بلتستان کے نو روزہ قیام میںہم نے لوگوں سے گفتگو کم اور درختوں،جھیلوں،پہاڑوں،چشموں اور جھرنوں سے مکالمہ زیادہ کیا۔یہی مقصد تھا اور یہی اس وقت کا بہترین مصرف۔اور میرا تجربہ ہے بھی یہی کہ انسانوں کا مشاہدہ اکثر اوقات مکالمے سے زیادہ مؤثر ہوتا ہے۔چنانچہ یہ مشاہدہ اور مکالمہ پورے سفر میں جاری رہا۔خوبصورت مقامات کا تعین ہمارے میزبانوں نے پہلے ہی کر رکھا تھا اور یہ مقامات فطری حسن کے لحاظ سے بے مثال تھے ۔لیکن ان میں سے چند کا ذکر نہ کرنا اس حسن کے ساتھ نا انصافی ہوگی۔ غواڑی دریائے شیوک کے کنارے بہت پرسکون اور خوب صورت وادی ہے۔یہاں دریا کنارے چیری ،خوبانی ،ناشپاتی ،آلو بخارے ،آلوچے ،سیب اور بادام کے باغات ہیں اور مالکان نے اسے ریزارٹ بنا دیا ہے۔خشل ایگری ٹورزم پارک اینڈ ریزارٹ کے نام سے یہ حسین جگہ بے حد پرسکون ہے اور دل چاہتا تھا کہ یہیں پورا وقت گزار دیا جائے۔لیکن وقت ہی ہمارے پاس کم تھا کیوں کہ ہمیں کئی اور جگہوں پر بھی جانا تھا پھر بھی یہاں گزارے جانے والے تین گھنٹوں میں رسیلی خوبانیاںاور مزیدار آلو بخارے خود پیڑوں سے توڑ کر کھانے کا اپنا ہی لطف تھا۔ خپلو سے سیلنگ جاتے ہوئے راستے میں بہت کھلے اور تازہ دم کردینے والے منظر ہیں۔ہم دریا سے بلندی پر سڑک کنارے کھڑے تھے، اس جگہ سے نیچے دریا کا بہت کھلا پاٹ ہے اوردائیں بائیں سبز وادیاں۔دور سامنے دو پہاڑوں کے درمیان سے برف پوش میشر بروم چوٹی دو پہاڑوں کے درمیان سے اس طرح جھانک رہی تھی جیسے دو پٹ وا ہوں اور ان کے درمیان سے کوئی حسینہ آپ کو دیکھ رہی ہو ۔ یہ میشر بروم پوائنٹ ہے جہاں اس کھلی وادی سے دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں سے ایک میشر بروم نظر آتی ہے جس کی بلندی 26356 فٹ ہے۔ خپلو میں عظمیٰ سلیم کا پرانا ملازم عیسٰی ہمارے لیے خالص بلتی کھانے بنا کر لایا۔کیسر (آٹا، پودینہ، ہرا دھنیا وغیرہ کو گوندھ کر بنائی ہوئی مزیدار روٹی )،کھوربہ روٹی (راکھ میں بنائی ہوئی روٹی جو سخت ہوتی ہے اور چائے میں بھگو کر کھاتے ہیں )۔پڑپّو (آٹے اور اخروٹ کی چٹنی کی ڈش )۔یقینا میری طرح یہ نام آپ میں سے اکثر کے لیے بھی نئے ہوں گے۔ کھرمنگ وادی میں منٹھوکھا آبشار گنگناتے چشموں اور جلترنگ بجاتی ندیوں کیساتھ آپ کا استقبال کرتی ہے.سیلنگ سے واپسی پر ہم اس راستے پر مڑ گئے جو سیرمک گاؤں سے ہوکر منٹھوکھا آبشار جاتا ہے۔200فٹ بلندی سے پگھلی چاندی کی طرح گرتی یہ کمال حسین آبشار ہے۔ میر ابہت پہلے کا شعرساتھیوں نے یاد دلایا اور وہ اس آبشار کے منظر میںپوری طرح حسب حال تھا۔ وہ گر رہا ہے کسی آبشار کی صورت میں تک رہا ہوں اسے آخری کنارے سے آبشارکے ساتھ اب پکنک پوائنٹ اور ریسٹورنٹ بھی بنا دیا گیا ہے.یہاں گزارا ہوا وقت منجمد لمحات کی طرح ہے۔ سکردو کے قریب کچورہ نام کے پہاڑ پر دو جھیلیں ہیں۔لوئر کچورہ جھیل ،جو پہاڑ کے دامن یا کم بلندی پر واقع ہے۔اپر کچورہ جھیل ،جو پہاڑ کی خاصی بلندی پر ہے ۔کہا جاتا ہے کہ کچورہ کا مطلب ہے محفوظ۔وجہ یہ کہ جب یہ علاقہ ڈوگروں کے زیر نگیں تھا تو ایک پل کاٹ دینے پر یہ سارا علاقہ ان کی دسترس سے محفوظ ہوجاتا تھا اس لیے اس کا نام کچورہ ہے۔بڑے پیالے جیسی اس لوئر کچورہ جھیل پر بلند پہاڑوں کے درمیان وسیع زمین خرید کر ایک سابق فوجی افسر نے تفریحی رہائش گاہ (ریزارٹ) بنائی اور اس کا نام شنگریلا رکھا، راستہ دشوار گزار تھا تھا اور سہولیات نہ ہونے کے برابر ۔لیکن مسلسل محنت اوراس جگہ کی خوب صورتی نے سیاحوں کو جلداپنی طرف کھینچ لیا۔بعد میں مختلف اداروں اور نجی ہوٹلوں نے بھی اطراف میں جگہ لے کر اپنی عمارتیں تعمیر کرلیں۔یہ جگہ مسحور کن ہے اور دن شام رات میں اس کی خوب صورتی الگ الگ انداز کی ہے۔یہاں وقت گزارنا ایک خواب جیسا ہے اور یہ طے ہے کہ ہر خواب بہرحال کچھ دیر بعد ختم ہونا ہوتا ہے۔ اگر آپ مہم جوئی کا شوق نہیں رکھتے۔پہاڑی چڑھائی اترائی کی ہمت نہیں ہے۔اچھا خاصا پیدل فاصلہ طے نہیں کرسکتے یا خدانخواستہ بیمار ہیں تو پھر اپر کچورہ جھیل کا رخ نہ کریں۔ ہمیں علم تھا کہ جھیل تک جانے کے لیے خاصا فاصلہ پیدل طے کرنا پڑے گا اور سامان ساتھ ہوا تو اور مشکل ہوگی۔اس پر مستزاد یہ کہ راستے میں آنے والے تیز و تند پہاڑی نالے نے کچھ دن پہلے ہی لکڑی کا پل مسمار کردیا تھا اور اس کی مرمت جاری تھی چنانچہ یہ پل پیدل عبور کیا جاسکتا تھا لیکن گاڑی پر نہیں۔ شنگریلا یعنی لوئر کچورہ جھیل پرآرمی گیسٹ ہاؤس میں کھانے کے بعد ہم گاڑی میں اپر کچورہ جھیل کی طرف پہاڑ پر چڑھے اور اس پل سے پہلے لمبی قطار کے پیچھے گاڑی روکنی پڑی۔شور مچاتے جھاگ اڑاتے نالے کا پل پیدل پار کیا۔دوسری طرف مقامی لوگ گاڑیاں لیے کھڑے تھے۔قدرت کی طرف سے انہیں کمائی کا یہ اضافی موقعہ مل گیا تھا کہ وہ پید ل سیاحوں کو اپر کچورہ جھیل کی طرف گاڑیوں میں لے جارہے تھے۔ ایک گاڑی میں ہم بھی بیٹھ گئے۔جس نے ہمیں اس جگہ تک پہنچا دیا جہاں تک وہ جاسکتی تھی۔جھیل نشیب میں واقع تھی اور اچھی خاصی دشوار اترائی کے بعد ہی وہاں پہنچا جاسکتا تھا.راستے میں ایک چھوٹی سی مسطح جگہ پر ایک چھوٹا سا ہوٹل تھا جہاں مصالحے دار ٹراؤٹ مچھلیاں دیکھ کر رہا نہ گیا. اسے واپسی پر کھانے کی خوش خبری سنا کر ہم مزید آگے بڑھ گئے۔اب مسلسل اترائی تھی اور کچھ دیر بعد درختوں کے درمیان ہمیں اس نیلگوں سبز حسن کی پہلی جھلک دکھائی دی جسے اپر کچورہ جھیل کہتے ہیں۔اور یہ فکر بھی ستا رہی تھی کہ واپسی پر یہ مشکل چڑھائی چڑھنی ہے۔یاد رکھیے حسن تک رسا ہونے کا راستہ کٹھن ہوتا ہے۔ آخر کار آخری قدم اتر کر اس بھربھری ریت پر پاؤں رکھے جو جھیل کا ساحل تھا۔ساحل پر چھوٹا سا چائے کا ہوٹل تھا اور کشتی بان جو موٹر بوٹ پر جھیل کی سیر کرانے کے لیے ہمارے منتظر تھے۔بنجر بلند نیم برف پوش پہاڑوں کے درمیان یہ خوب صورت جھیل لوئر کچورہ جھیل سے بڑی اور زیادہ گہری ہے۔جھیل کی سطح کو چھو کر آتی سرد ہوا تازہ اور خوشبودار تھی۔جھیل کنارے درخت ہیں اور ان کے نیچے پڑی کرسیاں۔گپ شپ قہقہے اور نوک جھونک جو راستے بھر چلتی رہی تھی یہاں تازہ دم ہوگئی ہم نے موٹر بوٹ میں جھیل کے چکر لگائے۔مقامی بوٹی ’ ’ تنبورو ‘ ‘کا خوشبودار قہوہ پیا۔اس فضا میں لمبے گہرے سانس لیے جو سیاحوں کو صرف چند ماہ میسر ہوتی ہے۔واپسی پر چڑھتے سانسوں کے ساتھ یہ مشکل چڑھائی پھر عبور کی۔ٹراؤٹ مچھلی نہایت لذیذ اور کرکری تھی اور تھکن میں اس نے جیسے ہمارے اندر جان ڈال دی ۔ میں نے بلندی سے اپر کچورہ جھیل کی آخری جھلک دیکھی۔تصور کی آنکھ سے سردی کے موسم میں منجمد جھیل کا تصور کیا اور یہ شعر یاد کیا منجمد جھیل کیسا لگتا ہے زخم اوپر سے مندمل رکھنا