عمر کے شب و روز جوں گرتے تھے کہ بند مٹھی سے ریت کے ذرّے انگلیوں کی درزوں سے نکل نکل کر مٹھی خالی کرتے جاتے: جسم و جان کی دیواریں اینٹ اینٹ کر کے بھرتی چلی جاتی تھیں سمے کا برتن خالی ہوتا جا رہا تھا؍ سماعتوں کی دیواروں سے آوازوں کے پتھر آ آ کے ٹکراتے توقع مگر لب کچھ کہنے کے آزار سے آزاد بس خاموش تھے۔ بائوجی کی آواز کلثوم کی سماعتوں سے ٹکراتی تھی۔ کلثوم ! دیکھو بائوجی ہیں آنکھیں کھولو۔! کلثوم نے مگر نہ آنکھیں کھولیں۔ نہ آواز دی! اس نے روکا بھی نہیں اور میں ٹھہرا بھی نہیں۔ حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں! ہسپتال کے بستر کنارے بیمار شریک زندگی کو آوازیں دیتے بائوجی کے دل میں یہ روگ گھائو ڈال دے گا۔ کلثوم تو ہمیشہ کے لیے دنیا سے ناتا توڑ کر چلی گئی۔ زندگی کے سینتالیس برس ایک دوسرے کے وجود کا لباس بن کر گزارے مگر دم رخصت۔ ہزاروں میل اڈیالہ جیل میں قید کاٹتے بائوجی کلثوم کی زندگی کے آخری لمحات میں پاس نہ تھے۔ اور ہم جیسوں کے لیے سوچنے سمجھنے اور عبرت حاصل کرنے کا سامان!برادر آصف محمود نے آج اپنے کالم میں کیا اچھا کہا ہے کہ دکھ کا تعلق سیاست سے نہیں انسانیت سے ہے۔ خدا کے لیے اسی پیرائے میں حالات کو دیکھنے کی کوشش کریں یہی انسانیت کا تقاضا ہے۔ حالات واقعات کا سیاق و سباق پورے تاثر کو تبدیل کر دیتا ہے! محترمہ کلثوم نواز کی وفات جن حالات میں ہوئی اس نے ان کی رخصتی کے اس سارے منظر نامے کو بہت غمگین کر دیا ہے۔ فرض کریں کہ اگر بیگم کلثوم نواز کی وفات اس وقت ہوتی جب نواز شریف وزیر اعظم تھے۔ تو کیا پھر بھی اس واقعے کو محسوس کرنے کی شدت اسی طرح کی ہوتی۔ یا ایسے ہی جذباتی کالمز ان کی وفات پر لکھے جاتے۔!ہرگز نہیں! بلکہ حالات و واقعات کا سیاق سباق اس طرح سے ہے کہ ایک سابق خاتون اول جو کوئی عملی سیاستدان نہ تھیں‘ ان کی وفات میڈیا کی ایک بڑی خبر بن گئی۔جاتی عمران کے شاندار محلات پر ویرانی تھی۔ ایک گہرے سوگ کی کیفیت تھی جب بائوجی اور گڑیا یہاں پہنچے۔ خدام کی قطاریں حکم بجا لانے کو موجود تھیں سب کے چہروں پر گھر کی بڑی بہو کے اس طرح دیار غیر میں رخصت ہو جانے کا غم تحریر تھا۔ میت کے آنے میں ابھی دو روز باقی تھے۔ عزیز و اقارب دوست احباب جوق در جوق آ رہے تھے۔ جاتی امرا کے محل کے باہر ٹی وی چینلز نے اپنے ڈیرے لگا رکھے تھے۔ لوگ ہی لوگ تھے مگر بائوجی کو ایسا لگتا تھا جیسے دور تک یا دور کی ریت اڑ رہی ہے۔ کلثوم کے ساتھ گزارے زندگی کے بیش قیمت لمحے۔ خوشی اور خوشحالی سے گزارے ہوئے وقت کی پرچھائیاں جان لیوا یادوں کی طرح دل پر وار کرتی تھیں۔ بائوجی ایک ہارے ہوئے شکست خوردہ۔ ملال زدہ انسان کی طرح دکھائی دینے لگے۔ تعزیت کے لیے آنے والے ان سے ملنے کے متمنی تھے! کلثوم کے جانے کا نقصان تو انہی کا تھا۔ یا پھر اولاد کا جن کی ماں چلی گئی۔ مگر بائوجی کے لیے تو زندگی چلی گئی تھی۔ کہتے ہیں جب کوئی قریبی دوست یا عزیز مر جائے تو اس کے ساتھ کچھ کچھ ہم بھی مر جاتے ہیں۔ کیونکہ زندگی کا جو وقت ہم نے اس کے ساتھ بتایا ہوتا ہے وہ بھی تو ساتھ ہی دفن ہو جاتا ہے! یہ تو پھر شریک حیات کی جدائی ہے جس کے بارے میں اشفاق احمد کہا کرتے تھے کہ بابے سے پہلے اگر بابی مر جائے تو بابا زیادہ دیر زندہ نہیں رہتا۔ اس کو یہ تک نہیں پتہ ہوتا کہ اس کی عینک کہاں رکھی ہے۔ ہر بات کے لیے بیوی کو آواز دینے والا چیزیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک دن مر جاتا ہے۔ شریک زندگی کی ایسی ہی عادت بائوجی کو بھی ہو گی۔ سنا ہے کہ وہ سیاسی معاملوں میں بھی کلثوم سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ کبھی وہ ان کی تقریریں بھی لکھا کرتی تھیں۔ یہ دل بھلاتا نہیں ہے محبتیں اس کی، پڑی ہوئیں تھیں مجھے کئی عادتیں اس کی! یہ صدمہ بائوجی کے لیے بڑا ہے۔ زندگی گردش دوراں کی زد میں ہے مقدر کی بات ہے۔ جیل‘ مقدموں پر مقدمے‘ قید تنہائی‘ چند دن کے لیے پیرول پر رہائی۔ بیوی کی جدائی۔ خبر ہے کہ بائوجی نے خود کو کمرے میں قید کر لیا ہے۔ کلثوم کی تصویریں اکٹھی کر لی ہیں۔ تعزیت کے لیے آنے والوں سے وہ مل نہیں رہے۔ اس لیے کہ ان کی ملاقات کلثوم کی یادوں کے ساتھ ہے اور اس ملاقات میں بائوجی کوئی مداخلت نہیں چاہتے۔ یہ یادیں زندگی کے سینتالیس برسوں پر محیط ہیں۔ آغاز سفر کی یادیں۔ زندگی کے کھٹے میٹھے لمحوں کی یادیں زندگی کے سینتالیس برسوں پر محیط ان یادوں کے انبار سے وہ اب کیسے نکلیں گے!یہ یادیں بھی عجیب ہوتی ہیں تنہائی کے لمحوں کو ایسے شور سے بھر دیتی ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی اور کبھی بندہ ہجوم میں گھرا ہو تو اسے تنہا کر دیتی ہیں۔اب بائوجی اڈیالہ جیل کی قید تنہائی میں رہیں یا پھر جیل سے باہر آزاد دنیا کی فضائوں میں یادیں کسی قرض خواہ کی طرح ان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گی۔ کلثوم کے ساتھ گزارے ان سینتالیس برسوں پر محیط یادوں کے شور میں خاموشی کا مگر وہ ایک لمحہ ہمیشہ حاوی رہے گا جب وہ ہسپتال میں بیمار بیوی کے بستر کنارے کھڑے اسے بار بار پکارتے تھے۔ کلثوم ! بائوجی۔ کلثوم بائوجی! اور جواب میں ایک جان لیوا سناٹا تھا اور گہری طویل خاموشی تھی! ہارلے سٹریٹ لندن کے ہسپتال سے سفر کرتی ہوئی وہ طویل خاموشی جاتی امرا کے شاندار محل کے اس کمرے تک آ گئی ہے جہاں بائوجی کلثوم کی تصویروں اور یادوں کے ساتھ حزن و ملال کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ خاموشی نے اپنی زبان کھولی ہے اور پہلی بار کہا ہے! جی کا جانا ٹھہر گیا تھا۔ بائوجی!!