خطرہ سر تک آ پہنچے تو اس سے فرار نہیں نجات کی راہ ڈھونڈی جاتی ہے‘نجات کے لئے خطرے کی اصل نوعیت کا ادراک ضروری ہے۔ اس کی نوعیت سمجھ لینے کے بعد اس کا سامنا انہی ہتھیاروں سے کیا جائے جو کارگر ہوں۔ خالی شور مچانے‘گرد اڑانے اور اودھم اٹھانے سے نجات نہیں ملتی۔ ماضی قریب کی قومی سیاسی زندگی میں یہ تیسری مرتبہ ہو رہا ہے ایک بڑے اور قانونی خطرے سے بچ نکلنے کے لئے شور اور ہنگامے کا سہارا لینے کی کوشش شروع ہو چکی ہے۔ اس بارے میں پہلی غلطی ذوالفقار علی بھٹو نے کی اور اس کا خمیازہ اپنی جان گنوا کے بھگتا۔ پوری قوم بھی آج تک ان کے انہونے انجام کو بھگت رہی ہے۔ بھٹو صاحب نے خالصتاً قانونی اور فوجداری شکنجے سے نکلنے کے لئے ‘ قانونی دفاع کی حکمت عملی اختیار کرنے کی بجائے‘ سیاسی بیانات اور عوامی احتجاج اور ممبران پارلیمنٹ کی طاقت سے نمٹنے کی کوشش کی۔ نتیجہ سب کو معلوم ہے ۔ بھٹو نہ صرف خطے کی شدت کا اندازہ لگانے میں ناکام رہے وہ اپنے حریف کی قوت برداشت بھی نہ جان سکے۔ نواز شریف کی سیاسی زندگی بھی اسی طرح کے مسئلے سے دوچار ہوئی۔ پہلے پہل انہیں سیاسی چیلنج کا سامنا ہوا تو وہ نئے حریف عمران خاں کو ماضی کے مخالف سیاسی رہنمائوں کی طرح آسان حریف خیال کرتے رہے۔اس کے ساتھ ہی ’’پانامہ‘‘ کا ہنگامہ پھوٹ پڑا، تو مستقل مزاج ‘تیز نظر حریف نے اسے اچک لیا۔ پانامہ کے انکشافات سے نمٹنا خالصتاً ٹیکنیکل اور قانونی مسئلہ تھا۔ نواز شریف اسے ادھر ادھر لئے پھرتے رہے ۔ ان کا خیال تھا کہ حکومت کے زور اور سیاسی حلیفوں کے شور میں قانون کے شکنجے سے بچ نکلیں گے، اس کا نتیجہ بھی سب کے سامنے ہے۔ وہ عمر بھر کے لیے نااہل‘بددیانت‘ قرار پا کر سیاست کے میدان سے باہر کئے جا چکے ہیں۔ تیسرے جہانگیر ترین بھی خالصتاً قانونی مسئلے کو حل کرنے کے لئے وہ نسخہ آزمانے نکلے ہیں۔ جو بھٹو اور نواز شریف آزمانے کے بعد ناکام ہو چکے ہیں۔ ان کی حالت بھی اس دیہاتی کی ہے، جس کی بھینس کو منہ کھر کی بیماری نے آن لیا۔ تو وہ گائوں کے سیانے کے پاس گیا اور بھینس کے علاج کے لئے مشورہ مانگا۔ اس نے کہا بیمار بھینس کو ایک بوتل مٹی کا تیل پلائو، بھینس مٹی کا تیل پی کر دھڑم سے گری اور بس۔ دوسرے دیہاتی کی بھینس بھی بیمار ہو گئی۔ تو وہ پہلے والے دیہاتی کے پاس گیا اور پوچھا یار تمہاری بھینس بیمار ہوئی، تو تم نے کون سی دوا پلائی ،اس نے بتایا کہ مٹی کا تیل دیا تھا۔ وہ انجام جانے بغیر روانہ ہو گیا اور اپنی بھینس کا بھی علاج کر ڈالا۔ یہ بھٹو اور نواز شریف کی مثال ہے ،جو بڑے قومی رہنما بن چکے تھے اور ان کی پشت پر بڑی بڑی سیاسی جماعتیں اور ان جماعتوں کے پارلیمانی ممبران کی بڑی تعداد بھی تھی۔ ان کی بھینس جس علاج سے جانبر نہ ہوئیں۔ جہانگیر ترین ان سیاسی بھینسوں کے مقابلے ‘ اس میدان سیاست میں ایک مرغ سے بڑا وجود نہیں رکھتے۔ اب وہ اپنے مرغ کا علاج بھی مٹی کے تیل سے کریں تو ان کی مرضی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جہانگیر ترین شروع میں تحریک انصاف میں موجود اپنے حاسدوں کے حسد اور بدنظروں کی نظر کا شکار ہوئے۔ اب وہ ایف آئی اے کے واجد ضیاء کی رپورٹ کے بعد قانون کی گرفت میں ہیں۔انہیں چارہ سازی کے لئے ایک مضبوط اور باہوش قانونی ٹیم کی ضرورت ہے۔تحریک انصاف کی پوری پارلیمانی پارٹی مل کر بھی اس درماں کا علاج نہیں۔ آپ بھٹو اور نواز شریف سے زیادہ ہیوی ویٹ‘ نہیں ہیں اور سپریم کورٹ سے تاحیات پارلیمانی نااہلی کے بعد حالت یوں ہے کہ: شالا مسافر کوئی نہ تھیوے ککھ جنہاں توں بھاری ‘ہُو سیاست میں ’’ہیوی ویٹ‘‘ وہی ہے، جس کے ہاتھ میں اپنی مقبول سیاسی جماعت ہو ،جو کسی بھی حلقہ انتخاب میں امیدوار کو اس کے حلقے میں چند ہزار ووٹ دلا سکے۔ ترین صاحب کی بدقسمتی کہ میدان میں اترنے سے پہلے ہی سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں میدان سے باہر کئے جا چکے ہیں۔ وہ بھی عمر بھر کے لئے‘ بھٹو اور نواز شریف کی طرح کوئی بڑی سیاسی جماعت ان کا ورثہ بھی نہیں، ان کا بیٹا بھی میدان سیاست میں قدم رکھنے سے گریزاں ہے۔ ان کا کل اثاثہ ذاتی تعلقات ہیں، یہ تعلقات بھی بہت گہرے اور دیرینہ نہیں ہیں‘ یہ تعلقات اور دوستیاں پرانی نسلوں تک کا تعلق رہی ہیں‘ پارلیمانی ممبران سے دوستیاں تحریک انصاف ہی سے شروع ہوتی ہے اور چند ایک مشرف دور سے ہے۔ترین صاحب ذہین اور سمجھ دار آدمی ہیں ،انہیں قانونی مسئلے کا قانونی طریقے سے سامنا کرنا چاہیے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے ۔سیاسی حریفوں سے مقابلے کے لئے اک عمر پڑی ہے۔ عمران خان اور ترین آپس میں حریف نہیں ہیں‘ ان میں فاصلے کی پہلی وجہ محلاتی سازشیں اور پارٹی میں عمران خان کے بعد دوسری پوزیشن کے لئے جاری کشمکش بھی ہے۔ پارٹی کے اندر مقابلے میں ترین کا پلہ بھاری تھا۔ لیکن عدالت کے حکم کے بعد دوسرا جھٹکا انہیں اس وقت سہنا پڑا جب پنجاب میں وزارت اعلیٰ کا ان کا امیدوار صوبائی اسمبلی کا الیکشن نہ جیت سکا۔ خیبر پختونخواہ میں بھی ان کے دوست پرویز خٹک وزیر اعلیٰ نہ بن سکے۔ جہانگیر ترین اگر ٹھنڈے دل سے تجزیہ کرنے کو تیار ہوں تو وہ آسانی سے اس نتیجے پر پہنچ سکتے کہ ان کی خاموشی دوستوں کے لئے امید اور حریفوں پر بھاری پڑ رہی تھی۔ انہوں نے بے وقت خاموشی توڑ کر فاتحانہ واپسی کی راہیں بند کر لیں گے۔ جاوید ہاشمی کی طرح اگر وہ بھی اسلام آبادمیں کنٹینر سے اترنے کے بعد تھوڑی مدت کے لئے خاموش رہ سکتے تو ان کے لئے کم از کم تین رستے کھلے ہوئے تھے اور ہر رستہ پہلے سے آسان اور کشادہ مگر ان سے یہ نہ ہو سکا۔ جہانگیر ترین کے خلاف عدالت کے فیصلے سے سیاست میں براہ راست عہدہ حاصل کرنے میں اگرچہ رکاوٹ آ گئی مگر وہ بادشاہ گر کے منصب پر فائز ہو چکے تھے، پارٹی کے رہنما ان کی خوشنودی کے لئے بے قرار رہتے اور عام کارکن ان سے محبت کرتے انہیں تحریک انصاف کے ساتھ اپنا ذاتی محسن خیال کرتے تھے ان کی اہمیت اور طاقت اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ حامد خان‘ جیسے طاقتور اور دیرینہ لیڈر اور جسٹس وجیہہ طرح کے قابل احترام اور پارٹی میں گہرا اثر رکھنے والے رہنما بھی ان کی تاب نہ لا سکے۔اسد عمر سا قد آور وزارت چھوڑنے پر مجبور ہوا ،یہ جہانگیر ترین ہی تھے جن کی وجہ سے فخر امام‘ عابدہ حسین خواہش اور ہماری کوشش کے باوجود پارٹی میں شامل نہ ہو سکے، اس لئے کہ ہراج گروپ کو ترین صاحب کی حمایت حاصل تھی۔ فخر امام اور خاور علی شاہ‘ آزاد انتخاب لڑنے کے بعد تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ رحیم یار خاں سے مخدوم احمد محمود کی تحریک انصاف میں شمولیت کی صورت میں رحیم یار خاں کی ساری سیٹیں جیتی جا سکتی تھیں۔ راقم نے اس بارے میں عمران خاں سے بات کی، تو انہوں نے جہانگیر ترین صاحب سے اختلافات کا حوالہ دے کر اس مسئلے میں خاموشی اختیار کر لی۔ایسا ہی فخر امام کے مسئلے پر بھی ہوا۔ عمران خاں کی حکومت کے خلاف فضل الرحمن کی سربراہی میں بننے والا سیاسی اتحاد سینٹ میں یوسف رضا گیلانی کے اپوزیشن لیڈر بن جانے سے ’’فالج‘‘ کا شکار ہو کر بستر سے جا لگا۔ اس بیماری جانبر ہونے کی امیدیں دم توڑنے لگی تھیں۔ جہانگیر ترین صاحب کو ایف آئی اے کا نوٹس ملنے کے بعد گویا ان کے سوکھے دھانوں پانی پڑ گیا ہے۔ ان کی امیدیں تازہ ہونے لگی ہیں۔ اب ان کی آرزوئوں کا مرکز و محور جہانگیر ترین بن چکے ہیں۔ پہلے پہل پیپلز پارٹی کی شہلا رضا نے ٹویٹ کیا کہ جہانگیر ترین پیپلز پارٹی کے آصف زرداری سے ملاقات کرنے والے ہیں ،جہاں وہ پی پی پی میں شمولیت کا اعلان کریں گے‘ اس بیان کی اگلے ہی لمحے تردید کر دی گئی، اس کے بعد مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ بولے کہ جہانگیر ترین جب چاہیں مرکز اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ختم کر سکتے ہیں: کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے؟