گزشتہ دنوں کراچی میں ایک المناک واقعہ رونما ہوا جس میں نجی فون کمپنی کے دو ملازمین شک کی بنیاد پر ہجوم کے ہاتھوں مار دئیے گئے۔علاقے کے لوگوں کے مطابق انہیں بچوں کا اغوا کار سمجھا گیا تھا ۔کراچی میں اس سے قبل بھی لوگوں کے ہاتھوں اسٹریٹ کرائم میں ملوث ڈاکوئوں کو موقع پر ہی سزا دینے کے واقعات رپورٹ ہوتے رہے ہیں یہ رجحان ملک کے دیگر شہروں میں بھی دیکھنے میں آیا ہے جہاں موقع پر ہی لوگوں نے مختلف الزامات کی بنیاد پر اپنی صوابدید پر سزائیں دی ہیں۔خواہ وہ ان پر کوئی جرم ثابت بھی ہوا ہو یا نہیں۔ پاکستان میں ہجوم کا اس طرح فیصلہ ساز ہونا ریاستی اداروں اورماہرین سماجی علوم(Social sciences) و جرمیاتCriminology) ( کے لئے گہری تشویش اور فوری توجہ کا متقاضی ہے ۔ ارباب اختیار و اقتدار کے لئے اسے محض مقامی یا وقتی نوعیت کا واقعہ سمجھ کر نظر انداز کرنا مجرمانہ غفلت کے مترادف ہے۔ ہجوم کی طاقت کا یہ اظہار آخر کیوں ہے۔؟ کیا ریاستی ادارے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوتے جارہے ہیں اور کیا ریاستی اور سیاسی اداروں سے متعلق لوگوں کا اعتما د اٹھ چکا ہے ۔؟ اگر ایسا ہے تو پھر ریاست کے لئے اور اس کے اداروں کے لئے یہ لمحہ ء فکر سے بھی آگے کی بات ہے ۔مذہب ہو یا سیاست یا کوئی اور سماجی معاملہ شدت پسندی نے عقل و فہم کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ ہماری قومی نفسیات میں تحمل، برداشت، رواداری ،قانون کی پاسداری اور آزادی اظہار جیسے اوصاف اجنبی ہوچکے ہیں۔ مکالمہ کی روایت دم توڑتی جا رہی ہے۔ اپنے نظریات خواہ ان کا تعلق سیاست سے ہو یا مذہب سے ہر کوئی بضد ہے کہ اسے ایسے ہی درست تسلیم کر لیا جائے جیسا وہ سمجھتا ہے۔ بالخصوص مذہب اور عقیدے سے متعلق عوام کے جذباتی رد عمل نے صورت حال کو انتہائی حد تک تشویش ناک کر دیا ہے۔اس ضمن میں مختلف واقعات حوالے کے طور پر ہمارے اور آپ کے ذہنوں میں یقینا محفوظ بھی ہیں۔ یہ واقعات اور ان کے محرک رجحانات کسی بھی ذمہ دار ریاست کے لئے سوالیہ نشان ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ارباب سیاست ، علمائے کرام ،اہل دانش اور ابلاغ کے ادارے رہنمائی کا بھرپور اور موثر ادا کرتے مگر حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب ان رجحانات کے فروغ میں بڑی حد تک معاون و مددگار رہے ہیں۔اہل سیاست جو بالواسطہ اور بلاواسطہ نظم حکمرانی کے اداروں تک رسائی رکھتے ہیں قانون کی پاسداری اور اداروں کا احترام اور اور ان کی اہمیت کو وہ زیادہ بہتر جانتے ہیں ان سے یہ توقع رکھنا قرین فہم ہے کہ وہ سیاسی معاملات اور مسائل اور تنازعات کو اداروں کے توسط سے باہمی افہام و تفہیم اور مکالمہ کے ذریعہ طے کرینگے مگر افسوس پاکستان میں یہ روایت اب کمزور ہوتی جارہی ہے۔گزشتہ کچھ سالوں سے سیاسی اور مذہبی سیاسی جماعتوں نے اپنے سیاسی مطالبات کو متعلقہ فورم میں لانے کے بجائے دھرنوں، لانگ مارچ اور سڑکوں کو بند کرنے جیسے اقدامات کو اپنا شعار بنالیا ہے۔