گزشتہ روز دھند اور سردی کے شدید موسم میں کونسل آف نیشنل آفیسر کے چیئرمین جناب غلام مصطفیٰ خان میرانی نے اپنے ہفتہ وار اجلاس میں ہمیں جنوبی پنجاب کے مسائل اور سیاسی صورتحال پر لاہور آنے کی دعوت دی ۔سی این اے کا پلیٹ فارم گزشتہ 26 سال سے لاہورمیں ملکی مسائل اور اُن کے حل پر زبردست نشستیں اور سیمینار منعقد کرا رہا ہے ۔ نیشنل کونسل آف آفیسرز کے ساتھ ملک کی نامور شخصیات منسلک ہیں ۔جن میں صحافی ، دانشور ، ریٹائرڈ بیوروکریٹ ، وکلا ء ، علماء کرام اور سماجی شخصیات شامل ہیں۔ دراصل کونسل آف نیشنل آفیسرز علم ، ادب ، صحافت ، معاشیات اور دیگر امورمیں زبردست تجربہ اور مہارت رکھنے والے دانشور وں کا ایک ایسا فورم ہے کہ جہاں سے بلندکی گئی آواز پورے ملک اور اعلیٰ اداروں میں سنی جاتی ہے۔ سی این اے 1997ء میں بنایا گیا ہے جس کے چیئرمین بننے کا اعزاز بھی جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھنے والے جناب غلام مصطفیٰ خان میرانی کے حصہ میں آیا جو آج بھی اپنی انتھک محنت اور پورے جوش اورجذبے کے ساتھ اپنے اِس فورم کے ذریعے اپنی آواز کو بلند کئے ہوئے ہیں ۔سی این اے کی بلا ناغہ ہفتہ وار نشستوں میں قومی ، بین الاقوامی ، سیاست ، سماجی ، معاشی ، علاقائی مسائل اور اہم واقعات پر سیر حاصل گفتگو کی جاتی ہے ۔ اِس تعمیری بحث اور گفتگو کے دوران سوال ، جواب کی نشست بھی ہوتی ہے۔ مہمان سے اُن کی تقریر کے دوران بیان کئے گئے مختلف نکات اور مسائل پر سوال اور جواب کی نشست میں بھی بڑے پہلو سامنے آتے ہیں ۔ اصلاح احوال اور تعمیر کی غرض سے حکومتی اور با اثر شخصیات کو اِن مسائل پر توجہ دلائی جاتی ہے اور اُن کو مثبت مشورے بھی دیئے جاتے ہیں۔اکثر اوقات قومی اور بین الاقوامی شخصیات کو اہم نشستوں میں مدعو کیا جاتا ہے جو اظہار خیال کرتی ہیں۔ کونسل آف نیشنل آفیسرز کے مختلف نشستوں میں ملک کے نامور سیاسی شخصیات بھی شرکت کر چکی ہیں ۔ مصطفیٰ خان میرانی اپنے اِس ادارہ میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیت کو مدعو کرنا بھی ضروری خیال کرتے ہیں اور پھر اُن کو اپنا نقطہ نظر بیان کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں۔ جنوبی پنجاب جو ہمارے ملک کا ایک بہت ہی اہم حصہ ہے ملک کی ترقی اور خوشحالی میںجنوبی پنجاب ہمیشہ ہر اول دستے کا کردار ادا کرتا رہا ہے بلکہ جنوبی پنجاب کے اہم ترین ضلع ملتان کو یہ اعزاز حاصل ہے ملتان جو کبھی بر صغیر میں نمایاں حیثیت کا مالک تھا اور لاہور بھی اِس کے پایہ تخت میں شامل تھا لیکن بعد میں دوسرے شہر زیادہ نمایاں ہوتے گئے جو ملتان سے کافی جو نیئر تھے تا ہم سکھوں اور انگریزوں کے دور میں ملتان اور جنوبی پنجاب کے دیگر اضلاع کی حیثیت کو تسلیم کیا گیا بہاول پور جو پاکستان بننے سے پہلے ایک مکمل خود مختیار ریاست ہوا کرتی تھی بہاول پور کے عباسی نواب خاندان کے پاکستان پر بڑے احسانات ہیں ۔