ایک خبر کے مطابق جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کو ختم کر دیا گیا ہے ۔ ختم کئے گئے محکموں میں داخلہ، خزانہ، سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ، قانون، پارلیمانی افیئرز، پراسیکیوشن اور ریگولیشن وغیرہ شامل ہیں۔ جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا معاملہ سالہاسال سے گورکھ دھندہ بنا ہو ا ہے۔ سول سیکرٹریٹ کا منصوبہ میاں شہباز شریف نے بنایا۔ سابق گورنر رفیق رجوانہ کی قیادت میں 67 رکنی کمیٹی بنائی گئی ۔ 3 درجن سے زائد اجلاس ہوئے مگر ’’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ والا معاملہ ہوا۔ اس کے رد عمل میں صوبہ محاذ وجود میں آیا۔ مخدوم خسرو بختیار سمیت بہت سے ارکان اسمبلی نے استعفے دیئے اور پاکستان کی سیاست میں بھونچال آگیا اور صوبہ محاذ والوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک خاموش نہیں رہیں گے جب تک صوبہ نہیں بنے گا۔ پھر اچانک تحریک انصاف سے تحریری معاہدہ ہوا اور عمران خان نے لکھ کر دیا کہ برسراقتدار آنے کے بعد سو دن میں صوبہ بنا دیں گے۔ الیکشن کمپین شروع ہو گئی تحریک انصاف نے صوبے کے نام پر وسیب سے ووٹ لیے اور وسیب کے ووٹوں سے ہی مرکز اور صوبے میں حکومت بنا ئی۔ سو دن میں صوبہ بنانے کا وعدہ پورا نہ ہوا تو تنقید اور احتجاج کا منہ بند کرنے کیلئے سول سیکرٹریٹ کاقیام عمل میں لایا گیا۔ حالانکہ وعدہ صوبے کا تھا سول سیکرٹریٹ کانہیں۔ وسیب کے لوگوں کو یقین دلایا گیا کہ سول سیکرٹریٹ سے ابتداء ہو رہی ہے اور یہ سول سیکرٹریٹ صوبے کا پیش خیمہ ہو گا۔ وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان بزدار نے سول سیکرٹریٹ کیلئے ڈیڑھ ارب روپے کے فنڈز کی منظوری دے دی اور زاہد اختر زمان کو ایڈیشنل چیف سیکرٹری اور انعام غنی کو ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب مقرر کر دیا گیا اور 16 سیکرٹری بھی بھیج دیئے گئے مگر ان سیکرٹریوں کو نہ فنڈز دیئے گئے اور نہ اختیار۔ یہ بے چارے ملتان بہاولپور کے دھکے کھاتے رہے اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری سمیت بہت سے سیکرٹریوں نے کہا کہ فنڈز اور اختیار کے بغیر کوئی کام نہیں ہو گا۔ اس دوران سیکرٹریٹ کیلئے وزیر اعلیٰ کی طرف سے جو ڈیڑھ ارب روپیہ منظور ہوا ان میں سے بھی ایک روپیہ بھی خرچ نہ ہوا۔ اڑھائی سال وسیب کے لوگوں کو انتظار کی اذیت سے دو چار کیا گیا۔ صوبہ تو کیا بننا تھا سیکرٹریٹ بھی غیر فعال ہو گیا۔ ایسے موقع پر کہا جاتا ہے نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم اور وسیب کے لوگ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ حکمرانوں کی طرف سے صوبے کے بلند و بانگ وعدے کا انجام سرائیکی کہاوت’’پٹیا پہاڑ، نکتا چوہا، اُو وی مُعا‘‘ کے مطابق ہوا ۔ ہم شروع سے کہتے آرہے ہیں کہ سول سیکرٹریٹ کی بجائے صوبے کا قیام عمل میں لایا جائے کہ سول سیکرٹریٹ کسی بھی طرح صوبے کا متبادل نہیں ہو سکتا مگر یہ بات افسوسناک ہے کہ بیورو کریسی نے سول سیکرٹریٹ دینا بھی گوارہ نہیں کیا۔ جس کے باعث وسیب میں اشتعال اور غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس غم و غصہ میں صرف مقامی جماعتیں نہیں بلکہ تحریک انصاف بھی شامل ہے۔ تحریک انصاف ملتان کے ڈسٹرکٹ صدر خالد جاوید وڑائچ نے سخت احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ وسیب میں ایک سازش کے تحت تحریک انصاف کو غیر مقبول بنایا جا رہا ہے اگر یہی صورتحال رہی تو ہم کس منہ سے ووٹ لینے جائیں گے؟ سرائیکستان صوبہ محاذ کے رہنمائوں نے اپنے رد عمل میں کہا کہ تحریک انصاف نے سرائیکی جماعتوں کی پر امن جدوجہد کو صوبے کے نام پر کیش کرایا ۔ مرکز اور صوبے میں حکومت بنانے کے بعد سب کچھ بھول گئے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہماری آس امید اور خواہشات کا قتل ہو رہا ہے۔ وسیب سے مذاق کا لا متناہی سلسلہ جاری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکمران وسیب سے مذاق کرنا بند کریں اور اپنی جماعت کے منشور اور وعدے کے مطابق صوبے کا قیام عمل میں لائیں کہ الگ صوبہ وسیب کے کروڑوں لوگوں کے ساتھ ساتھ وفاق پاکستان کی ضرورت بھی ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ سول سیکرٹریٹ کے بارے میں تازہ فیصلے پر سخت مایوسی پیدا ہوئی ہے۔ اس بارے میں حکومت کے ساتھ ساتھ مقتدر قوتوں کو بھی سوچنا ہو گا کہ پہلے ہی وسیب کے لوگوں کو اس بات پر اعتراض تھا کہ سیکرٹریٹ کو ملتان بہاولپور کے درمیان تقسیم کرکے وسیب میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کی گئی بلکہ آدھا تیتر آدھا بٹیر والا معاملہ ہوا۔ اس کے ساتھ جنوبی پنجاب کے نام سے صوبے کی جو حدود دی گئی اُس پر بھی تحفظات تھے۔ جیسا کہ وسیب کی زمینوں کو پانی میانوالی کے جناح بیراج اور جھنگ کے تریموں بیراج سے حاصل ہوتا ہے ۔ نئے صوبے کی سکیم میں میانوالی اور جھنگ شامل نہیں تو وسیب کے لوگ پانی کے وسائل کے بغیر صوبے کو کیا کریں گے ؟ دوسرا یہ کہ سرائیکی جماعتیں نصف صدی سے صوبے کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں اور اس مقصد کے لئے انہوں نے بہت قربانیاں بھی دی ہیں ، اس لحاظ سے صوبے کے اصل اسٹیک ہولڈرز یہاں کے لوگ اور صوبے کے لئے جدوجہد کرنے والی مقامی جماعتیں ہیں ۔ مگر موجودہ حکمران اپنی نادانی اور ناتجربہ کاری کے باعث عجلت میں اس طرح کے فیصلے کر رہے ہیں جس سے مسئلے کی گتھی سلجھنے کی بجائے الجھتی ہی جا رہی ہے ۔ حالانکہ گزشتہ صوبہ کمیشن جس کے سربراہ فرحت اللہ بابر تھے نے سرائیکی جماعتوں سے مشاورت کی تھی اور ان کا نقطہ نظر صوبہ کمیشن کی سفارشات کا حصہ بنایا تھا ۔ اچھی بات یہ ہے کہ وسیب کے لوگ پر امن جدوجہد کے ذریعے صوبہ مانگ رہے ہیں ۔ وسیب کی کسی جماعت نے نہ کبھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا اور نہ کسی دکان کا شیشہ توڑا ۔ اس بناء پر ضروری ہے کہ وسیب کے لوگوں کو دیگر صوبوں کی طرح شناخت اور حدود پر مشتمل صوبہ دے دیا جائے اس سے یقینا وفاق پاکستان مضبوط ہو گا۔ اس موقع پر میں یہ بھی کہوں گا کہ کچھ حلقے صوبے کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ یہ نام لسانی ہے حالانکہ پاکستان کے تمام شہروں میں لسانی بنیاد پر بازاروں کے نام اُردو بازار کے نام سے جائز ہیں؟ اُردو کالج اور اُردو یونیورسٹی جائز ہے ؟ پنجاب کی شناخت پر پنجاب سندھ کی شناخت پر سندھ پختونوں کی شناخت پر خیر پختونخواہ اور بلوچوں کی شناخت پر بلوچستان اگر جائز ہے تو پھر صوبہ سرائیکی میں کیا حرج ہے ؟ عرب لیگ اور سعودی عرب پر بھی کوئی شرعی حد اگر لاگو نہیں ہوتی تو پھر وسیب کے لوگوں سے مذاق کیوں کیا جا رہاہے ؟عدل اور انصاف کے الگ الگ پیمانے کیوں ہیں؟