غلام سجاد

جوکر:ایک زہر خند مسکراہٹ

ایک معاشرتی کردار کی کہانی

 جوہمارے آس پاس کہیں بھٹک رہا ہے

اس فلم کے ڈائریکٹر ٹوڈ فلپس ہیں جبکہ پروڈیوسر بریڈلی کوپر،ایما ٹلنگر کوس کاف اور ڈیوڈ فلپس ہیں۔کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہے کہ پردے پر آتے ہی دھوم مچا دیتی ہیں جوکر جس کے نام سے بظاہر کسی مسخرے کی طرف بندے کا دھیان جاتا ہے اپنے اندر ایسا درد اور زہر چھپائے ہوئے ہے اس کا اندازہ پہلی بار اس وقت ہوا جب اس کردار کوپردہ سکرین پر پلے کیا گیااور امریکہ کی حکومت کو لگ پتا گیا ۔امریکی حکومت کا ذکر ا س لیے کیا ہے کہ انہیں سنیما گھروں میں اس قدر سکیورٹی دینا پڑی ہے کہ اس سے قبل کبھی نہیں دی تھی۔جو کر فلم نے کامیابی کے ایسے ایسے ریکارڈ سمیٹے ہیں کہ اس سے قبل کسی فلم کے حصے میں ایسا کچھ نہیں آیا۔ نہ صرف کمائی کے حوالے سے بلکہ ناقدین اور شائقین کی طرف سے داد و تحسین کے جتنے ڈوگرے اس فلم کے حق میں برسائے گئے ہیں اتنا کبھی کسی فلم کے حصے میں تعریف و تحسین نہیں آئی۔رواں برس31اگست کو وینس میں ریلیز ہونے اور4اکتوبر کو دنیا بھر میں ریلیز ہونے والی اس فلم نے لوگوں کو اس قدر سنجیدہ کیا کہ وہ اش اش کر اٹھے۔جوکر فلم نے55ملین ڈالر کی لاگت پراب تک258ملین ڈالر کما لیے ہیں دیکھتے ہیں یہ ریکارڈ کہاں جا کر دم لیتا ہے۔آئیے آپ کو جوکر فلم کی باکس آفس کامیابی کا قصہ سناتے ہیں۔

جوکر کے نام اور کردار سے ہر کوئی واقف ہے مگر اس کے دل میں کیا چل رہا ہوتا ہے یہ کسی کو معلوم نہیں۔فلم کی کہانی اسی موضوع پر مبنی ہے۔کہانی سادہ اور دلچسپ ہے۔ 1981ء کے پس منظر میں ایک خیالی شہر ’گوتھم‘ دکھایا گیا ہے، جہاں ’آرتھر فلیک‘ رہتا ہے۔ جوپیشے کے اعتبار سے جوکر ہے اور اسٹینڈ اپ کامیڈی میں نام کمانا چاہتا ہے۔ غربت اور بوڑھی ماں کے ساتھ زندگی کے دن پورے کرنے کے لیے دن رات جتن کرتا ہے۔ اس کو ایک اعصابی بیماری بھی لاحق ہے۔ اس بیماری کی سنگین علامت یہ ہے کہ نازک اور پریشان کن حالات میں اس کو ہنسی آتی ہے اور آنکھوں سے آنسو نکلتے ہیں۔اس بیماری کے ہاتھوں وہ ذلیل و رسوا ہوتا ہے، کئی بار جان لیوا حملوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس پر ہر وقت اداسی طاری رہتی ہے، وہ بہت کوشش کرتا ہے کہ خودکو نارمل کرلے، مگرناکام رہتا ہے۔اس ناکامی پر دل برداشتہ ہوتا ہے اور اس پر جنون سوار ہو جاتا ہے جس کے بعد  وہ سفاک قاتل بن جاتا ہے۔ ہر وہ شخص جس سے اس کو کوئی تکلیف پہنچی ہوتی ہے، ان سب کو ایک ایک کرکے قتل کردیتا ہے۔ اس قتلِ عام سے اس کی اداسی بدل کر خوشی کی کیفیت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔اپنی شناخت کی تلاش میں مارا مارا پھرنے والا آرتھر فلیک سرشاری کی نئی دنیا سے متعارف ہوتا ہے۔ ایک لمحہ کو وہ سوچتا ہے کہ خودکشی کرلے، لیکن زندگی میں اچانک ملنے والی رعنائی اس کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے  اور پھر وہ اسی راہ پر قائم رہتا ہے۔

اس فلم کی پروڈکشن میں ہالی وڈ کی 4 بڑی پروڈکشن کمپنیاں شامل ہیں، جبکہ ڈسٹری بیوشن وارنر براس پکچرزجیسے مشہور فلم ساز ادارے کے پاس ہے۔ تقریباً 7 کروڑ ڈالر سے بننے والی اس فلم نے پہلے 3 دن میں اپنی لاگت سے زیادہ نفع کما کر بے تحاشا کمانے والی فلموں میں اپنا نام شامل کروا لیا ہے۔ابتدائی طور پر فلم ساز ادارے چاہتے تھے کہ اس فلم کے لیے معروف امریکی اداکار لیونارڈو ڈی کیپریو کو مرکزی کردار کے لیے کاسٹ کیا جائے، لیکن ہدایت کار ٹوڈ فلپس نے کہا کہ اس نے اداکار ’کوائین فیونکس‘ کو ذہن میں رکھ کر یہ کردار تخلیق کیاہے لہٰذا بہتر یہی ہے کہ وہ اس فلم میں مرکزی کردار ادا کرے۔امریکا کے مختلف شہروں میں ہزاروں ایکسٹراز کے ساتھ یہ فلم شوٹ کی گئی۔ فلم کو روایتی کامکس مووی کے رنگ میں ڈھالنے کی بجائے مرکزی کردار کو اخذ کرکے اردگرد نئی کہانی اور ماحول تخلیق کیا گیا اور اس تجربے نے فلم کو چار چاند لگا دیے ہیں۔ فلم میں شامل مختلف فریمز، رنگ و روشنیاں، کاسٹیومز اور اس کے ساتھ ساتھ کہانی کی ترتیب اور مکالمات نے سماں باندھ دیا۔ 

