میں حیران ہوں کہ ہمارے ہاں جوتے کو اس قدر پذیرائی کیوں ملتی ہے۔ ابھی چند یوم پہلے ہی تو میں نے اس جوتے کا ذکر کیا تھا جو میٹل کا بنا ہوا تھا اور اس میں اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے جاپانی مہمان وزیراعظم کو چاکلیٹ اور سویٹ پیش کی تھی۔ اس جوتا ڈش پر جاپان نے بہت احتجاج کیا تھا کہ ان کے ہاں جوتے انتہائی ناپسندیدہ شے ہے کہ وہ اپنے دفتروں اور گھروں میں بھی جوتے پہن کر نہیں آتے۔ باہرہی اتار دیتے ہیں چہ جائے کہ ان کے وزیراعظم کے دستر خوان پر یعنی ڈائننگ ٹیبل پر جوتا رکھ دیا گیا۔ خیر میرا یہ کالم آپ پڑھ چکے ہوں گے۔ اس کا پنجابی ترجمہ برادر مدثر بٹ نے اپنے اخبار بھلیکھا میں بھی شائع کیا۔ مجھے کیا پتہ تھا کہ ایک مرتبہ پھر مجھے جوتے پر ایک اور کالم باندھنا پڑے گا۔ یقینا جوتے میں کوئی ایسی طلسماتی طاقت ہے کہ یہ جہاں بھی ہو اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ اس کا تذکرہ چل نکلتا ہے۔ یہ بش پر بھی پھینکا گیا اور نوازشریف پر بھی۔ عمران خان اس اعزاز سے بال بال بچا اور یہ اعزاز علیم خان کے حصے میں آ گیا۔ خیر آج تو مجھے اس جوتے کا ذکر کرنا ہے جو سندھ اسمبلی میں فنکشنل لیگ کی رکن نصرت سحر نے شہلا رضا کو دکھایا جوکہ ڈپٹی سپیکر کے فرائض نبھا رہی تھیں۔ ایک دوسرے کی قیادت پر لفظی گولہ باری کے دوران کسی وزیر کے نازیبا جملے پر، جس میں حیا کا ذکر تھا نصرت سحر نے جوتا دکھا دیا اور ساتھ ہی یہ گرہ بھی لگائی کہ ابھی تو جوتا صرف دکھایا ہے آئندہ مار بھی دوں گی۔ نصرت سحر کی وہ تصویر کہ جس میں وہ باقاعدہ اپنا پائوں اٹھا کر جوتا دکھا رہی ہیں وائرل ہو گئی۔ ان کا جوتا پورے میڈیا پر چھایا رہا۔ ہرچینل نے جوتا چلایا اور خوب چلایا۔ تلخی کافی بڑھ گئی تھی۔ یہاں تک کہ شہلا رضا نے اپنے صوابدیدی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نصرت سحر کو ایوان سے نکال دیا اور ایک یوم کی پابندی بھی لگا دی۔ نصرت نے کہا کہ پی پی کے وزیر جوتے ہی کے مستحق ہیں کہ وہ خواتین کی عزت نہیں کرتے اور نہایت نازیبا جملے اچھالتے ہیں۔ تاہم وہ نازیبا جملے اسمبلی کی کارروائی سے یقینا نکال دیئے گئے ہوں گے لیکن ایسے جملے لوگوں کے ذہن و دل سے کبھی نہیں نکلتے۔ شہلا نے یہ بھی کہا کہ محترمہ ضیا دور کی پیداوار ہیں۔ ویسے بھی ضیا دور کو جوتے سے بہت مناسبت ہے۔ اگرچہ وہ بوٹ جوتے کے معنی میںآتا ہے۔ اس دور میں افسانہ ’’بوٹ‘‘ بھی لکھا گیا۔ یقینا ضیا حکومت بھی جوتے کے زور پر کی گئی لیکن مصیبت یہ ہے کہ ہم خود ان بوٹوں کو دعوت دیتے ہیں۔ سیاستدان جب مخالف کو تبدیل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر خود ہی بوٹوں کی طرف دیکھنے لگتے بلکہ انہیں آواز دیتے ہیں۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ خود ہی بہتر جانتے ہیں کہ جب سیاستانوں کی جوتوں میں دال بٹنے لگتی ہے تو اوپر سے بوٹ آ جاتا ہے۔ فی الحال میں لائٹ بات کرنے کے موڈ میں ہوں۔ میں تو نصرت سحر کے جوتے پر بات کر رہا تھا اور یقینا خاتون کے جوتے کو جوتی کہا جاتا ہے۔ سینڈل بھی تو کہتے ہیں اور یہ کس قدر دشوار کام تھا کہ ڈیسک سے پائوں بلند کر کے اپنا جوتا دکھاتا۔ میرے ذہن میں یہ بات آ رہی تھی کہ نصرت سحر کی دھمکی کارگر ہو گئی ہے تو اب کے وہ سچ مچ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے جوتا چلا ہی نہ دے، کسی وزیر کی طرف اچھال ہی نہ دے۔ شہلا رضا کو چاہیے کہ وہ اس دھمکی کو سنجیدگی سے لیں اور حفظ ماتقدم کی کچھ تدابیر ضرور کریں۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی ایسا قانون ہی پاس کردیا جائے کہ سندھ اسمبلی کے تمام ممبران جوتے باہر اتار کرآئیں۔ یعنی نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔ جوتوں کے بغیر اسمبلی میں آنے سے اسمبلی کا تقدس بھی بڑھ جائے گا۔ یا کم از کم یہ فیصلہ کرلیا کہ ممبران ذرا ہلکے جوتے پہنیں جو ٹارگٹ تک پہنچ بھی جائیں تو زیادہ نقصان نہ ہو۔ یہ بھی تو ہے کہ ممبران جوتے اتارنے میں اپنی ہتک محسوس کریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ اگر سندھ اسمبلی میں جھگڑا ہوا تو سب ایک دوسرے کے جوتوں پر نظر رکھیں گے۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنے ساتھ بیگ میں اضافی جوتا لے آئے۔ خیر بیگ تو انٹرنس پر چیک ہو سکتے ہیں۔ دیکھا جائے تو یہ جوتا اچھا خاصا آلہ حرب ہے۔ یہ صرف دکھانے پر ہی اپنا کام کردیتا ہے۔ مجھے ظفر علی خان کا شعر یاد آ گیاَ کانگرس آ رہی ہے ننگے پائوں جی میں آتا ہے بڑھ کے دوں جوتا ایک نہایت دلچسپ واقعہ حافظ محمود شیرانی کا یاد آیا۔ وہ ڈلہوزی شوز پر جوتا پسند کر رہے تھے۔ دکان کا مالک زبان دان تھا۔ شوخی میں کہنے لگا ’’حضور اتنے جوتے پڑے ہیں آپ کو کوئی پسند ہیں نہیں آیا ہے۔‘‘ اس کے سامنے بھی تو استادوں کے استاد تھے۔ اختر شیرانی کے والد اپنے پائوں میں پہنے ہوئے جوتے کی طرف اشارہ کرتے کہنے لگے ’’اسی کے دام بتا دو، وگرنہ اتاروں جوتا۔‘‘ جو بھی جوتے کا انسانی زندگی میں بہت عمل دخل ہے۔ امریکہ کی ایک خاتون نے تو باقاعدہ ہابی کے طورپر ہزاروں جوتے اکٹھے کئے تھے۔ ظاہر ہے ہزاروں جوتے پہننے کے لیے تو اکٹھے نہیں کیے جاتے۔ کسی کی تحقیر کرنے کے لیے بھی تو ہم جوتے کا سہارا لیتے ہیں کہ ’’میرے جوتے کی نوک پر۔‘‘ کسی کے جوتے سیدھے کرنا احترام میں ہی آتا، بلکہ جو کسی کے جوتوں میں بیٹھنا، یہ عجز کی علامت بھی بن جاتے ہیں۔ کہتے ہیں ہارون الرشید نے اپنے بچوں کے استاد سے کہا تھا کہ وہ انہیں ایسا انعام دے گا جو وہ کسی کو نہیں دے سکتا۔ جب بچوں کا استاد آیا اور پھر جانے لگا تو ہارون رشید نے ان کے جوتے اٹھاکر ان کے سامنے رکھے کہ پہنیے۔ ہم استاد کو یہ بھی تو کہتے ہیں سب کچھ آپ کے جوتوں کے طفیل ملا ہے۔ اس میں بلیغ اشارہ جوتے پڑنے کا بھی ہے۔ جب سے انسانی تہذیب نے چلنا سیکھا ہے تب سے جوتا اس کے پائوں میں ہے اور اسے کسی صورت الگ نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ لوگ تو جوتے پر ذرا سی مٹی بھی نہیں پڑنے دیتے۔ فوج میں جوتے چمکانے باقاعدہ حکم نامے میں شامل ہیں۔ باقاعدہ جوتے چمکانے کا مقابلہ ہوتا ہے۔ ایک آدمی اس مقصد کے لیے ہر افسر کو دیا جاتا ہے۔ جوتے کو پاپوش بھی کہا جاتا ہے۔ یہ لفظ انگریزی میں بھی ہے۔ کبھی لکڑی کی کھڑاویں بھی استعمال ہوتی تھیں۔ چلیے چھوڑیئے جوتے پر بات تو ختم ہی نہیں ہوگی۔ پی پی کے سوچنے کی بات ہے کہ وہ نصرت سحر نے کہا ہے کہ پی پی کے وزیر جوتے ہی کے قابل ہیں۔ بلاول کو چاہیے کہ وہ ان کی قابلیت کے بارے میں ان کو کچھ سمجھائیں بجھائیں۔ یہ کوئی اچھا تعارف نہیں۔ وہ خواتین کیساتھ کیوں تمیز سے بات نہیں کرتے۔ پھر ایسے جملے جنہیں اسمبلی کی کارروائی سے حذف کرنا پڑے آخر کیوں بولے جاتے ہیں۔ یہ تو بھلا ہو نصرت سحر کا کہ اگر وہ کسی کی سمت جوتا اچھال دیتیں تو وہ ممبر بھی جوتا کلب میں شامل ہو جاتا کہ اس میں پہلے ہی بڑے بڑے نام ہیں۔ رسوائی تو ہوئی مگر ٹارگٹ ہونے والے کو شہرت ضرور مل جاتی۔ جو بھی ہے جوتے کا توڑ ابھی تک سامنے نہیں آیا کہ اس کے وار سے کوئی بچ بھی جائے تو بدنام پھر بھی ہو جاتی ہے۔ یعنی جوتے کا نہ کوئی جوڑ ہے اور نہ توڑ۔ یہ بھی جادو کی طرح سر چڑھ کربولتا ہے۔ سندھ اسمبلی میں اچھا ہوا کہ سانپ بھی مر گیا اورلاٹھی بھی نہیں ٹوٹی۔ ویسے بھی مارے سے ڈرایا زیادہ اچھا ہوتا ہے۔ بہرحال کوئی آنکھیں دکھائے یا ہاتھ دکھائے مگر جوتا دکھانا سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ کاش شہلا رضا اپنی مخصوص مسکراہٹ لبوں پر لاتے ہوئے نصرت سحر سے کہتیں نہ اپنے جوتوں کو اپنے سر پر رکھ لو تو اتنا جواب کافی ہوتا۔ ہم بھی کالم نہ لکھتے مگر وہ تو برہم ہو گئیں اور یوں سحر کا وار کامیاب ہوگیا۔