کبھی اس نے مجھ کو جلا دیا کبھی اس نے مجھ کو بجھا دیا میں چراغ تھا تو ہوا نے بھی مجھے اک تماشہ بنا دیا میری آنکھ میں جو سما گیا سر آب نقش بنا گیا کہاں چاند باقی بچے گا پھر جو کسی نے پانی ہلا دیا سب ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے یہ ہونا ہی تھا جو زیادہ گرم ہیں انہیں دوسروں کا انجام دیکھ لینا چاہیے۔ نہ جانے یہ لوگ عبرت کیوں نہیں پکڑتے’’چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں‘‘ کبھی کبھی اپنے دوست انور ملک یاد آتے ہیں۔ مزے کے آدمی تھے‘ نہایت لحیم و شحیم‘ بعض اوقات ہلنا بھی مشکل تھا۔ ایک مرتبہ شعر پڑھا’’تارے توڑ کے لے آئوں گا امبر سے‘ لیکن آنے جانے میں کچھ دیر لگے گی‘‘ پاس ہی میں نے کہا’’وہ تو لگے گی‘‘ مجھے مارنے کو اٹھے۔ مگر اس وقت مجھے ان کا ایک کمال کا شعر یاد آیا جو مقتضائے حال کے مطابق ہے: جب بھی آتا ہے مرے جی میں رہائی کا خیال وہ مرے پائوں کی زنجیر ہلا دیتا ہے ابھی کل ہی میرے دوست آصف صاحب موجودہ صورت حال کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہنے لگے’’یار!سب نے ناک ہی تو کٹوا لی ہے۔ بلکہ یوں کہیں کہ طاقتور نے سب کو ناک آئوٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ میں نے کہا نہیں صاحب۔ پہلی بات تو یہ کہ ان کی ناک ہے ہی نہیں کہ انہیں ناک آئوٹ کرنا پڑتا۔ پھر یہ کوئی مقابلہ تو ہے ہی نہیں کہ رنگ میں اتریں۔ ویسے بھی جو کچھ کرنا ہوتا وہ تو شیر ہی نے کرنا ہوتا ہے۔ حیرت ہوئی ہے کہ فیصل واوڈا کے پاس کون سی بات فخر والی تھی کہ وہ اپنے ساتھ بوٹ اٹھا لائے۔ اگر ان کو تھوڑی سی سمجھ ہوتی تو وہ ایسا نہ کرتے؎ فرصت ہمیں ملی تو کبھی لیں گے سر سے کام اک در بنانا چاہیے دیوار چین میں ویسے اس غزل کا مطلع زیادہ بامعنی تھا‘ کیوں نہ آپ وہ بھی دیکھ لیں کہ ایسی ہی صورت حال کے شکار خان اور خان کے دوست ہیں مگر شاید ریت ان کے ہاتھ سے پھسلی جا رہی ہے۔ پھر بھی ایک کوشش جاری ہے مگر بقول سید ارشاد احمد عارف ان کے دوست ہی ساری کوششیں غارت کر رہے ہیں۔ اک دل بنا رہا ہوں میں دل کے مکین میں مشکل سے بات بنتی ہے مشکل زمین میں اس مٹی میں بہت نمی ہے۔ ان کے مطالبات جائز ہیں یا ناجائز مگر سیاسی ضرور ہیں۔ دوسری طرف ق لیگ کے لوگ ہیں جنہوں نے گھاٹ گھاٹ کا پانی پیا ہوا ہے اور آپ انہیں اپنی گھاٹ پر بٹھا کر بھی سیر نہیں ہونے دے رہے۔ باقی عوامل بھی اچانک بیدار ہوئے ہیں۔ سمجھ تو آپ کو بھی آ رہی ہے کہ سوکھے دھانوں پر کس نے پانی ڈالا ہے۔ اس میں کسی کا کوئی قصور نہیں آپ ہی کے ستو مُک چکے ہیں: زور و زر کچھ نہ تھا تو بارے میر کس بھروسے پہ آشنائی کی مزے کی بات تو یہ کہ بعض لوگوں کو مال مسروقہ ہضم نہیں ہو رہا۔ سب کو اپنی اپنی حیثیت معلوم ہے اور یہی جمہوریت ہے۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ ووٹ کی کیا حیثیت ہے اور آپ کی بھی کچھ اس سے زیادہ نہیں‘ سچ کو آپ کہاں تک چھپائیں گے۔ سچ بہت طاقتور ہے وہ آپ کو چھپنے نہیں دیتا‘ ننگا کر دیتاہے۔’’انہی بے ربط خوابوں سے کوئی تعبیر نکلے گی‘‘ آپ اپنے تئیں کچھ اپنے وطن کے لئے کریں‘ اس کا اجر بھی ہے اور آپ کی عزت بھی۔ حال تو آپ لوگوں کا یہ ہے کہ جیتنے کے بعد آپ کی شکل تک اہل علاقہ نہیں دیکھی۔ میں مثال کے طور پر اپنے علاقے کا ذرا سا حوالہ دے سکتا ہوں۔ یہ پی ٹی آئی کے ظہیر کھوکھر کا علاقہ ہے۔مرغزار سے ٹھوکر کی طرف ایک سڑک جاتی تھی‘ اب دنیا کا کوئی شخص خواہ وہ آثار قدیمہ کا رکن ہو ثابت نہیں کر سکتا کہ یہاں کوئی سڑک ہوا کرتی تھی۔ دو دن بارش ہو تو چار دن پانی یہاں سے نہیں نکلتا۔ اب بتائیے یہاں بھی فوج آ کر کچھ کرے۔ یہ سڑک جیسی تیسی ن لیگ کے دور میں پھر بھی بن گئی تھی۔ فراز یاد آ گئے: دیکھو یہ میرے خواب ہیں‘ دیکھو یہ میرے زخم ہیں میں نے تو سب حساب جاں برسر عام رکھ دیا لگتا ہے کچھ ہونے جا رہا ہے‘ خدا کرے کہ وہ موجودہ سے بہتر ہی ہو۔ کہ پہلے جو کچھ تبدیلی کے نام پر ہوا وہ تبدیلی تو ہے مگر مثبت نہیں’’دور کے ڈھول سہانے والی بات تھی‘‘ یہ محاورہ اسی کی سمجھ میں آتا ہے جس کے کان قریب کے ڈھول سے پھٹنے لگیں۔ہو سکتا ہے عمران خان سچے ہی ہوں اور ان کے سارے یو ٹرن اس کی مجبوری ہوں مگر دھند اتنی پڑی ہے کہ اس میں سب کچھ یہ گم ہو گیا۔ کچھ بخت کی بات بھی ہوتی ہے۔ ایک شخص کہتا ہوا پایا گیا کہ دیکھو کسی دور میں بھی اتنی جان لیوا سردی نہیں پڑی۔ گویا یہ یخ بستگی اور یہ برفانی تودوں کا گرنا بے برکتی ہو سکتی ہے۔ مگر یہ ہمارے اعمال بھی تو ہو سکتے ہیں۔ یہ ساری باتیں تو توہم پرستی ہے مگر عمران کے دوستوں میں شائستگی اور بردباری کی عدم موجودگی نے بھی موسم کو گرد آلود کیا۔ دانش اور حکمت دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ ملک کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھنا اور یہ یقین رکھنا کہ ان سے آپ کی خربوزے کی فصل محفوظ رہے گی ایک احمقانہ خیال ہے۔ یہ تو وہ ہیں جو آپ کی بکریاں بھی کھا جائیں گے۔ آپ عوام کو چھوڑ دیں آپ تو بیمار لوگوں کو بھی بے بس کر گئے۔ وہ غریب جو مفت دوائی حاصل کر لیتے تھے غم و الم کی تصویر بنے دکھائی دیتے ہیں۔ دیکھتے ہیں ان کا کوئی بل بھی منظور ہوتا ہے کہ نہیں‘ فی الحال تو وہ یوٹیلیٹی بلز پر بلبلا رہے ہیں۔ سب سٹیک ہولڈر ‘ وہ تاجر ہوں‘ بیورو کریٹ ہوں‘ وکیل ہوں یا ڈاکٹر سب اپنی بات منوانے کی طاقت رکھتے ہیں۔ عام آدمی اور خاص طور پر تنخواہ دار حکومت کے رحم و کرم پر۔ آپ ان کا اور کتنا رس نچوڑیں گے۔ بچے کا بسکٹ پیکٹ بھی بیس روپے کا ہو گیا۔ نیا سیٹ اپ اس سے کہیں بھیانک ہو گا کہ وہ اپنا اپنا حصہ بقدر جثہ لے کر موجودہ تبدیلی کو تبدیل کریں گے۔ میں ڈرتا ہوں کہ ’’جو کسی نے پانی ہلا دیا‘‘!ایک شعرکے ساتھ اجازت: جو داغ دل ہے سینے میں چراغ دل ہے سینے میں