سیاسی اداروں کی موجودگی میں سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کا یہ طرز عمل جہاں اداروں پر اعتماد نہ کرتے ہوئے ان کی اہمیت کو متاثر کرتا ہے تو وہاںدوسری طرف عوام میں بھی اداروں کی فعالیت اور کارکردگی پر اعتماد اٹھنا شروع ہو جاتا ہے۔اور وہ موقع پر ہی ہجوم کی طاقت کے ذریعہ فیصلے کا اختیار اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں ۔ ہجوم کی طاقت کا استعمال اگر ایک بار بھی کامیاب ہو جائے تو یہ سلسلہ پھر رکتا نہیں ہے اور ہر کوئی ہر سطح پر اپنے اپنے جواز کے ساتھ اسے اختیار کرنے میں خود کو آزاد سمجھنے لگتا ہے۔یہ کیفیت پورے سماج کو انتشار خوف اور غیر یقینی سے دوچار کرتی ہے۔عمران خان آج سیاسی مقبولیت کی جس سطح پرہیں انہیں اس بات کا زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ اداروں پر خواہ وہ سیاسی ہوں یا غیر سیاسی عوام کا اعتماد کمزور نہ ہو ۔اداروں کے وقار اور ان کے آزادانہ کردار کے لئے سیاست دانوں کا ان پر اعتماد بہت ضروری ہے اسی سے عوام کا بھی ان اداروں پر اعتماد مضبو ط ہوگا اور یہی وہ راستہ جس سے ہجوم کی طاقت کو استعمال کرنے کی حوصلہ شکنی ممکن ہے۔ ریاستی ادارے ،جو قانون کی عملداری کے ذمہ دار ہیں ، ایک نظم حکمرانی کے زیر اثر اپنے فرائض کی انجام دہی پر مامور ہوتے ہیں۔سیاست دانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نظم حکمرانی کے ان اداروں کی کسی بھی صورت کمزور نہ ہونے دیں۔ اپنے فوری مفاد اور سیاسی کامیابی کے اظہار کے لئے ہجوم کا سڑکوں پر یوں غیر ضروری اور مسلسل استعمال ریاست کے تشخص کو متاثر کرتا ہے۔ جمہوری سیاسی نظام میں یہ قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ جمہوری اوصاف کے مطابق عوام کی تربیت کرے۔ مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے قیادت ان اوصاف کو خود اختیار کرے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں جمہوری نظم حکمرانی سے مستفید تو ہوتی ہیں مگر جمہوری اوصاف اور اقدار کو فروغ بھی ہو اس پران کی توجہ نہیں ہوتی ۔ عوام کے لئے سیاسی قیادت ایک مثالی حیثیت (ROLE MODEL) کا درجہ رکھتی ہے ۔ جب تک سیاست دان سیاسی اختلافات اور تنازعات کے حل کے لیئے متعلقہ اداروں سے رجوع کرنے کے بجائے سڑکوں پر ہجوم کی طاقت کو استعمال کرتے رہینگے ۔ پاکستان میں جمہوری سماج کی تشکیل ممکن نہیں ۔ کسی بھی معاملے میں خواہ اس کی نوعیت کچھ بھی ہو لوگوں کا موقع پر از خود سزائیں دینے کا عمل ؎ ؎ کسی بھی طرح قابل جواز نہیں،اس کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ یہ اداروں کی ذمہ داری ہے وہ جرم کا تعین کریں اور پھر عدالتوں کے ذریعہ سزائوں کا نفاذ ہو۔ اس ضمن میں ہر ایک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا اس ایک نکتہ پر متفق ہونا اب ناگزیر ہوگیا ہے۔ حکومتی اداروں کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اداروں کی فعالیت کو موئثر بناتے ہوئے قانون کی عملداری کوہر سطح پر ممکن بنائیں ۔قانون کے یکساں اور موئثر نفاذ اور انصاف کے آسان حصول سے ہی اداروں پر عوام کا اعتماد بحال ہو پائے گا۔ اور سڑکوں پر ہجوم کی فیصلہ سازی کا تدارک ممکن ہوسکے گا۔ اسی میں ریاست ،سیاست اور عوام کی فلاح ہے۔