الیکشن ڈے اور حکومت سازی میں اب گنتی کے چند دن رہ گئے ہیں۔ نئی حکومت کے سامنے کئی طرح کے چیلنجز ہوں گے جن سے اسے نبردآزما ہونا ہوگا۔سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ نو منتخب حکومت کو اپنی رٹ منوانا ہوگی۔گزشتہ ایک برس سے ملک میں سویلین حکومت کی عمل داری عملاًتما م ہوچکی ہے۔ سرکاری اہلکار خوف زدہ ہیں۔ وہ سرکاری خدمات سرانجام دینے پر آمادہ نہیں کہ مبادہ کسی سکینڈل میں پکڑے جائیں۔ بیوروکریسی لگ بھگ کام کرنا ترک کر چکی ہے۔ چنانچہ ریاستی مشینری عضومعطل بن چکی ہے۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے لیے ایک فنڈ بھی قائم کردیاگیا۔ نیتوں کا حال اللہ تعالی کی ذات کے سوا کوئی نہیں جانتا لیکن غالباًانہیں اندازہ نہیں کہ کالاباغ ڈیم جیسے متنازعہ معاملات کو چھیڑنے سے ملکی وحدت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ دبے تعصبا ت ابل پڑیں گے۔ قوم پرست جماعتیں جو پیوندخاک ہوچکی ہیں انہیں حیات نو مل سکتی ہے۔ نومنتخب حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ عدالتوں کو اپنے دائرہ کار تک محدود کرے۔ نیب کو موثر ادارہ بنانا ضروری ہے تاکہ وہ بلاامتیاز احتساب کا عمل جاری رکھ سکے لیکن نئی حکومت کو اسے سیاسی مداخلت سے مکمل طور پر پاک رکھنا ہوگا۔ نیب پر سیاسی تعصب برتنے کا الزام ہے۔ سندھ میں نیب نے پیپلزپارٹی کے خلاف سخت کارروائی شروع کی لیکن رفتہ رفتہ یہ سلسلہ رک گیا اور اس کی توپوں کا رخ نون لیگ کی طرف موڑدیاگیا۔پاکستان کو ایک ایسے احتسابی ادارے کی ضرورت ہے جو تمام ترسیاسی وابستگیوں اوردباؤ سے آزاد اور بالاتر ہو۔وہ حکومت یا کسی بھی مقتدر ادارے کے ہاتھوں استعمال ہونے کے بجائے غیر جانبداری کے ساتھ اپنا کام کرتارہے جیسا کہ مغربی ممالک میں رواج ہے۔ سویلین حکومت اورا سٹیبلشمنٹ کے مابین شروع سے ہی تعلقات کار کا درست سمت میں تعین کرنے اور ایک دوسرے کے معاون کا کردار ادا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وسیع البنیاد ادارہ جاتی مکالمہ ہو ۔پاکستان میں روز اوّل سے ہی سویلین حکومت اور عسکری لیڈرشپ کے مابین گہرا تال میل پیدا نہیں کیا جاسکا۔ذوالفقار علی بھٹو ایک طاقتور وزیراعظم تھے۔ ان کی موجودگی میں کسی کی دال نہیں گلتی تھی۔نوے کی دہائی سے اسٹیبلشمنٹ نے کسی بھی وزیراعظم کو ٹک کر کام نہیں کرنے دیا ۔ یہ بھی کہاجاسکتاہے کہ کہ کسی بھی وزیراعظم کی عسکری لیڈرشپ کے ساتھ ہم آہنگی قائم نہ ہو ہوسکی۔ اصل مسئلہ ترجیحات کے تعین اور فرق کا رہاہے۔ سویلین اور عسکری لیڈرشپ کی ترجیحات اور قومی سلامتی کے معاملات پر نقطہ نظر میں بعدالمشرقین پایاجاتاہے۔بے نظیر بھٹو کو قومی سلامتی کے اداروں نے خوش دلی سے قبول نہیں کیا۔ انہیں حساس معاملات سے پرے رکھنے کی کوشش کی گئی ۔ نوازشریف کے ساتھ بھی ان کی نہ نبھ سکی۔ نوازشریف کا مسئلہ یہ تھا کہ وہ اپنے گرد ایسی ٹیم جمع نہیںکرسکے جو ان کے نقطہ نظر کو لے کر آگے چلتی۔ خود ان میں یہ استعداد نہیں تھی کہ وہ سویلین بالادستی کے قیام کے لیے درکار انفراسٹرکچر قائم کرتے۔ چلے ہوئے کارتوسوں پر ہی انہوں نے تکیہ کیا جو خارجہ اور دفاعی پالیسیوں کے حوالے سے کوئی قابل ذکر تخلیقی ویژن نہیں رکھتے ۔ اگست میں قائم ہونے والی حکومت کو اپنی بالادستی منوانے کے لیے جہاں مکالمہ کا راستہ اختیار کرنا ہوگا وہاں اسے دیگر سیاسی جماعتوں کو سویلین بالادستی کے ایشوپر ایک صفحے پر لانے کی کوشش کرنا ہوگی تاکہ سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر متفقہ موقف اختیار کیا جاسکے۔ علاوہ ازیں نئی حکومت کو اپنی کارکردگی بھی بہتر بنانا ہوگی تاکہ دیگر ریاستی اداروں کو اپنے اپنے دائرہ کار تک محدود کیا جاسکے۔ عدلیہ اور دیگر ادارے حکومتی کاموں میں اس وقت مداخلت کرتے ہیں جب انتظامیہ کی ناقص کارکردگی کے باعث انتظامی خلاء پیدا ہوتا ہے۔جرأت مندانہ عدالتی فیصلوںسے شہریوں کو ریلیف ملتاہے۔ چنانچہ لوگ حکومت کے بجائے اداروں سے انصاف اور ریلیف کی امید کرنے لگتے ہیں۔ مشکل اور آزمائش کی ہر گھڑی میں وہ ان ہی کی طرف دیکھتے ہیں۔ نون لیگی حکومت نے قومی خزانے پر جھاڑو پھیر دیاہے۔ قرض کا بوجھ ناقابل برداشت ہوتا جارہاہے۔ قومی اقتصادی کمیشن کے فیصلے کے مطابق مالی وسائل کی تقسیم کے بعد وفاقی حکومت کے پاس عالمی مالیاتی اداروں کی قسط کی ادائیگی اور دفاعی ضروریات پوری کرنے کے لیے ضروری رقم تک دستیا ب نہیں ہوتی۔پٹرول بم نے عوام کے کس بل نکال دیئے ہیں۔نئی حکومت کے پاس عوام کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے وسائل ہی نہیں ۔ اسے شہریوں پر بھاری ٹیکس عائد کرنا پڑے گا یا پھر بیرونی مالیاتی اداروں سے قرض حاصل کرنا ہوگا۔اس طرح برسراقتدارآتے ہی اس کی مقبولیت بری طرح متاثر ہوجائے گی۔ 40 لاکھ نوجوان ہرسال جاب مارکیٹ میں داخل ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان کو چاہیے کہ وہ ہرسال کم ازکم دس لاکھ افراد کے لئے روزگار کے مواقع فراہم کرے۔’’ہم سب ‘‘ نے حال ہی میں اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشن ڈویلپمنٹ پروگرام کی رپورٹ نے جو اعداد وشمار شائع کیے وہ ہوش ربا بھی ہیں اورقومی پالیسیوں میں جوہری تبدیلیوں کے متقاضی بھی۔ مثال کے طور پر رپورٹ میں کہاگیا:پاکستان کی آبادی کا 64 فیصد 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان میں صرف 39 فیصد نوجوانوں کو روزگار کے مواقع حاصل ہیں۔15 سے 29 سال کی آبادی ملک کی مجموعی لیبر فورس کا 41.6 فیصد ہے ۔ پاکستان کو درپیش مسائل کی فہرست بنانے کے لیے کئی دن درکار ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کے بیانیے اور الیکشن منشور میں ان کا حقیقی عکس نظر نہیں آتا۔ الیکشن مہم میں کوئی لیڈر نہیںبتارہا کہ وہ برسراقتدارآکر کس طرح ہرسال دس لاکھ ملازمتیں پیداکرے گا اور کیسے نوجوانوں کی اتنی بڑی آبادی کو مثبت سرگرمیوں میں مصروف کرے گا۔الیکشن مہم میں الزامات اور جوابی الزامات کا ایک ناتھمنے والا سلسلہ چل رہاہے۔ اہل صحافت بھی حقیقی مسائل اجاگر کرنے کے بجائے عوامی جذبات کو ابھارنے میں مصروف ہیں۔ کسی جماعت کا کوئی تھینک ٹینک نہیں جو طویل المعیاد یا مختصر مدت کے لیے جامع اور ٹھوس پروگرام عوام کے سامنے پیش کرتاہو۔ موجودہ الیکشن کے مقابلے میں گزشتہ الیکشن میں سیاسی جماعتوں کے منشور پر زیادہ بحث ہوئی تھی۔ سیاستدانوں کو اپنی جان چھڑانے کے لیے آسان نسخہ مل گیا ہے۔ الیکشن مہم کو انہوں نے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے پر مرکوز کررکھا ہے۔پاناما، کرپشن اور احتساب کے نعروں نے ٹی وی سکرینوں سے لے کر اخبارات کے صفحات تک کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ کوئی یہ بحث کررہی نہیں رہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں کیا تبدیلیاں لائی جائیں گی اور نہ کوئی یہ بتارہاہے کہ ان کی پارٹی برسراقتدار آکر کس طرح ملکی معیشت کو مستحکم کرے گی۔دہشت گردی کے ناسور پر کیسے قابو پائے گی؟