ہم جیسے اللے تللے ترقی پذیر ممالک کے باشندے ہمیشہ ترقی یافتہ ممالک اور وہاں کے حکمرانوں کو لالچ بھری نگاہوں سے تکتے رہتے ہیں۔ دل میں ہْوک اْٹھتی ہے۔ کاش! ہمارا وطن اور اس کے باسی بھی کسی دلفریب وادی میں بیٹھ کر سکھ چین کی بانسری بجا سکیں۔ اب نیوزی لینڈ جیسے چھوٹے سے ملک کو ہی دیکھ لیجیے۔ نیوزی لینڈ پیسیفک اوشن میں واقع جنوب مغربی جزیرہ نما ملک ہے۔یہ دو بڑے شمالی اور جنوبی جزیروں کے علاوہ سات سو چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل ہے۔ آبادی کے اعتبار سے چھوٹا مگر مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں۔ 48.6 فی صد کسی مذہب کو نہیں مانتے۔ 37.3 فی صد عیسائی مذہب کو ماننے والے ہیں۔ 27 فی صد ہندو مذہب کے ماننے والے ہیں۔ 1.3 فی صد اسلام کے ماننے والے ہیں۔ 1.1 فی صد بدھ مذہب کے ماننے والے ہیں۔ نیوزی لینڈ طرز زندگی کی خصوصیات، تعلیم، شہری آزادی، حکومتی شفافیت اور معاشی آزادی کی وجہ سے دنیا میں مقابلتاً اونچے درجے پر آتا ہے۔ نیوزی لینڈ پہلا ملک ہے جس نے عورت کو ووٹ کا حق دیا۔ 1980 کی دہائی میں نیوزی لینڈ معاشی ابتری کا شکار ہوا تونیوزی لینڈ نے ملکی صنعت کے تحفظ کا حامی ہونے کے بجائے دنیا کے ساتھ محصول سے آزاد تجارت شروع کی۔ جیسنڈا آرڈن نیوزی لینڈ کی چالیسویں وزیرِ اعظم اور لیبر پارٹی کی رہنما ہیں۔ جیسنڈا آرڈن 2017 سے پارلیمنٹ کی رْکن رہی ہیں۔ جیسنڈا آرڈن اور بے نظیر بھٹو میں ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں خواتین نے اپنے منصب کے دوران بچہ پیدا کیا اور وہ بھی دونوں بیٹیاں۔ جیسنڈا آرڈن نے نسل پرستی کے خلاف بہت کام کیا۔ جیسنڈا آرڈن نے کہا کہ وہ اب تھک چکی ہیں لہٰذا وہ اپنے عہدے کو مزید نہیں چلا سکتیں۔ بحیثیت وزیر اعظم ان کی 11 جنوری 2023 کو آخری تقریر تھی:’’آج میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ میں اب دوبارہ نئے انتخابات میں حصہ نہیں لوں گی۔ سات فروری کو میری بطور وزیر اعظم نوکری کی مدت ختم ہو جائے گی۔ یہ ساڑھے پانچ برس میری زندگی کے اہم ترین سال رہے ہیں۔ مگر اس کے بہت سے چیلنجز بھی تھے۔ میں اس اہم ترین عہدے کی اہمیت کو بخوبی جانتی ہوں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ میں اب اس عہدے کے ساتھ مزید انصاف نہیں کر سکتی ہوں اور یہ سادہ سی بات ہے۔ میں انسان ہوں۔ سیاست دان انسان ہوتے ہیں۔ جہاں تک اور جب تک ہو سکے ہم اپنی پوری کوشش کرتے ہیں لیکن اس سب کے باوجود آپ کے جانے کا وقت آجاتا ہے اور یہ میرے جانے کا وقت ہے۔‘‘ یہ سب کچھ تو ہم ترقی یافتہ ممالک میں دیکھتے رہتے ہیں اور اپنا دل مسوس کر رہ جاتے ہیں۔ جیسنڈا کو پوری دنیا میں کم عمر ترین وزیر اعظم کا اعزاز حاصل ہوا۔ انہوں نے لیبر پارٹی کے سالانہ عشائیے میں اپنے مستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ جیسنڈا نے بتایا کہ اب وہ حالات کو سنبھالنے سے قاصر ہیں لہٰذا یہ ان کے وطن سے بے انصافی ہو گی کہ وہ اس عہدے پر قائم رہیں۔ دھان پان سی جیسنڈا آرڈن کتنے مضبوط اعصاب کی مالک تھیں کہ جب 2020 میں وہ ایک انٹرویو دے رہی تھیں اور اچانک زلزلہ آگیا مگر وہ سہمے بغیر بڑے اطمینان سے انٹرویو جاری رکھتی ہیں۔ 2019 میں جب کرائسٹ چرچ میں مسلمانوں پر نمازِ جمعہ کے دوران دہشت گردی کا حملہ ہوا تو بلا شبہ جیسنڈا ایک ہمدرد اور امن پسند رہنما کے طور پر دنیا کے سامنے اْبھریں۔ وہ دہشت گردی کا شکار ہونے والے لوگوں اور پوری دنیا سے مخاطب ہو کر کہتی ہیں کہ ’’میں حکومت کی جانب سے آپ سب سے معذرت خواہ ہوں‘‘۔ یہ ہوتی ہے ایک ذمہ دار اور ایمان دار وزیر اعظم کی نظر اور اس کی وسعت۔ وزیر اعظم اپنی کابینہ کا چیف اور تمام وزیروں کا رہنما ہوتا ہے۔ وفاقی حکومت میں انتظامیہ کی کارکردگی کے لیے پارلیمنٹ کے سامنے جواب دہ رہتا ہے۔ لیکن ہمارے ہاں سیاسی نظام میں ایک ازلی نقص ہے کہ ہمارے وزیر اعظم شاید اپنی سیاسی خاندانی آمریت کا تحفظ جمہوریت کے لبادے میں چھپا کر کرتے ہیں۔ پاکستان میں آج دن تک احتساب کا نظام قائم نہیں ہو سکا جبکہ ہر آنیوالی حکومت احتساب کا نعرہ لگاتی ہے۔ کبھی کوئی حکومت احتساب کا نظام قائم کر بھی لے تو وہ اتنا پیچیدہ اورخود غرضی کے اصولوں پر ڈھلا ہوتا ہے کہ خود اپنی کرپشن کو بچالے جاتا ہے۔ اب جیسنڈا آرڈن جیسی با اصول، ایماندار، بااخلاق، با کردار اور مضبوط عورت سے ہی ہمارے وزیر اعظم صاحب کو سیکھ لینا چاہیے اور سچائی کا دامن تھامتے ہوئے خود احتسابی کا عمل اپنانا چاہیے۔ جیسے کہرا فصلوں کو غارت کر دیا ہے۔ گھن لکڑی کو کھا جاتا ہے۔ بزدلی دلیری کا جذبہ ختم کر دیتی ہے۔ اسی طرح ملکی امور میں اگر عوام کو شریک نہ کیا جائے، فیصلے اور حکمتِ عملیاں اپناتے وقت عوام کی رائے حاصل نہ کی جائے تو نہ اس ریاست میں گڈ گورنینس پائی جائے گی اور نہ ہی پارلیمنٹ کے ارکان میں۔ عورتوں سے سیکھنے کو تو یوں بھی ہمارے مشرقی مرد اپنی ہتک سمجھتے ہیں۔ سیکھنا تو دور کی بات ہم مضبوط اور ایمان دار عورتوں کو الزامات کی بھٹی میں جلا کر اس سے اگنی پر کھشا مانگتے ہیں۔ ہم نے اپنی ہی دخترِ مشرق کے ساتھ کیا نہیں کیا۔ اسے ناحق قتل کر دیا۔ بجائے اس کے کہ اسے ایک لڑنے والی مجسم عورت کی پہچان بنا کر فخر کیا جاتا، ہم نے اسے گنوا دیا۔ ہمارے سب وزیرِ اعظم خود کوجمہوری حکومت کا حامی تو کہتے ہیں مگر یہ صرف لبادہ ہے اندر سے یہ سب کے سب جرنیلی مزاج کے حامل ہیں۔ اصل جمہوریت سیکھنی ہے تو جیسنڈا آرڈن سے سیکھئے ،ایک عورت سے۔ جب اس نے اپنے چھوٹے سے ملک، جس کی کل آبادی لاہور سے بھی کم ہے، اس کے کنٹرول سے باہر ہوا تو اس نے اپنا عہدہ چھوڑے کا فیصلہ کر لیا۔ لیکن ہمارے یہاں بس نعرے بازیاں جاری رہتی ہیں۔