مسلمان سردار نجیب الدولہ نے احمد شاہ ابدالی کو تمام صورت حال سے آگاہ کرتے ہوئے ہندوستان پر حملہ کی دعوت دی اور مالی وعسکری مدد کا یقین دلایا۔ مرہٹہ مقبوضہ علاقہ جات احمد شاہ ابدالی کی ملکیت تھے ان کا حاکم احمد شاہ درانی کا بیٹا تیمور شاہ تھا جسے شکست دے کر مرہٹوں نے افغانستان بھگا دیا اب احمد شاہ درانی نے اپنے مقبوضات واپس لینے کے لیے چوتھی مرتبہ برصغیر پر حملہ کیا۔ 14 جنوری 1761ء کو پانی پت کے میدان میں گھمسان کا رن پڑا۔ یہ جنگ طلوع آفتاب سے شروع ہوئی جبکہ ظہر کے وقت تک ختم ہو گئی ۔ فریقین کے ڈیڑھ لاکھ سے زائد سپاہی مارے گئے۔ اس جنگ میں مرہٹوں نے عبرت ناک شکست کھائی اس کے بعد وہ دوبارہ کبھی جنگی میدان میں فتح حاصل نہ کرسکے ہو سکتا ہے۔ احمد شاہ ابدالی کے حملوں کی کوئی شخص تاویل مسلمانوں کی حمایت یا مخالفت کے سلسلے میں دینا چاہے‘ مجھے اس پر اعتراض نہیں نہ میں موضوع کو اس بحث میں الجھانا چاہتا ہوں۔ ابدالی کے لشکر میں اچکزئیوں کی کافی تعداد تھی۔ محمود اچکزئی اس زمانے کے مسلمانوں کو مینار پاکستان کے سبزہ زار میں بیٹھے لاہوری سمجھ کر شاید یہ کہہ رہے تھے کہ لاہوریوں نے اچکزئیوں کی فریب کاری سے جان کیوں چھڑائی ۔یاد رہے اس زمانے میں مسلمانوں نے ابدالی کو سکھوں سے جان بچانے کے لیے بلایا لیکن افغان سردار لاہور کی دولت پر مرمٹے اور جب جی چاہتا خزانہ بھرنے آ جاتے۔ ہندوئوں سکھوں کے ساتھ مسلمان امراء کو بھی لوٹ لیا جاتا ۔حوالہ درکار ہو تو فراہم کیا جا سکتا ہے ۔ رنجیت سنگھ کے دور میں پہلی بار ایسا ہوا کہ پنجابی فوج نے پشاور تک کا علاقہ قبضے میں لے لیا۔ صرف نسلی حوالہ سے دیکھیں تو رنجیت سنگھ نے ناصرف افغان اور پشتون حملہ آوروں کو روکا بلکہ انگریز کو اس کی زندگی میں جرات نہ ہوئی کہ پنجاب پر قبضہ کر لیتا ، پورے ہندوستان میں سب سے آخر میں انگریز پنجاب پر قابض ہوئے ، مذہبی حوالے سے میں رنجیت سنگھ کے بہت سے اقدامات کی حمایت نہیں کر رہا ۔ جہاں تک افغانستان پر قبضے کی بات ہے تو لاہور میں ایک افغان خاندان آباد ہے۔ یہ خاندان معزز اور اچھے لوگوں کا ہے مگر تاریخی لحاظ سے سچائی یہی ہے کہ انگریز نے کابل پر حملے کے لیے جب پنجاب کے غیر پنجابی امراء ،نوابوں اور سرداروں سے مدد طلب کی تو قزلباش خاندان نے 200 گھوڑ سوار فراہم کئے۔ اس پر انگریز نے خوش ہو کر اس خاندان کو رکھ کھمبہ کی جاگیر عطا کی۔ رائے ونڈ پر ٹھوکر نیاز بیگ کے پاس علاقہ نواب صاحب کے نام پر جو قصبہ ہے‘ وہ یہی رکھ کھمبہ ہے۔ لاہوریوں کی بجائے اگر اچکزئی صاحب اپنے بھائیوں کا نام لیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔لاہور پر تو ہمیشہ غیر پنجابی اشرافیہ مسلط رہی، ویسی ہی اشرافیہ جس کی موجودگی میں وہ سٹیج پر کھڑے ہو کر تاریخ کے نام پر پروپیگنڈہ کر رہے تھے اور وہ سب سر ہلا رہے تھے۔ برصغیر میں جب اسلام نہیں پہنچا تھا تو یونان اور وسط ایشیا سے حملہ آور پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے خوشحال علاقوں پر حملہ کرنے کے لیے درہ بولان اور اردگرد کے راستوں سے آتے۔ ہم میں سے بہت سوں کے غیر مسلم اجداد ان کے ظلم اور بربریت کا نشانہ بنے ہوں گے، قتل ہوئے یا غلام بنائے گئے،ان لوگوں کی آج ذہنی حالت یہ ہے تو اس زمانے میں کیا ان سے کسی کی عزت ،جان، مال محفوظ رہا ہو گا۔ ہندوستان میں اسلام کی روشنی پھیلی تو کسی حملہ آور کی تلوار سے نہیں‘ حضرت علی ہجویریؒ‘ معین الدین چشتیؒ‘ بابا فرید ؒاور عبداللہ شاہ غازی ؒنے مقامی آبادی کو اپنی محبت سے فیضیاب کیا۔ مسئلہ اس وقت ہوا جب ہندو اور سکھ حکمرانوں سے لڑنے والے مسلم حملہ آوروں کی حیثیت کے تعین کی بحث اٹھائی گئی ۔جو زمین زادے ہیں ان کی اکثریت مسلم حملہ آوروں کو فاتحین تسلیم نہیں کرتی جو وسط ایشیا‘ ایران‘ عرب اور افغانستان سے آ کر ہندوستان میں آباد ہوئے یا حملہ آوروں کے ساتھ آ کر یہاں آباد ہونے والوں کی اولاد ہیں وہ اپنے نسلی ،خونی رشتے اور بزرگوں کے عمل کے دفاع کے طور پر انہیں مجاہد قرار دیتے ہیں۔ یہ الگ بحث ہے جس پر اوریا مقبول جان صاحب یا وجاہت مسعود بہتر طور پر بات کر سکتے ہیں۔ پاکستان کا بننا کسی ایک نسل‘ علاقے یا قوم کا مطالبہ نہیں‘ ہندوستان میں آباد حملہ آوروں کی مسلمان اولاد اور مقامی نسلوں کے مسلمانوں نے طے کیا کہ وہ سب کلمہ توحید کی بنیاد پر ایک ہیں اور اپنی انفرادی شناخت کو پاکستان کی شناخت کے سامنے ثانوی حیثیت دینے پر آمادہ ہیں۔ تحریک پاکستان کا بنیادی نقطہ یہی ہے۔ اس لحاظ سے سیاسی طور پر خود کو پختون قوم پرست کہلوانے والوں کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے۔ محمود خان اچکزئی جیسے سیاستدان تو ہو سکتے ہیں انہیں محقق ہرگز تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ جس قدرزندگی گزری ہے اس میں بارہا یہ تجزبہ ہوا کہ جو شخص ضرورت سے زیادہ سرگرم ہو‘ زیادہ نمایاں ہونے کی کوشش کرے اور بلندوبانگ دعوے کرے وہ مصنوعی اور جعلی شخصیت کا مالک ہوتا ہے۔ باخبر‘ باعلم اور باعمل شخصیات پرسکون سمندر ہوتی ہیں۔ یہ قاعدہ آپ بھلے کسی صحافی ،وکیل ،ٹریڈ یونین لیڈر‘ سیاسی رہنما‘ مذہبی خطیب وغیرہ پر بھی نافذ کر کے نتیجہ نکال سکتے ہیں۔ پنجاب صدیوں تک افغانستان اور اس کی سرزمین کو استعمال کرکے آنے والے حملہ آوروں کے ہاتھوں لٹتا رہا۔ پنجاب کے پرامن اور آسودہ لوگ غلام بنا کر افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں میں فروخت کئے جاتے رہے۔ وہ افغان نژاد پشتون جو پنجابیوں کے خلاف زبان درازی کرتا ہے اسے پنجاب کے لوگوں سے معافی مانگنی چاہیے۔ یہی نہیںاسے انگریز کا ساتھ دینے، اپنے ہی کاکڑ بھائیوں کو انگریز کی خوشنودی کے لئے قتل کرنے اور پھر تحریک پاکستان کی مخالفت کرنے پر اپنے، اپنے باپ، دادا کی جانب سے معافی مانگنی چاہیے۔ (جاری ہے)