میجر صاعقہ گلزار ہمارے لیے امریکہ سے ایک شاندار اعزاز لے کر آئی ہیں۔ بہت ساری مایوس کن اور دل گرفتہ خبروں کے درمیان میجر صاعقہ گلزار کے اعزاز کی خبر حبس میں تازہ ہوا کے جھونکے جیسی ہے۔ امریکہ میں ہونے والے عالمی سطح کے ایک تربیتی مقابلے میں، میجر صاعقہ نے 52ملکوں کے فوجی آفیسرز میں پہلا انعام حاصل کیا۔ گویا 52ملکوں میں پاکستان اوّل آیا۔ بلاشبہ قابل فخر بات ہے میجر صاعقہ گلزار وہاڑی کے ایک مسیحی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور ایک سکول ٹیچر گلزار سدھو کی صاحبزادی ہیں۔ پاکستانی قوم کے لیے یہ اعزاز جیتنے کا شکریہ میجر صاعقہ! ٭٭٭٭٭ پاکستانی صلاحیتوں اور قابلیت سے مالا مال قوم ہے۔ معاشی عدم انصاف غربت اور بنیادی ضرورتوں کے مسائل کے گرداب میں بھی اپنی خداداد صلاحیتوں کا اظہار بعض اوقات اس طرح کر جاتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ افسوسناک حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ایسے جوہر قابل کو سرکاری طور پر کوئی توصیف اور سرپرستی ملنے کی بجائے باقاعدہ سرزنش ہوتی ہے کہ تمہاری یہ جرأت کیسے ہوئی کہ تم نے یہ کارنامہ سرانجام دیا۔ تازہ ترین دو واقعات میں ایک تو عارف والا کے دیوانے نوجوان نے جہاز بنایا اور جب وہ اڑانے لگا تو اسے پولیس گرفتار کر کے لے گئی۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ سول ایوی ایشن کی اجازت کے بغیر اور ایک گھر پر تیار کیے ہوئے جہاز کے مکمل معائنے کے بغیر فیاض کا جہاز اڑانا قانوناً جرم تھا اور خطرناک بھی ثابت ہو سکتا تھا لیکن جس بھونڈے طریقے سے ایک انتہائی ذہین اور قابل شخص کو پولیس کے ہاتھوں ذلیل ہونا پڑا وہ افسوسناک ہے۔ فیاض جیسے لوگ تو بہت نایاب ہیں معمولی پڑھا لکھا ایک سکیورٹی گارڈ، چار بچوں کا باپ، خستہ حال مکان۔ بنیادی ضرورتیں پورا کرنے کے لیے دن رات کی مشقت اور اس کے باوجود اڑنے کے خواب۔ کیا حیرانی اور کمال کی بات نہیں ہے۔یہ جو زندگی میں کچھ کر گزرنے کے لیے ہم موٹیویشنل تحریریں پڑھتے ہیں اور اس میں لکھا ہوتا ہے کہ اپنے کمفرٹ زون سے نکلیں Out of box thinking۔کیسے آپ کو ہجوم میں منفرد کرتی ہے اور کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے۔ یہ جو ہم موٹیویشنل تحریروں میں پڑھتے ہیں کہ always follow your dreams always follow your heart never give up can do spiritوغیرہ وغیرہ کیا آپ کو کامیابی کا یہ سارا فلسفہ عملی صورت میں عارف والا کے فیاض کی کہانی میں دکھائی نہیں دے رہا۔ میرے نزدیک تو یہ ایک حیران کن بات ہے کہ کیسے ایک غریب سکیورٹی گارڈ، اتنا اونچا خواب دیکھ لیتا ہے او رپھر اس کی تعبیر حاصل کرنے کی جدوجہد کرتا ہے۔ لیکن ایسے ذہین شخص کی پذیرائی یہ مکھی پہ مکھی مارنے والا معاشرہ اور سسٹم نہیں کر سکتے۔ اسی سے ملتی جلتی ایک اور کہانی بہاولپور سے منظر عام پر آئی ہے اور وہاں ایک غریب موٹر مکینک نے 40ہزار روپے میں چار افراد کے بیٹھنے کے لیے چھوٹی کار بنا ڈالی ہے اور اب خوفزدہ ہے کہ ’’پلس‘‘ اسے پکڑ کر لے جائے گی۔ اس غریب مکینک کے جذبے پر بھی حیرت ہوتی ہے۔ ان پڑھ ہے، غربت زدہ ہے۔ مسائل میں گھرا ہوا ہے لیکن گاڑی بنانے کا خواب دیکھنا ہے اور پھر اپنی روز کی دیہاڑی میں سے کبھی سوا کبھی دو سو کبھی تین سو جمع کرنے لگتا ہے اور پھر اپنے خواب کی تعبیر پانے کے لیے کام شروع کرتا ہے۔ لوگوں کو تو اس دیوانے کا تب پتہ چلتا ہے جب وہ ایک عجیب سی چار پہیوں والی گاڑی نما چیز چلا کر دکھاتا ہے۔ چالیس ہزار میں تیار اس کار میں موٹر سائیکل کا انجن استعمال ہوا ہے۔ بھلا ہوا میڈیا کہ انہیں اپنا پیٹ بھرنے کو کچھ نہ کچھ درکار ہوتا ہے۔ سو میڈیا اپنے کیمروں اور مائیک سمیت اس دیوانے تک پہنچا یوں اس کی خبر ہوا کے دوش پر پاکستان بھر میں پھیل جاتی ہے۔ جہاز بنانے اور گاڑی بنانے والے دونوں ذہین نوجوان ہیں ان کی پذیرائی بھی ہونی چاہیے اور ریاست کی طرف سے سرپرستی بھی ہونی چاہیے لیکن امید یہی ہے کہ ایسا کچھ ہونے والا نہیں۔ ایسا ہی ایک اور منفرد کردار مجھے یاد آ رہا ہے جو جڑانوالہ کا ایک موچی ہے غالباً اور اس نے کئی ناول لکھے ہیں۔ اس کی خبر بھی اخبار میں آئی تھی۔ عام لوگوں کی طرف سے تو غربت میں چمکتے ہوئے ایسے ہیروں کی تعریف و توصیف ہوتی ہے لیکن ایسے جوہر قابل کی پذیرائی ریاست کو کرنی چاہیے۔ اگر ایسے لوگ اپنی خداداد ذہانت اور قابلیت کو نکھارنے کے لیے باقاعدہ کسی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لے کر سیکھنا چاہتے ہیں تو سرکار کو اس کا خرچہ اٹھانا چاہیے۔ ایک سکیورٹی گارڈ ہے۔ ایک مکینک ہے مگر صلاحیتیں خداداد ہیں۔ سکول کی رسمی تعلیم بھی انہوں نے شاید حاصل نہ کی ہو۔ اگر یہ کسی تعلیمی ادارے سے مکینیکل کا ڈپلومہ حاصل کرتے ہیں تو ان کی تکنیکی مہارت میں نکھار پیدا ہو گا۔ میرا خیال ہے اس سلسلے میں روٹین کی رکاوٹیں آڑے نہیں آنی چاہئیں۔ آخر میں ایک اور سچی کہانی آپ سے شیئر کرتی ہوں ان کرداروں کو میں ذاتی طور پر جانتی ہوں۔ ایک غریب لڑکی اس کا نام آپ عظمیٰ فرض کر لیں اپنی ماں کے ساتھ گھروں میں کام کرتی تھی لیکن پڑھنے کا شوق انتہا تھا۔ وہ صبح 8بجے سے شام 6بجے تک ایک گھر میں بطور ملازمہ کام کرتی تھی۔ اس مشقت اور غربت میں بھی اس نے پرائیویٹ میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پرائیویٹ امیدواروں میں چوتھی یا پانچویں پوزیشن لے لی۔ جس گھر میں وہ ملازمہ تھی اس گھر کے سربراہ کو جب اس غریب بچی کی اس شاندار کامیابی کی خبر ہوئی تو انہوں نے اس بچی کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا یہ بچی گھروں میں کام کرنے والی نہیں۔ پڑھنے والی ذہین بچی ہے۔ آج سے ہمارے گھر کام نہیں کرے گی اور صرف پڑھے گی اس کی پڑھائی کا خرچہ ہم خود اٹھائیں گے۔ انہوں نے اپنا وعدہ نبھایا اب وہی بچی انجینئرنگ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ جوہر قابل کی عملی پذیرائی اسے کہتے ہیں۔