یہاں تک کے نواب محمد صادق خان عباسی نے قائد اعظم کی اپیل پر پاکستان کے خزانے میں لاکھوں روپے عطیہ جمع کرایا جس سے مختلف اداروں کو تنخواہیں دی گئی تھیں بعد میں مہاتما گاندھی کی بھوک ہڑتال کرنے پر پنڈت جواہر لعل نہرو نے پاکستان کے حصے میں آنے والی رقم بھجوائی تھی نواب بہاول پور کے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ بڑے قریبی اور دوستانہ تعلقات تھے۔ بہاول پور کے کچھ حلقے آج بھی جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے اپنے تحفظات رکھتے ہیں جن میں وہ بہاول پور کو صوبہ بنانے کی بات کرتے ہیں اور اِس حوالے سے وہ ا پنے دلائل بھی رکھتے ہیں ۔ راقم المعروف نے کونسل آف نیشنل آفیسرز کے اجلاس میں جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے بڑی کھل کر باتیں کیں عمران خان نے جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا جو وعدہ کیا تھا وہ بھی اُن کے دور حکومت میں پورا نہ ہو سکا ۔جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے بڑے با اثرسیاسی لوگوں نے عمران خان کی پی ٹی آئی میں جب شمولیت اختیار کی تھی تو اُنہوں نے اول شرط جنوبی پنجاب صوبہ کی رکھی تھی لیکن افسوس کہ جونہی عمران خان کو اقتدار ملا تو اُنہوں نے جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے وعدہ فراموش کر دیا اور نہ ہی پھر میر بلخ شیر خان مزاری مرحوم ، سردار نصرا للہ دریشک ، خسرو بختیار اور عثمان بزدار کی طرف سے عمران خان کے سامنے کوئی احتجاجی آواز بلند ہوئی ۔جنوبی پنجاب کے اِن سیاست دانوں کے صرف اپنے اپنے ذاتی مفادات ہوتے ہیں اور جب یہ پورے ہو جائیں تو پھر یہ عوام کو یکسر فراموش کر دیتے ہیں۔ آج تک صوبہ بنانے کی آواز بلند نہیں ہو سکی ۔اب ذرا اِس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے دیگر دو بڑے اضلاع ڈیرہ غازی خان اور رحیم یار خان کے کیا مسائل ہیں اور وہاں کے عوام کس طرح سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ڈیرہ غازی خان روز اول سے سرداروں اور تمن داروں کے نرغے میں رہا ہے ۔ ماضی میں صرف دو مرتبہ عوامی شخصیات یہاں سے ایم این اے بنی تھیں جن میں 1970 ء کے الیکشن میں جماعت اسلامی کے ڈاکٹر نذیر احمد شہید جبکہ دوسری عوامی شخصیت موجودہ سینیٹر ڈاکٹر حافظ عبدالکریم ہیں کہ جنہوں نے لغاری سرداروں کے خلاف الیکشن لڑ کر بھرپور کامیابی حاصل کی اور 2013ء کے جنرل الیکشن میں کامیابی حاصل کر کے ایم این اے بنے پھر اُنہوں نے ڈیرہ غازی خان کے مسائل حل کرنے کے بھی بھرپور اقدامات کیے لیکن افسوس کہ سردار عثمان بزدارکے د ور میں جو ترقیاتی کام ڈیرہ غازی خان کے ہونے تھے وہ نہ ہو سکے ماسوائے فتح محمد خان دل کا ہسپتالکے۔ اس طرح رحیم یار خان میں بہت زیادہ مسائل ہیں ۔جن میں ایک مسئلہ شیخ زید ہسپتال کا ہے کہ ایک ہسپتال نے آدھے سے زیادہ بلوچستان اور سندھ تک کے مریضوں کو داخل کیا ہوا ہے جبکہ رحیم یار خان میں بھی ڈیرہ غازی خان کی طرح سیوریج اور پینے کے پانی کے مسائل بہت زیادہ ہیں یہ تمام مسائل صرف اور صرف علیٰحدہ صوبہ بننے کی صورت میں ہی حل ہو سکتے ہیں اور صوبہ تب بنے گا جب ہماری جنوبی پنجاب کی قیادت مخلص ہو گی وگرنہ یہ خواب ہی رہے گا ۔