کورونا کے سیاہ بادل جھٹنا شروع ہوئے، تو نئے تعلیمی سال کا طلوع ہوتا سورج بھی دیکھنے کو میسر آیا۔ اگر چہ ہر سال ہی نیا تعلیمی سال اور اس کا آغاز دیکھنے کو ملتا رہا ، لیکن یہ سال میرے مادرِ علمی کے لیے پچھلے برسوں سے کچھ مختلف تھا۔ اس سال گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ،کالا شاہ کاکو، کے نئے کیمپس میں، تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز کرنے جا رہی تھی۔ شہرِ لاہور سے بالکل دور، ایک ویرانے میں ، تازہ اور جواںجذبوں اور خوابوں کی آماجگاہ کی تکمیل کو ممکن بنانا تھا۔ فیصلہ کٹھن تھا، پر ناممکن نہیں۔ ہسٹری ڈیپارٹمنٹ کو کالا شاہ کاکو منتقل کیا گیا، مگر اِس اعزاز کے ساتھ کہ یہ شعبہ اب’’ـ انسٹیوٹ‘‘ کا درجہ رکھتا ہے۔ ہم لوگ اس امر سے بہت کم واقفیت رکھتے ہیں کہ انسٹیٹیوٹ کا درجہ ڈیپارٹمنٹ سے بڑا ہوتا ہے ، بہرحال قانون کی تعلیم کو بھی جی سی یومیں متعارف کروایا گیا،اور یوں ڈاکٹر محمداقبال لاء سکول کا قیام ممکن ہوا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے میڈیا اینڈکمیونیکیشن سٹڈیز کے شعبہ کی تشکیل ہوئی۔ اِس شعبہ کے آغاز کی مجھے بے حد خوشی تھی۔ اگر چہ میں میڈیا سٹڈیز کا سٹوڈنٹ نہیں، ادب کا طالب علم ہوں، لیکن گزشتہ کچھ عرصہ، خاص طور پر لاک ڈائون کا دورانیہ جس برادری میں گزرا ، ان میں سے بیشتر کا تعلق براہ راست ماس کمیونیکیشن سے تھا۔ لاک ڈائون بھی ایک منفرد تجربہ تھا۔ آن لائن کلاسوں کے بعد یونیورسٹی کی سرگرمیاں نہ ہونے کی وجہ سے فارغ وقت بہت ہوا کرتا تھا۔ طبیعت کو چونکہ ’’ ٹِک‘ ‘کر بیٹھنے کی عادت نہیں، اِس لیے کچھ نہ کچھ کرنے اور کر گزرنے کی آرزو رہتی ۔ اِسی طبیعت نے پہلے کالم لکھنے کی طرف راغب کیا۔ کالم سے اگلا سلسلہ ریڈیو کا شروع ہوا۔ وہاں بطور پروگرام ہوسٹ کام کرتے کرتے، ایک نجی ٹی وی چینل پر انٹرن شپ کا موقع مل گیا۔ یعنی دن میں کلاسوں کے بعد، باقی کا سارا وقت نیوز چینل اور ریڈیو پرگزرتا۔ انٹرن شپ مکمل ہوئی۔ پھر فارغ بیٹھنا پڑا۔ ظاہر ہے، بیٹھا تو جانا نہیں تھا،سو اپنی ایک سال کی کارگزاری اٹھا کر ایک اور چینل پر پہنچ گئے۔ چینل والوں نے ’’آڈیشنـ‘‘ ریکارڈ کیا۔ آڈیشن پاس ہوا اور میں نیوز کاسٹر ہو گیا۔ یہ پوری کہانی چند جملوں میں سما گئی، لیکن یہ ساری کوشش در اصل ڈیڑھ سال پر محیط ہے۔ اس سارے وقت سے حاصل کردہ بے تحاشہ تجربات ہیں۔ کئی ایسی حقیقتوں سے بھی پردہ ہٹا جنہیں جانے، سمجھے اور ان سے نبردآزما ہوئے بغیر، آپ اس معاشرے میں چل نہیں سکتے۔ سو کچھ اسباق نئے کام کرنے والوں کے گوش گزار کرنا چاہوں گا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ عملی زندگی میں آپ کا پالا کئی ایسے لوگوں سے پڑتا ہے جو بظاہر آپ کے سینئر ہوتے ہیں، لیکن ان کی ذہنیت کسی ایسے کمپلیکس کا شکار ہوتی ہے کہ وہ اپنے ماتحت کو اچھا کام۔۔۔ اول تو کرنے نہیں دیں گے، اور اگر وہ کرتا پکڑا جائے، تو اسے ڈانٹ ڈپٹ کر خاموش کر ادیں گے۔ پھر یہ کہ اکثر آپ کی محنت کو قابل قبول نہیں سمجھا جائے گا۔ آپ کی بات سوفیصد درست ہے، لیکن آپ کے سینئر سے اختلاف رکھتے ہیں۔ سو اِ س سے صرف ایک ہی نتیجہ اخذ ہو سکے گا اور وہ یہ کہ آپ کی بات غلط اور افسر کی صحیح ۔ لیکن اس سب میں دل برداشتہ ہو کر ، خاک ڈال اور آگ لگا والی پالیسی کام نہیں دیتی۔ صبر ، نماز اور مثبت سوچ ہی ایک حل نظر آتاہے۔ سوچتا ہوں اگر ماحول واقعی مشکل ہو، تو اِس میں بھی توچھپے کچھ فوائد ہوں گے ہی۔ ایک فائدہ تو یہ نظر آتا ہے کہ یہ وقت چھاننی کی طرح کام کرتا ہے۔ آپ مشکل تجربہ سے گزرتے ہیں، تو کئی ایسی غیر ضروری چیزیں جو آپ ساتھ لیے پھر رہے ہوں، پیچھے رہ جاتی ہیں۔ آپ کو اپنی ترجیحات کا تعین کرنا آجاتا ہے۔ پھر آپ کو اپنی خامیوں کا اندازہ ہونے لگتا ہے، کہ کیا کیا کہاں کہاں سے بہتر کیا جا سکتا ہے۔اپنے آپ کو اپنے شعبہ میں بہتر سے بہترین کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ عموما یہ دورانیہ تھوڑے عرصہ کے لیے آتا ہے۔ دل برداشتہ ہونا یا بغاوت کر دینا مسئلوں کا حل نہیں ہوتا ۔صبر اورمنزل پر نظر ہو تو یہ وقت بھی گزر جاتا ہے۔ اقبال ؒ نے کہا تھا: ہر شاخ سے یہ نکتہ پیچیدہ ہے پیدا پودوں کو بھی احساس ہے پہنائے فضا کا ظلمت کدئہ خاک پہ شاکر نہیں رہتا ہر لحظہ ہے دانے کو جنوں نشو ونما کا فطرت کے تقاضوں پہ نہ کر راہِ عمل بند مقصود ہے کچھ اور ہی تسلیم و رضا کا جرات ہو نمو کی تو فضا تنگ نہیں ہے اے مردِ خدا ، ملکِ خدا تنگ نہیں ہے گورنمنٹ کالج میں جرنلزم کو سب سے پہلے 1987ء میں بطور کورس متعارف کروایا گیا۔ 2002ء میں یونیورسٹی کا درجہ ملتے ہی ، اس کورس کا نام ماس کمیونی کیشن رکھ دیا گیا۔ 2002ء میںماس کمیونیکیشن کوڈیپارٹمنٹ کی حیثیت ملی۔ اور اب ڈیپارٹمنٹ آف میڈیا اینڈ ماس کمیونی کیشن کے نام اور عنوان سے اِس سلسلے کا نیا باب رقم ہوچکاہے۔ جی سی کی فضا کا یہ خاصہ ہے کہ یہاں سانس لینے والے علم کی خوشبو سے سیراب رہتے ہیں۔ کالا شاہ کاکو کی خاموشیوں کے حلقہ میں اگر کوئی حرف و حکایت کا چراغ روشن کر سکتا تھا، تو یقینا وہ صرف اور صرف جی سی یونیورسٹی ہی تھی۔ کہ جس کے فارغ التحصیل جب جب اور جہاں جہاں، لفظ سے لفظ اور خیال سے خیال کا سلسلہ جوڑتے رہیں گے، مرجھائے ہوئے دلوں ، اور مرجھائی ہوئی سر زمینوں کو خوش رنگ اور خوشبو دار بناتے رہیں گے۔ ٭٭٭٭٭