 فلم کی پسندیدگی کا تناسب ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔ یہ ابھی تک مختصر مدت میں وینس فلم فیسٹیول کے ایوارڈ سمیت 3 بڑے ایوارڈز حاصل کرچکی ہے اور ممکن ہیکہ یہ 2020ء کے آسکر کے لیے بہترین فلم کا ایوارڈ بھی اپنے نام کرلے۔ اس فلم کو اگر میوزیکل جوکر بھی کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔اس فلم میں سے موسیقی نکال دی جائے تو اس کا اثر صرف 50 فیصد رہ جائے گا، کیونکہ موسیقی نے اس فلم میں جان پیدا کر دی ہے۔ فلم دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ موسیقی کی زبان میں کرداروں کی کیفیات کو پیش کیا جا رہا ہے۔ خوشی اور غم، حیرت اور اداسی کے رنگوں کو موسیقی کے ذریعے بہت ہی عمدہ طور سے پیش کیا گیا ہے۔فلم میں موسیقی کا ایسا تجربہ اپنی مثال آپ ہے۔

فلم میں جوکر کا کردار نبھانے والے اداکار کوائین فیونکس نے 50 پونڈ سے بھی زیادہ وزن کم کیا۔ فیونکس کی ساتھی اداکارہ زازی بیٹس نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’کوائین فیونکس اپنے کردار میں اس قدر ڈوبا ہوا تھا کہ وہ سیٹ پر بھی اپنی مخصوص کیفیت میں رہتا۔ اسی کیفیت میں اس نے ساتھی اداکاروں سے مکالموں کے علاوہ زیادہ بات نہیں کی۔ نہ جانے اس کو اپنے اس کردار سے باہر آنے میں کتنا وقت لگ جائے گا، کیونکہ فی الحال تو وہ اپنے کردار کے سحر میں مکمل طور پر جکڑا ہوا ہے۔اس فلم کے دیگر اداکاروں میں رابرٹ ڈی نیرو نے اپنا مختصر مگر اچھا کردار نبھایا، جبکہ زازی بیٹس نے اپنی اداکاری سے فلم بینوں کے دل موہ لیے۔ فرانسز کونری نے بھی اپنی اداکاری سے متاثر کیا۔اس فلم سے پہلے جوکر کے کردار میں سب سے زیادہ مشہور ہونے والی فلم میں ہیت لیجر نے متاثر کن اداکاری کی تھی۔

معاشرتی رویوں کے اتار چڑھائومیں ایسی فلمیں فیصلہ کن ثابت ہوتی ہیں۔ ذہنی بیماری پر مبنی اور نفسیاتی مسائل کے شکار کردار کو مثبت اور منفی پہلوئوں سے دکھانے کے ساتھ ساتھ معاشرے کی طرف سے اس کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے یعنی کیسے یہ حالات پیداہوتے ہیں جب کوئی بلاوجہ جرائم کا مرتکب ہوجاتا ہے۔معاشرے کی بہتری اور سدھار کے لیے اس طرح کی فلموں کا بننا مثبت عمل ہے کہ جس کے ذریعے عوام میں شعور بیدار کیا جاسکتا ہے۔یہ فلم ہمارے ہی معاشرے کا عکس ہے۔ہمارے ارد گرد ہی ایسے کردار گھومتے پھرتے ہیں جن پر کبھی ہم نے توجہ نہیں دی۔گزشتہ کافی عرصے سے بچوں کے اغوا اور ان کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کردینے کے واقعات بھی ہمارے معاشرے میں کثرت سے ہو رہے ہیں۔اگر چہ یہ کردار جوکرکی کہانی سے مماثلت نہیں رکھتے مگر اس چیز کا عندیہ ضرور دیتے ہیں کہ یہ بھی نفسیاتی مریض ہیں اور معاشرے کے دھتکارے ہوئے یا کسی موڑ پر ہمارے ستائے ہوئے ہیں جو ہم سے نہیں مگرہمارے بچوں سے بدلہ لے رہے ہیں۔

سب سے آخر پر یہ کہ فلم اس قدر دلچسپ ہے کہ دیکھ کر پیسے پورے ہو جاتے ہیں۔جس قسم کی انٹرٹینمنٹ کی معاشرے میں ضرورت ہے وہ سب اس فلم نے پردہ سکرین پر مہیا کر دیا ہے۔اگر آپ نے یہ فلم نہیں دیکھی تو اس ویک اینڈ کیشیڈول میں لازمی شامل کر لیں۔