بادشاہ تھا یا کوئی اور۔ اسے بتایا گیا کہ درزی کپڑا ضرور چوری کرتے ہیں۔ انہیں کوئی نہیں باز رکھ سکتا۔ اس نے درزی کو کپڑا اور سلائی مشین دے کر کمرے میں مقید کر دیا اور باہر پہرا بٹھا دیا۔ گھر سے درزی کا بیٹا آیا اور کمرے کی کھڑکی سے لگ کر باپ سے باتیں کرنے لگا۔ باپ کو اس کی کسی بات پر غصہ آ گیا۔ اسے کھینچ کر جوتا دے مارا۔ جوتا کھڑکی سے ہو کر‘ باہر‘ دورجاگرا۔ بیٹے نے جوتے کے اندر ٹُھنسا ہوا کپڑا نکالا‘ نیفے میں اڑسا‘ جوتا باپ کو واپس دیا اور گھر بھاگ گیا۔ جوتے کا یہ استعمال خاص ہے عام نہیں! دنیا کا قدیم ترین جوتا آرمینیا میں آثار قدیمہ والوں نے دریافت کیا۔ یہ پانچ ہزار سال پرانا تھا۔ بھدی سی بے ہنگم جوتا نما چیز۔ چمڑے کے تسمے! اس سے بھی پہلے‘ لوگ جنگلوں اور پہاڑیوں میں چلتے ہوئے ‘ پائوں چمڑے کے تھیلوں میں ڈال کر ‘ پنڈلیوں پر رسی سے باندھ لیتے۔ دور افتادہ پہاڑی علاقوں میں مونجھ یا بان سے بنے ہوئے رسی کے جوتے کئی لوگوں نے اس زمانے میں بھی دیکھے ہوں گے۔ کالم نگارکی نانی جان کے گھر میں لکڑی کی کھڑائوں تھی۔ ہم بھی پہن کر چلتے اور گر پڑتے۔ بدھ مت کے عروج کے زمانے میں ٹیکسلا میں عظیم الشان یونیورسٹی تھی۔ فارغ التحصیل ہونے کے لئے آٹھ برس لگتے تھے۔ عام طور پر‘کورس کے اختتام پر صاحب استطاعت طالب علم اپنے استاد کو چھتری‘ پگڑی اور کھڑائوں کی ایک جوڑی بطور نذرانہ پیش کرتے تھے۔ شروع میں جوتے واٹر پروف نہیں ہوتے تھے۔ بارش یا سخت گرمی میں لوگ ننگے پائوں چلتے تھے۔ پنجاب کے دیہات میں بھی پیدل سفر کے دوران خواتین جوتے اتار کر چلتی تھیں۔ شاید اس لئے کہ جوتے خراب نہ ہوں۔ ڈھنگ کی ایک آدھ ہی جوڑی ہوا کرتی تھی جس کی خوب خوب حفاظت کی جاتی۔ انیسویں صدی کے آغاز میں جوتے‘ بڑے پیمانے پر‘ مشینوں سے بننے لگے۔ 1812ء کے لگ بھگ برطانوی فوج کے لئے جوتے مشینری کی مدد سے وسیع پیمانے پر بنے تاہم آج تک ترقی یافتہ ملکوں میں بھی ہاتھ سے بنے ہوئے جوتے ہی بہترین سمجھے جاتے ہیں اور گراں ترین! برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے اقتدار سے رخصت ہوتے ہوئے 2007ء میں بتایا کہ دس سالہ عہد وزارت میں انہوں نے جوتوں کا ایک ہی جوڑا استعمال کیا۔ یہ لندن کی مشہور زمانہ کمپنی’’چرچ‘‘ کا بنا ہوا تھا۔ اصل میں یہ جوڑا ٹونی بلیئر نے اٹھارہ برس پہنا۔ اس عرصہ میں ایک بار اس کے سول تبدیل کرائے۔ یہ ہینڈ میڈ یعنی ہاتھوں سے بنے ہوئے جوتے تھے۔ سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ارزاں جوتے اصل میں جھوٹی اور جعلی بچت ہے۔سستے جوتے‘بار بار لینے پڑتے ہیں۔ آرام دہ بھی نہیں ہوتے۔ ایسا نہیں کہ جوتوں کا ’’استعمال‘‘ شاعری میں نہیں ہوا۔ عاشق جوتے کھانے کے لئے بدنام ہیں مگر شعرا نے جوتوں کو ادب میں داخل کر لیا۔ جوش نے کفش(جوتے) کو تعلی میں استعمال کیا ؎ نجوم و شمس و قمر دیکھتے ہیں حسرت سے مری کلہ کے نہیں کفش کے نگینوں کو حالیؔ نے نمازیوں کو خبردار کیا ؎ اپنے جوتوں سے رہیں سارے نمازی ہشیار اک بزرگ آتے ہیں مسجد میں خضر کی صورت مولانا ظفر علی خان بازار میں جوتوں کی دکان پر کھڑے تھے۔ سامنے کانگرس کا جلوس آ رہا تھا جس کے شرکا احتجاجاً برہنہ پا تھے۔ ظفر علی خان نے فی البدیہہ کہا ؎ کانگرس آ رہی ہے ننگے پائوں جی میں آتا ہے بڑھ کے دوں جوتا اکبر الہ آبادی نے شکوہ کیا ؎ بوٹ ڈاسن نے بنایا میں نے اک مضموں لکھا ملک میں مضموں نہ پھیلا اور جوتا چل گیا صائب نے نصیحت کی کہ ؎ راستان زامیزشِ کج سیرتان کج می شوند کفش گردد زاختلاطِ پائی ناہموار‘ کج اچھے بھلے لوگ‘ بری صحبت میں رہ کر بگڑ جاتے ہیں جیسے جوتا‘ ٹیڑھے پائوں میں پہنا جاتا رہے تو ٹیڑھا ہو جاتا ہے! ہمارا لوک ادب گواہ ہے کہ قصور کے کفش ساز اپنے فن میں ماہر نہیں تھے ورنہ یہ گیت اتنا مشہور نہ ہوتا ؎ جُتی قصوری پیرے نہ پوری ہائے ربّا وے سانوں ٹُرنا پیا یعنی قصور کی بنی ہوئی جُوتی پائوں میں فٹ نہیں آ رہی اوپر سے چلنا بھی پڑ رہا ہے یہ گیت بہت فنکاروں نے گایا مگر روایتی حوالے سے سریندر کور کا زیادہ مشہور ہے کیا کسی کو یاد ہے ایک مغنیہ ہوا کرتی تھی۔گل بہار بانو؟ جس کی گائی ہوئی غزل زبان زدِ خاص و عام تھی ۔ چاہت میں کیا دنیا داری‘ عشق میں کیسی مجبوری لوگوں کا کیا‘سمجھانے دو‘ ان کی اپنی مجبوری سنا ہے اب یہ فنکارہ بیمار ہے اور بہاولپور اپنے گھر میں عملاً نظر بند۔ غالباً ذہنی مسئلہ ہے!جُوتے پر اس کا گایا ہوا گیت بھی مشہور ہوا ؎ جُتی تینڈی چیک مچیکاں‘ وچ طلے دی تار وے مشرقی پنجاب کی معروف گلو کارہ بلجندر کور نے (جسے عام طور پر کور بی کہا جاتا ہے) جوتی پر گیت گایا جو سرحد کے دونوں طرف ہٹ ہوا ؎ جُتی پٹیالے دی تے لاہور دیا بالیاں کسی زمانے میں امرتسر اور پٹیالہ کی جوتیاں معروف تھیں پھر پاکستان میں بنا ہوا کھسہ‘ پوری دنیا میں مشہور ہوا۔ اصل میں یہ زریں (طلے والی) جوتیاں نواب اور راجے مہاراجے پہنتے تھے۔ جہانگیر کا پہنا ہوا کھسّہ نما جوتا سلیم شاہی کے نام سے مشہور ہوا جو کرتے اور پاجامے کے ساتھ پہنا جاتا ہے۔ ہماری روایت کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ نئے لباس پر مبارک دی جاتی ہے مگر نئے جوتوں پر مبارک نہیں دی جاتی بلکہ ’’دشمن زیر‘‘ کہا جاتا ہے کہ دشمن ہمیشہ مغلوب رہے! دانائوں کا قول یہ بھی ہے کہ کسی کو ملنے جائیں‘ خاص طور پر مخالف کو‘ تو جوتے اچھی نسل کے بہت عمدہ ہونے چاہئیں اس لئے کہ دیکھنے والے کی پہلی نظر جوتوں پر پڑتی ہے یہ مقولہ بظاہر درست نہیں لگتا۔ دیکھنے والے کی پہلی نظر چہرے پر پڑتی ہے۔ ہاں ‘ جس زمانے میں ملاقاتی گھوڑے پر سوار ہو کر آتا تھا تو رکاب میں رکھا ہوا پائوں پہلے نظر آتا ہو گا اس لحاظ سے آج بھی مہمان گاڑی سے اترتا ہے تو پہلے پائوں ہی باہر نکلتا دکھائی دیتا ہے۔ ہر گائوں میں ایک خاندان کفش سازوں کا ضرور ہوتا تھا۔ موچی کہلاتے تھے(آج کل’’شو ڈیزائنر!) یہ لوگ دیسی جوتیاں بناتے تھے۔ سادہ بھی اور طلے والی بھی۔ مردانہ اور زنانہ جوتیوں میں کچھ خاص فرق دیکھنے میں نہیں آتا تھا۔ دائیں اور بائیں پائوں کی بھی الگ الگ جوتی نہیں ہوتی تھی۔دونوں کی شکل یکساں ہوتی تھی۔ ہاں ! کچھ عرصہ پہننے کے بعد پائوں اپنی اپنی بناوٹ کی بنیاد پر اپنی اپنی جوتی الگ کر لیتا تھا۔ یہی بات اوپر صائب کے شعر میں اچھی اور بری صحبت کے ضمن میں کہی گئی ہے۔ دیسی جوتی کی نوک ہوتی تھی۔ اوپر اٹھی ہوئی پھر مڑ کر پائوں کی طرف واپس جاتی ہوئی! پہلے تو یہ نوک اس لئے بنائی جاتی تھی کہ جوتا خوشنما لگے مگر حال ہی میں اس کا ایک اور مصرف سامنے آیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی!پوری کی پوری‘ جوتے کی نوک پر رکھی جا سکتی ہے! جن ملکوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی ہے‘ ان بیچاروں کو سائنس اور ٹیکنالوجی رکھنے کے لئے بڑی بڑی‘ ظاہر اور خفیہ لیبارٹریاں بنانا پڑتی ہیں۔ یہ اعزاز ہمیں میسر آیا ہے کہ اب تک کی تمام سائنس اور ٹیکنالوجی ہمارے جوتے کی نوک پر سما جاتی ہے‘ جہاز سے لے کر انٹرنیٹ تک! بائی پاس آپریشن سے لے کر گردوں اور جگر کی پیوند کاری تک! ڈی این اے سے لے کر آلہ سماعت اور کنٹیکٹ لینس تک ! ع ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی!!