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں مناسب اقدام آرمی چیف نے اٹھایا جنہوں نے اپنے کور کمانڈر کو ہدایت کی کہ اس کی انکوائری کیجئے۔ چھٹیاں موخر کردی گئیں۔ کوئی اسے اب پولیس کی بغاوت کہہ رہا ہے۔ کوئی سندھ حکومت کی نااہلی مگر کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کا جواز پیش کر سکے۔ یہ بغاوت ہے نہ نااہلی بلکہ ایک ایسے ادارے کا احتجاج ہے جس کے چیف کی بڑی تذلیل ہوئی ہے۔ وہ کہتے ہیں ملک میں بہت ادارے ہوں گے ہم بھی تو ایک ادارہ ہیں۔ ہمارا چیف جنرل کی وردی پہنتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ سلوک کیا رنگ لائے گا۔ بات وہیں ختم کروں گا جہاں سے شروع کی تھی کہ جو گوجرانوالہ میں نہ ہوا وہ کراچی میں ہو گیا۔ خدا نہ کرے جو کراچی میں نہ ہوا وہ کہیں کوئٹہ میں نہ ہو جائے۔ وہ کیا ہے؟ مجھے بھی پتا نہیں!