معزز قارئین!۔ ’’ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (PEMRA) کے چیئرمین مرزا محمد سلیم بیگ نے 3 فروری کو اردو اورانگریزی اخبار کو انٹرویو میں بتایا کہ ’’ پیمرا کی طرف سے Web Television" " اور "Over the Top" ۔ کی "Regulation"کے لئے بہت جلد کمیٹی بنا دِی جائے گی‘‘۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’اچانک چھاپوں کے دَوران 14252 غیر ملکی "D.T.H" (Direct-to-Home)اور سی لائن جیسے آلات ضبط کئے گئے اور 59 کیبل آپریٹوں کے خلاف فوجداری مقدمات قائم کئے گئے اور ملک بھر میں 1272 غیر قانونی بھارؔتی چینلز کی نشریات ، کیبل نیٹ ورک پر بند کرادِی گئی ہیں ‘‘۔ بیگ صاحب نے یہ بھی کہا کہ ’’ پیمرا نے ملک بھر میںپھیلے ہُوئے غیر قانونی بھارتی "D.T.H" کے خاتمے کے لئے ایف۔ آئی ۔ اے ، ایف۔ بی۔ آر۔ کسٹم انٹیلی جنس کے عہدیداروں پر مشتمل کمیٹیوں کی مدد سے چھاپہ مار ٹیمیں چاروں صوبوں میں پھیلا دِی گئی ہیں جو، تن دہی ، مستعدی اور وطن دوستی کے جذبے کے تحت پاکستان میں غیر قانونی بھارتی "D.T.H" کے پھیلائو کو روکے گی تاکہ پاکستان پر بھارتی ثقافتی ، سیاسی اور سفارتی یلغار کے آگے مضبوط بند باندھا جا سکے۔ پیمراؔ پاکستان میں جدید ذرائع ابلاغ کی جدید ترین ٹیکنالوجی "Over the Top" (کارزار میں مصروف) متعارف کرائے گا تاکہ پاکستان دُنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو جائے‘‘۔ معزز قارئین!۔ چیف جسٹس (ر) ناصر اُلملک نے یکم جون 2018 ء کو نگران وزیراعظم کی حیثیت سے حلف اُٹھایا تھااور اُنہوں نے 29 جون 2018ء کو انفارمیشن گروپ کے سینئر رُکن مرزا سلیم بیگ کو ’’ پیمرا‘‘ کا چیئرمین مقرر کِیا تھا۔ مرزا صاحب کے اِس انٹرویو سے پتہ چلتا ہے کہ ’’ وزیراعظم عمران خان اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری اور اُن کی میڈیا ٹیم نے ’’ بھارتی ثقافتی ، سیاسی اور سفارتی یلغار کے آگے مضبوط بند باندھنے کے لئے ، ایک ایسے چیئرمین کی صلاحیتوں سے کام لینے کا فیصلہ کِیا ہے جس کا پس منظر تحریک پاکستان ؔسے ہے۔ تحریک پاکستان میں مرزا محمد سلیم بیگ کے دادا مرزا معراج اُلدّین بیگ اور والد صاحب مرزا شجاع اُلدّین بیگ کا آدھے سے زیادہ خاندان امرتسر میں سِکھوں سے لڑتا ہُوا شہید ہوگیا تھا۔ معزز قارئین!۔ مجھے یہ ضرور بتانا ہوگا کہ ’’ جون 2015ء کے اوائل میں جب، مرزا سلیم بیگ نے وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے ذیلی ادارہ ’’ڈائریکٹوریٹ آف الیکٹرانک میڈیا اینڈ پبلی کیشنز‘‘ کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے چارج سنبھالا تو، اُنہوں نے 14 اگست (یوم آزادی) 2015ء سے پہلے ڈائریکٹوریٹ کی گیلری میں ’’مشاہیر آزادی و تحریک پاکستان ‘‘ کی تصویروں سے جگ مگا دِیا تھا۔ وزارتِ اطلاعات و نشریات کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہُوا تھا ۔ پاکستان کی اہم شخصیات نے باری باری اُس گیلری کو دیکھا تھا ۔ ایک دِن مرزا سلیم بیگ نے مجھے اور میرے دوستوں کو بھی، اُس گیلری کی زیارت کرنے کے لئے مدّعو کِیا تھا۔ 23 جنوری 2016ء کو ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کے سیکرٹری سیّد شاہد رشید ، ’’پاکستان کلچرل فورم ‘‘ اسلام آباد کے چیئرمین برادرِ عزیز ظفر بختاوری اور میرے داماد معظم ریاض چودھری نے بھی میرے ساتھ اُس جگمگاتی گیلری کی زیارت کی تھی۔ 25 جنوری 2016ء کو ’’ جگ مگ ، جگ مگ، دِیا جلائو!‘‘ ۔کے عنوان سے ’’ نوائے وقت ‘‘ میں میرا کالم شائع ہُوا ۔ مَیں نے لکھا کہ ’’ ڈائریکٹوریٹ کی گیلری میں ’’ مشاہیر آزادی و تحریک پاکستان ‘‘ کی تصاویر سے جگ مگ ، جگ مگ کر رہی تھیں۔ میں نے لڑکپن میں فلم ’’تان سین‘‘ میں فلم کے ہیرو کُندن لعل سہگل کو مغل بادشاہ اکبر کے دربار میں ’’دِیپک راگ‘‘ گاتے سنا اور دیکھا تھا جب دیپک راگ کے گانے سے شاہی محل کے بجھے ہوئے سارے چراغ جل اٹھے تھے۔ راگ کے بول تھے … جگ مگ، جگ مگ، دِیا جلائو، دِیا جلائو! گیلری میں ، شیرِ میسور ٹیپو سُلطان اور دوسرے ہیروز کی تصاویر کو دیکھا تو میرا ذہن اُن تمام مشاہیر کی یادوں سے جگمگا اْٹھا شاہد رشید، ظفر بختاوری اور دوسرے ساتھی اپنے اپنے طور پر مگن تھے۔ دو نظریہ کے علمبردار سر سیّد احمد خاں، مصورِ پاکستان علامہ اقبال، بانی ٔ پاکستان حضرت قائدِاعظم، اْن کے والد جناب جناح پْونجا، چھوٹے بھائی احمد علی جناح، مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح، محترمہ شریں بائی، قائداعظم کی ساس محترمہ ڈنشا پیٹیٹ، اہلیہ رتن بائی جناح، صاحبزادی دِینا جناح، خان لیاقت علی خان، میر جعفر خان جمالی، جناب اے کے فضل حق، نواب محمد اسمعیل خان، نواب چھتاری، سردار اورنگ زیب، سر آغا خان، میاں محمد شفیع، جناب غلام حسین ہدایت اللہ، چودھری خلیق الزمان، خان عبدالقیوم خان، جناب عبداللہ ہارون، جناب ہاشم گزدار، راجا صاحب محمود آباد، سردار اورنگ زیب، میاں بشیر احمد، قاضی محمد عیسیٰ، نواب محمد خان جوگیزئی، جناب بہادر یار جنگ، سکندر حیات خان، جناب حاتم علوی، ملک فیروز خان نون، نواب محمد افتخار خان اور سردار عبدالربّ نشتر کی تصویریں تھیں۔ معزز قارئین!۔ مَیں نے مرزا محمد سلیم بیگ سے پوچھا کہ ’’ تحریک ِ پاکستان کے کارکن اور یکّے از بانیانِ ’’ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن‘‘ سیّد محمد قاسم رضوی جب ، صدر محمد ایوب خان کے دَور میں وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات کے جوائنٹ سیکرٹری تھے تو، اُنہوں نے ’’مشاہیرِ تحریکِ پاکستان‘‘ کی تصاویر اور تعارف پر مشتمل ’’ نوید ِ سحر‘‘ کے عنوان سے "Magazine Size" پر ایک ضخیم کتاب شائع کی تھی اور جب 1969ء میں جنابِ قاسم رضوی سرگودھا ڈویژن کے کمشنر تھے تو، اُنہوں نے اُس کتاب کی ایک کاپی مجھے اور ( اُن دِنوں) روزنامہ ’’ وفاق‘‘ لاہور / سرگودھا کے ایڈیٹر برادرِ عزیز جمیل اطہر قاضی صاحب کو بھی عنایت کی تھی‘‘۔ مرزا سلیم بیگ نے مجھے بتایا تھا کہ ’’ مَیں نے اُس کتاب کے بارے میں سُنا ہے لیکن، وہ ہمارے ریکارڈ میں نہیں ہے۔ البتہ اپنے ڈائریکٹوریٹ میں ’’ مشاہیر تحریک ِ آزادی و تحریک پاکستان‘‘کی تصاویر سجانے سے پہلے ،جب جنابِ مجید نظامی حیات تھے تو، مَیں نے ’’ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان ‘‘ لاہور میں اُن سے تین ملاقاتیں کی تھیںاور محترم شاہد رشید نے مجھے ایوان کی گیگری میں ’’ مشاہیر تحریک پاکستان‘‘ کی تصاویر کی گیلری بھی دِکھائی تھی‘‘ لیکن، کیاکِیا جائے معزز قارئین؟ کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر کی حیثیت سے قائداعظم کی کُرسی پر بیٹھنے والے میاں نواز شریف نے 25 دسمبر 2015ء کو قائداعظمؒ کی اور اپنی سالگرہ پر اپنی نواسی (مریم نواز کی بیٹی) مہر اُلنساء کی رسم حناء کی تقریب میں ، اپنے لائو لشکر سمیت بھارتی وزیراعظم شری نریندر مودی رائے ونڈ کے جاتی امراء میں آگئے اور وزیراعظم نواز شریف نے اُنہیں اپنی والدہ صاحبہ سے بھی ملوایا تو،حیرت ہے کہ اُن کی مسلم لیگ کے کسی بھی لیڈر یا کارکن نے احتجاج نہیںکیا؟۔ نااہل وزیراعظم نواز شریف کے "His Master's Voice" وزیر شاہد خاقان عباسی نے تو، کمال ہی کردِیا جب، اُنہوں نے 14 اکتوبر 2017ء کوامیر ’’ جمعیت عُلمائے اسلام ‘‘ (فضل اُلرحمن گروپ) کے والد صاحب مفتی محمود کی 37 ویں برسی سے ایک دِن پہلے 13 اکتوبر کو وزیراعظم ہائوس میں "Four Colour Plaque" ( چار رنگ کی دھات، چینی ،وغیرہ کی تختی ) ’’ یادگاری مفتی محمود‘‘ کی نقاب کُشائی کی اور فرمایا کہ ’’ مفتی محمود صاحب کی ’’ دینی ، قومی اور سیاسی خدمات کے اعتراف میں ’’ یادگاری ٹکٹ ‘‘ بھی جاری کِیا جا رہا ہے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ یہ بات "On Record" ہے کہ ’’ قیام پاکستان کے بعد مفتی محمود صاحب نے کہا تھا کہ ’’ خُدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے ‘‘۔ 4 ستمبر 2018ء کو صدارتی انتخاب تھا اور کتنی شرمناک بات ہے کہ( کئی مقدمات میں ملوث) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر کی حیثیت سے میاں شہباز شریف نے قائداعظمؒ کو ’’ مسٹر جناحؒ‘‘ کہنے والے فضل اُلرحمن صاحب کو صدارتی امیدوارنامزد کردِیا لیکن، اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیںہونے دِیا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ’’ چیئرمین ’’پیمرا ‘‘مرزا سلیم بیگ اور پاکستان کے مختلف اداروں کے سربراہوں کو نہ صِرف بھارتی ، ثقافتی ،سیاسی اور سفارتی یلغار کا مقابلہ کرنا ہوگا بلکہ قیام پاکستان کے مخالفین (کانگریسی مولویوں ) کی باقیاتؔ کا بھی ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہوگا۔ ’’جگ مگ، جگ مگ دِیا جلائو‘‘ سے "Satellite Television" کے سفر سے آگے بھی کئی اور سفر آئیں گے ۔ علاّمہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ … حیات ، ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں!