اپوزیشن کی صفوں میں اچانک ہی قومی غیرت کا غلغلہ اٹھا ہے۔قوم کو بھی آج ہی علم ہوا ہے کہ اس پہ باری باری سواری گانٹھنے والی سیاسی اشرافیہ میں جن کے بینک اکاونٹ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں، قومی غیرت کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یہ کیسا شور ہے جو مکمل ڈھٹائی کے ساتھ مچایا جارہا ہے۔ملک کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں گروی رکھ دیا گیا ہے۔ قوم کو آئی ایم ایف کے کہنے پہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے۔یہ حکومت آئی ہی اس لئے تھی کہ ملک کو عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں گروی رکھ دے۔ بات یہ ہے کہ مجھے یقینا اس اپوزیشن پہ فخر محسوس ہوتا اگر اس کی تاریخ میرے سامنے کی بات نہ ہوتی۔مجھے یاد ہے زرداری حکومت میں آئی ایم ایف پیکج ملنے پہ مرحومہ فوزیہ وہاب نے مٹھائیاں تقسیم کی تھیں۔2008 میں پاکستان کی اس وقت کی مخلوط حکومت نے 2010 ارب کا بجٹ پیش کیا تھا جو 2007 -8 کے بجٹ سے اٹھائیس فیصد زیادہ تھا۔ ورلڈ بینک، اسلامی ترقیاتی بینک جاپان آئیبرڈ بینک اور ایشائی ترقیاتی بینک نے نئے پروجیکٹس کے لئے قرضے دینے سے انکار کردیا تھا۔ یہ انکار کیوں کیا گیا تھا اس کی بھی کچھ وجوہات تھیں۔ان میں سب سے بڑی وجہ اس وقت پاکستان کے منصب صدارت پہ فائز تھی۔یوں بیرونی قرضہ جات میں پہلے ہی چالیس فیصد کمی ہوگئی تھی۔اس کے بعد غیرت مندوں کے پاس آئی ایم ایف کے در کے سوا کون سا آسرا تھا؟اس وقت آئی ایم ایف نے بیل آوٹ پیکج کے لئے سولہ شرائط عائد کی تھیں جن میں معمولی رد وبدل کے بعد گیارہ شرائط تسلیم کرلی گئیں۔جن میںزراعت اور خدمات پہ جی ایس ٹی کی جگہ اٹھارہ فیصد سینٹرل ایکسائز ڈیوٹی لگا دی گئی۔یہ قرضے مالی سال کی اگلی سہ ماہیو ں میں دیے جانے تھے ۔ ان ہی شرائط میں ورلڈ بینک کے ساتھ قرضوں کی ری شڈیولنگ اور قرضے اور گرانٹ میں فرق کرنا بھی شامل تھا۔ اس سانجھے کی حکومت نے بلا چوں چراں بجلی اور گیس کی سبسڈی ختم کردی ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے آئی ایم ایف سے گیارہ بلین ڈالر گیارہ شرائط پہ حاصل کئے تھے۔ وہ بوجوہ ان شرائط کو پورا کرنے میں ناکام رہی تو آئی ایم ایف نے تین بلین ڈالر روک لئے۔نواز حکومت نے ان تمام شرائط کو پورا کرنے کی یقین دہانی کروائی اور ان ہی شرائط پہ نئے قرضے حاصل کرلئے اور آتے ہی عوام پہ پٹرول بم گرا دیا۔ سات بلین ڈالر کے بیل آوٹ کے لئے انہوں نے گزشتہ حکومت کی طرح کسی گفت وشنید کی ضرورت بھی محسوس نہ کی۔آئی ایم ایف کی پہلی شرط اسٹیٹ بینک کو اوپن مارکیٹ سے فوری طور پہ سو ملین ڈالر خریدنے کی تھی جو پوری کی گئی۔روپیہ جو پہلے ہی دباو میں تھا ڈالر کے مقابلے میںبدترین شرح پہ آگیا۔بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ انڈسٹریل سیکٹر جو پہلے ہی ٹیرف میں چھیانوے فیصد اضافہ جھیل رہا تھا مزید دباو میں آگیا۔گھریلو صارفین کے لئے بھی پندرہ فیصد اضافہ ہوگیا۔بجلی کے بلوں کی وصولی کا حال جوں کا توں رہا کیونکہ اس کی زد میں بڑے بڑے نام آتے تھے ۔عوام پہ ٹیکس لگا کر مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاتے رہے۔اس پہ آئی ایم ایف اتنا شاداں وفرحاں تھا کہ اس نے اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سیشن کے دوران ایک علیحدہ میٹنگ میں نوازشریف کی پیٹھ تھپکی اور انہیں معاشی بحالی کے لئے نامقبول لیکن سخت اقدامات اٹھانے پہ خراج تحسین پیش کیا۔خود دلوں کے وزیراعظم نے آئی ایم ایف کو اپنی معاشی پالیسی کے جو بنیادی خدوخال بیان کئے ان میں ٹیکس نیٹ کا پھیلاو اور پرائیویٹائزیشن شامل تھیں۔اس میٹنگ میں نواز شریف آئی ایم ایف سے مزید سات بلین ڈالر کا بیل آوٹ لینے میں کامیاب ہوئے۔کہیں کوئی آواز بلند ہوئی نہ کسی نے ملک کو آئی ایم ایف کے ہاتھوں گروی رکھنے کا طعنہ دیا نہ کشکول اٹھانے اور بھیک مانگنے کا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آئی ایم یف نے اس نئے بیل آوٹ پیکج کے اعلان کے باوجود اگلے سال پاکستان کی شرح نمو میں کمی کا اندیشہ ظاہر کیا۔اگر سب اچھا جا رہا تھا تو یہ اندیشہ کس لئے تھا جبکہ نواز حکومت کو دور دور تک کوئی خطرہ بھی نہیں تھا۔اس کے باوجود مفتاح اسماعیل نج کاری کے لئے اتنے اتاولے ہوئے کہ اسٹیل مل کے ساتھ پی آئی اے مفت دینے کا مضحکہ خیز اعلان کیا۔تب تو عمران خان کی ناتجربہ کار حکومت نہیں تھی ہاں البتہ تجربہ کار اسحاق ڈار لندن فرار ہوچکے تھے۔یہ بھی مزے کی بات ہے کہ خود مفتاح اسماعیل بھی واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے ملازم تھے۔ حفیظ شیخ اس وقت بھی آئی ایم ایف کے ملازم تھے جب زرداری کی حکومت تھی۔اس سے قبل تو وہ مشرف حکومت میں سندھ میں نجکاری کے وزیر تھے۔ بعد میں اسی دور میں سینیٹر بنے پھر پیپلز پارٹی نے انہیں سینیٹر بنوایا۔ ایسی ہی یاد دہانیوں سے خجل ہوکر کوئی کہہ رہا تھا کہ ہم نے ٹیکنو کریٹ لئے ضرور لیکن انہیں سیاسی دھارے میں شامل کیا۔سیاسی دھارے میں تو انہیں مشرف نے شامل کیا تھا آپ کو تو وہ شامل ہی ملے تھے۔ہاں آئی ایم ایف کے ایک سابق ملازم کو محض بجٹ پیش کرنے کے لئے حلف آپ نے اٹھوایا۔ اسی طرح آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے بہت سے ملازم حکومتوں میں مشیراور وزیر رہے ہیں لیکن پروپیگنڈا مشین گنوں کا رخ صرف اس حکومت کی طرف ہے جو کسی کو راس نہیں آرہی۔ حال ہی میں نامزد چئیرمین ایف بی آر کے نان فائلر ہونے کی جھوٹی رپورٹ پھیلائی گئی جس پہ ادارے نے معافی مانگ لی لیکن جو مقصد تھا وہ حاصل کرلیا گیا۔ایک اور پروپیگنڈا جو باقر رضاکے حوالے سے کیا جارہا ہے کہ وہ مصر میں مشن چیف تھے اور انہوں نے مصر کی معیشت کا بھٹہ بٹھا دیا تھا اس لئے وہ پاکستان کے ساتھ بھی یہی کریں گے بلکہ یہی کرنے آئے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مصر نے اپنی گرتی ہوئی معیشت کے پیش نظر آئی ایم ایف سے بارہ بلین ڈالر کا بیل آوٹ پیکج لیا تھا اور اس پیکج کی وجہ سے وہ معاشی بحران سے نکل آیا ہے ۔ دو سال قبل جب مصر نے یہ بیل آوٹ لیا تو مہنگائی کی شرح جو 2017 میں تیس فیصد بڑھ گئی تھی لیکن اب گیارہ فیصد کم ہوگئی ہے۔فارن ریزرو پندرہ بلین سے چوالیس بلین ڈالر ہوگئے ہیں۔مصر کی ٹریڈ ریٹنگ بھی بڑھی ہے اور معاشی اشاریئے گزشتہ چھ سال کی نسبت مثبت ہیں۔ اس بیل آوٹ پیکج کی شرائط بھی وہی تھیں جو آج پاکستان کے لئے رکھی جارہی ہیں یعنی حکومتی اخراجات میں کمی ، ٹیکس میں اضافہ اور سبسڈی میں کٹوتیاں۔ مصر کی مثال سے آئی ایم ایف کے فضائل بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ اس جھوٹ کا پول کھولنا ہے جو مخصوص ایجنڈا کے تحت عوام میں بددلی پھیلانے کے لئے بولا جارہا ہے۔