حزب اختلاف نے میڈیا سے مل کر سینیٹ انتخابات کے سلسلے میں اس قدر شور مچایاکہ عوام کے اچھے خاصے حصے کو یہ محسوس ہونے لگا کہ اگر اپوزیشن سینیٹ انتخابات میں جیت جاتی ہے، تو ملک کا مقدر سنور جائے گا۔ پاکستان پر پڑے ہوئے سارے پرانے قرضے ختم ہوجائیں گے۔ وطن عزیز پر نیا سورج طلوع ہوگا۔ پرانے اندھیرے چھٹ جائیں گے۔ غربت اور مہنگائی کا مکمل خاتمہ ہوجائے گا۔ ٹوٹے پھوٹے اور دیہاتوں میں بند پڑے ہوئے سکول کھل جائیں گے۔ امن و امان کے دور کا آغاز ہوگا۔ جمہوریت کو چار چاند لگ جائیں گے۔ ملکی وقار اور قومی سلامتی کو سورج جھک کے سلام کرے گا۔ عالمی برادری میں پاکستان کا سر فخر سے بلند ہوجائے گا۔ مطلب کہ وہ سارے خواب سچ ہوجائیں گے جو آج تک دھرتی سے پیار کرنے والی آنکھوں نے دیکھے ہیں۔ ہمارے تمام جذبات میں نئی جھنکار گونج اٹھے گی۔ چند دن قبل تک ایسا لگ رہا تھا کہ یہ سینیٹ کے انتخابات نہیں بلکہ آزادی کی جنگ ہے۔ بات چند سینیٹروں کی ہوتی تو ٹھیک تھا مگر یہاں تو آسماں اور زمین کی قلابیں ملانے کی کوشش جاری تھی۔ایک طرف شیر دھاڑ رہے تھے اور دوسری طرف تیر چل رہے تھے۔ یہ عام اور سادہ سینیٹ کا انتخابی شیڈول نہ تھا بلکہ تیسری عالمی جنگ کا سماں تھا۔ حزب اختلاف کا پورا زور تھا کہ کسی بھی طرح وزیر اعظم عمران خان کو شکست دی جائے۔ پاکستان کی پارلیمانی اور سیاسی جماعتیں جو سینیٹ انتخابات میں عمران خان کو نیچا دکھانا چاہتی تھیں وہ اگر اتنی محنت عوامی مسائل کے حل کرنے کے لیے کرتے تو سارے نہیں البتہ پچیس فیصد مسائل تو حل ہو ہی جاتے۔ مگر ہمارے سیاستدان مثبت محنت کرنے میں یقین نہیں رکھتے۔ اگر کسی منفی مشن کو مکمل کرنا ہے تو وہ سر دھڑ کی بازی لگانے سے بھی باز نہیں آئیں گے۔ 3مارچ کے روز ہمیں اس بات کا صرف احساس نہیں ہوا مگر ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ نیب کا نام سن کر آئی سی یو میں داخل ہونے والے ارکان عمران خان کا مقابلہ کرنے کے لیے کانپتے ہاتھوں اور کمزور جسم کے ساتھ بھی کراچی سے اسلام آباد تشریف لائے اورانہوں نے انتخابات سے قبل ہی اعلان کردیا تھا کہ وہ حکومت کے ووٹ بھی لینگے۔ وہ عمل کیسے ہوا؟ لوٹوں نے کتنے نوٹوں میں اپنے ووٹوں کو بیچا؟ کس کس نے بیچا؟ کہاں کہاں بیچا؟ اس سلسلے میں قوم کو مکمل اندھیرے میں رکھا گیا۔ صرف ڈھول پر زور تھا اور رقص کا مقابلہ تھا۔مستی کے عالم میں جشن برپا تھا۔ اس جشن میں قوم کو تماشائی کا کردار ادا کرنے کے لیے نفسیاتی طور پر مجبور کیا گیا۔ یہ جو سب کچھ تھا وہ ناقابل برداشت تھا مگر اس کو برداشت کیا گیا۔ پاکستان ایسا مظلوم ملک ہے جس نے کرپٹ اور جھوٹے حکمرانوں ؛ سیاستدانوں اور آمروں کو ساری زندگی برداشت کیا ہے۔ اک ستم اور سہی کے مصداق یہ تماشا بھی ہو چکا۔حالانکہ اس بار تماشہ ؛ تماشہ کم اور سچائی کے رخسار پر تماچہ زیادہ تھا۔ کیوں کہ جس فتح کا جشن منایا جا رہا تھا کہ جشن جھوٹا تھا۔ وہ فتح جھوٹی تھی۔ جب قوم کو ایک جرم پر افسوس کرنے کے بجائے جشن منانے پر اکسایا جائے تو پھر کس تہذیب اور تمدن کی بات کریں گے۔ کیا جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی طرح سے ووٹ حاصل کیے جائیں؟ عوامی سطح پر قرآن پر ہاتھ رکھوا کر پیسے دلواکر غریبوں اور ناداروں سے ان کے ووٹ خریدے جاتے رہے ہیں مگر جب پیسوں سے عوامی نمائندوں کو خریدا جاتا ہے، تو پھر قومی وقار تباہی کے کنارے پہنچ جاتا ہے اور قومی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔بدھ کے روز اس ملک میں یہی ہوا۔ کرکٹ کو سٹے بازی نے تباہ کیا اور سیاست کو سرمائے نے ۔ پھر کیسی جمہوریت اور کہاں کی حب الوطنی؟ سیاست کو جھوٹے مقابلوں کا میدان بنانے والوں کومعلوم ہونا چاہیے کہ یہ ایک سیٹ کا معاملہ نہیں تھا۔ یہ جمہوریت اور ملکی سالمیت کاایشو تھا۔ آپ ملک کی باگ ڈور ایسے ہاتھوں کو کس طرح سپرد کرسکتے ہیں جو ہاتھ بکتے ہیں۔ بکاؤ ہاتھ ملک کی حفاظت کس طرح کر سکتے ہیں۔ کیا بکنے والے ممبران اور ان کو خرید کرنے والے سیاستدانوں کو یہ احساس تھا کہ ایک ممبر کی کامیابی کے پیچھے صرف پارٹی کا ٹکٹ نہیں ہوتا بلکہ اس جماعت کے رہنما اور اس جماعت کے ورکروں کی جدوجہد اور ان کا پسینہ بھی ہوتا ہے۔ ایک ممبر کی فتح میں قومی اور عوامی امنگ بھی ہوتے ہیں۔ جوش اور ولولے بھی ہوتے ہیں۔ یہ صرف ایک تنظیم کی نہیں بلکہ ایک تحریک کی بات بھی ہوتی ہے۔ قومی امنگوں اور خوابوں کو خریدنے اور بیچنے والے وہ قومی مجرم ہیں جن کو کسی صورت معاف نہیں کرنا چاہئیے۔ حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم کی پوری کوشش تھی کہ سینیٹ کے انتخاب کو ایک ایسے سیاسی جال میں تبدیل کیا جائے جس میں وزیر اعظم عمران خان کو جکڑ کر این آر او دینے پر مجبور کیا جا سکے۔پی ڈی ایم کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ ایک سیٹ کی جیت ان کے لیے سیاسی اور اخلاقی سطح پر ایک ایسی شکت بن جائے گی، جس کے باعث وہ قوم سے اپنے چہرے چھپانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ اور کل وہی ہوا۔ پی ڈی ایم کی طرف سے قومی اسیمبلی میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ قوم سے چہرہ چھپانے کے مترادف تھا،حزب اختلاف کو اس بہت ہی سادہ سی بات پر سوچنا چاہئیے کہ وہ ایسا کام کیوں کرتی ہے، جس کے باعث اسے قوم سے منہ چھپانا پڑے؟ پی ڈی ایم نے سوچا تھا کہ سینیٹ میں چند ممبران خرید کرکے اور ایک آدھ سیٹ چوری کرکے وہ عمران خان کو پریشان کردینگے مگر انہوں نے سوچا ہی نہ تھا کہ عمران خان اس کارروائی کا جواب قومی اسیمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے صورت میں دینگے۔ عمران خان نے اس بار وہی کیا جو ایک ایسا لیڈر کرتا ہے جس کا ضمیر صاف ہو۔ یہ اعلان ایک ایسا لیڈر کر سکتا ہے جس کو اقتدار کی بھوک نہ ہو۔ جب اصول اور اقتدار کے درمیاںایک چیز کے انتخاب کا سوال اٹھے تو لیڈر وہ ہے جو اقتدار کو چھوڑنے اور اصول کے ساتھ کھڑا ہونے کے لیے تیار ہو۔ عمران خان نے اعتماد کا ووٹ قومی اسیمبلی کی صورت پوری قوم سے لیا ہے۔ یہ اسمبلی اقتدار کی اسمبلی نہیں ہے۔ یہ قوم کی اسمبلی ہے۔ عمران خان نے قوم سے اعتماد کا ووٹ لیکر حزب اختلاف کو نہ صرف بھاگنے پر مجبور کر دیا ہے بلکہ انہوں نے اپنے آپ پر لگائے گئے تمام الزامات کو ایک فیصلے سے صاف کرکیا،اپنے کردار کو بالکل بے داغ کردیا ہے۔ جس طرح سونا آگ میں جل کر کندن بن جاتا ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم اعتماد کا ووٹ لیکر اپنی دوسری اننگ شروع کرتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے اپنے ایک فیصلے سے اپنی حکومت کو نہ صرف مضبوط کیا ہے بلکہ انہوں نے پی ڈی ایم کے جھوٹ کا سارا پول کھول کر رکھ دیا ہے۔ کاش! پی ڈی ایم اور ان کے حامی حلقوں کو یہ چھوٹی سی سچائی سمجھ میں آجائے کہ جھوٹ کی فتح کبھی بھی دیرپا نہیں ہوتی۔ یہ عمل تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوا ۔ تاریخ جھوٹی فتحوں سے بھری پڑی ہے۔ تاریخ میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ سچ ہار جاتا ہے اور جھوٹ جیت جاتا ہے۔ جھوٹ کی فتح عارضی ہوتی ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ جھوٹ وقتی طور پر ہی سہی مگر تب تک جیتتارہے گا اور سچ وقتی طور پر سہی مگر کب تک ہارتا رہے گا؟