محکمہ موسمیات کی پیشین گوئیاں دھری کی دھری رہ گئیں نئے سال کے تیسرے روز آسمان پر سورج چمکنے لگا۔ دھوپ نے شہر کے درو دیوار کو روشن کر دیا میدان سنہری دھوپ سے بھر گئے پیڑ پودوں کے سبز برگ دمکنے لگے۔ سست رو اور سہل پسند آنکھیں جھپکتے ہوئے باہر نکلے۔ مجھے ان کا خیال آیا جو کہرے اور دھند میں لپٹے ہوئے موسم سے کچھ امیدیں باندھے کھڑے تھے۔ اس حوالے سے میں آپ کے ساتھ ایک دو دلچسپ واقعات ضرور شیئر کروں گا کہ یہی زندگی ہے کہ کچھ ناہمواریاں اور مختلف باتیں آپ کو سرشار کر جاتی ہیں یہ آپ کے مشاہدے اور تجربے پر منحصر ہے کہ آپ فطرت کی بوقلمونی کو دیکھ کر گزر جاتے ہیں یا ٹھہر جاتے ہیں: جب پھول چپ ہوئے تو ثمر بولنے لگے پھر اس کے بعد سارے شجر بولنے لگے بات میں کر رہا تھا خوشگوار واقعات کی۔ میں نے سرراہ دو تین خواتین کو دیکھا جو اپنی باتوں سے مجھے استانیاں لگ رہی تھیں ایک بڑے دکھے ہوئے دل کے ساتھ سردیوں کی چھٹیوں پر شکوہ کناں تھی۔ کہنے لگی’’چھوڑو جی‘ سرما کی چھٹیاں بھی کوئی چھٹیاں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے دن ہیں‘ پل بھر میں گزر جاتے ہیں‘‘میں اس کی بات پر دل ہی میں ہنسنے لگا کہ اب سردیوں کے دن بڑے کرنا تو سرکار کے بس میں نہیں ہے۔ کیا یہ کم ہے کہ پہلی بار عثمان بزدار نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے چھٹیاں پندرہ کر دی ہیں۔ ہم بھی کیا ہیں کہ کسی طور خوش نہیں ہوتے۔ میری ایک عزیزہ ملنے آئیں تو موسم کا تذکرہ بہت جوش و خروش سے کرنے لگیں۔ مجھے حیرت ہوئی کہ ہماری تو سردی سے جان نکل رہی ہے اور محترمہ اس یخ بستگی کو پسندیدگی کا موجب سمجھ رہی ہیں۔ تب بہت پرامید اور حوصلہ مند لہجے میں کہنے لگیں کہ موسم کے تیور بتا رہے ہیں کہ انشاء اللہ چھٹیاں آگے بڑھ جائیں گی۔ طلباء و طالبات تو اپنی جگہ استاد اور استانیاں بھی چھٹیوں کی کس قدر خواہاں ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ہم ایک انگریزی مضمون Friday holydayپڑھایا کرتے تھے جس میں مصنف کئی قسم کی چھٹیاں گنواتا ہے مگر ان میںایسٹر کی 15چھٹیاں جو بعد میں بدقسمتی سے دس رہ گئی تھیں کا بطور خاص ذکر کرتا ہے اور گرمیوں کی چھٹیوں کا تذکرہ تو وہ نہایت خوش دلی سے کرتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ یہی اڑھائی مہینوں کی گرمی کی چھٹیاں وہ چیز تھی جس کے لئے پورا سال وہ انتظار کرتے تھے بلکہ یوں کہیںکے ان طویل دورانیے کی تعطیلات کے اردگرد پورا سال گردش کرتا تھا۔ لیکن کچھ اذیت پسند لوگ بھی تو ہوتے ہیں۔ یہ وہ اساتذہ تھے جو ہماری چھٹی بند کر دیتے تھے۔ مثلاً ذرا سا سبق کچا رہ گیا تو چھٹی نہیں ملتی تھی۔ بعض اوقات سلیبس رہ گیا تو اتوار کو بھی آئو۔ کچھ نہ پوچھیے ایسے اساتذہ زہر لگتے تھے کچھ تو بہت ہی سخت گیر تھے کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی ثمر کیمپ کے حق میں تھے۔ میں نے کچھ خدائی فوجدار ایسے بھی دیکھے جو کالج میں بھی زیرو پریڈ لیتے رہے۔ زیرو پیریڈ کا مطلب سکول لگنے سے قبل کا وقت۔ لیکن خدا لگتی کہوں گا کہ پریکٹیکل لائف میں وہی استاد یاد آتے ہیں جو چھٹی بند کر کے ہماری ناپسندیدگی کا نشانہ بنتے تھے۔ زیرو پیریڈ لینے والوںنے ہم جیسے Zeroکے ساتھ سے ایک لگا دیا اور ہم دس بن گئے۔ ہائے ہائے ‘ کیسے کیسے استاد تھے، آتے جاتے ہوئے، سلام کے جواب میں کہتے تھے’’سلامت رہیے‘‘ کیا اچھا دور تھا استاد قلمیں گھڑ گھڑ کر ٹک لگاتا اور شاگردوں کے حوالے کرتا۔ ان کو الف بے یا ہند سے املا کر کے دیتا۔ بچے پھٹیاں گاچی کے ساتھ پوچ کر لاتے۔ ج اور ن کی گولائیوں کا مقابلہ ہوتا۔ کھیل ہی کھیل میں بچوں کے ہاتھ سیدھے ہو جاتے۔ خوش خط لکھنے لگتے دیکھتے ہی دیکھتے بال پوائنٹس نے بچوں کے خط کو برباد کر دیا۔ ایک گھرانے کا دستور ہوتا تھا۔ باپ آ کر کہتا استاد جی! یہ بچہ آپ کا اس کی چمڑی بھی آپ کی بے شک اتار دیں۔ استاد کا ڈر ہوتا‘ سبق یاد ہوتا۔ ہوم ورک بروقت کیا جاتا وگرنہ مولا بخش کا ڈر۔ اب تو بچے کو مارنا جرم ٹھہرا۔ بچے کو کسی کا ڈر نہیں‘ اس نے خاک پڑھنا ہے۔ بچے کی بدتمیزی اس کا اعتماد ٹھہرا۔ دیکھا جائے توازن ایک طرف سے نہیں بگڑا۔ وہی جو شہزاد قمر نے کہا ہے: پھر توازن میں رہے گی مری نائوکب تک جب ڈبونے پہ تلے ہیں مرے پتوار مجھے اپنا پنجابی کا شعر بھی یاد آ گیا: کشتی کنڈھے کیہ لگدی نہیں سی موڈ ملاحواں دا کسی کو بھی خیال نہیں کہ پاکستان کی تعلیم کو صحیح پٹڑی پر چڑھا دے۔ انگریزی کے میں خلاف نہیں کہ میرا مضمون ہی انگریزی ہے مگر انگریزی کو اردو کا راستہ روکنے کے لئے استعمال نہ کیا جائے۔ یہاں یکساں نظام تعلیم ہو اور بنیادی طور پر یہ اردو زبان میں ہو،تا کہ سب اپنی صلاحیتیں استعمال کر سکیں یہاں تو صرف انگریزی زبان سیکھتے سیکھتے بچے خرچ ہو جاتے ہیں۔ اردو ان کے لئے سہل ہی نہیں اپنی پہچان اور شناخت بھی ہے اور سب سے بڑھ کر قائد اعظم نے اسے قومی زبان قرار دیا اور یہ بات آئین کا حصہ ہے مگر بیورو کریسی کو کون پوچھے کہ آئین کی پاسداری وہ کیوں نہیں کرتی۔ درست کہتے ہیں اردو تحریک والے کہ چیف کی ایکسٹینشن کے لئے کیسے سب حکومت اور اپوزیشن اکٹھی ہو گئی ہے اور صرف ایک شخص کا مسئلہ ہے جہاں پوری قوم چیخ رہی ہے کہ اردو رائج کریں اور سپریم کورٹ آئین کے فیصلے کی تجدید بھی کر چکی ہے مگر کرتا دھرتا رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اردو ہی ہمیں ترقی کی منزل پر گامزن کرے گی اور زندگی کو آسانی فراہم کرے گی: بے تکلف ہوا تو پہلی بار اس نے اردو میں بات کی مجھ سے بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں آ گئی۔ یہ سوچ کرتکلیف ہوتی ہے کہ ہمارا سارا نظام چند بیورو کریٹس اور ٹیکنو کریٹس کے ہاتھ میں گروی ہے۔ حکمرانوں کو بھی وہ ایسے شیشے میں اتارتے ہیں کہ چہرے پہچانے نہیں جاتے۔ دو اشعار کے ساتھ اجازت: اپنا طریق کار بدلنے نہیں دیا دل نے کوئی نظام بھی چلنے نہیں دیا گردش میں ہم رہے ہیں تو اپنا قصور کیا تونے ہمیں کشش سے نکلنے نہیں دیا