کابل پر طالبان کے قبضے کے واقعے کی نوعیت پر میرے ذہن جو پہلا خیال آیا وہ یہ تھا کہ طالبان 'نجیب' ہوگئے ہیں ۔ افغانستان پر بغیر خون کا ایک قطرہ بہائے تسلط نے انکی' نجابت' پر مہر لگادی ہے۔ جو راندہ درگا ہ تھے وہ معزز و مکرم ٹھہرے ہیں۔ ا س ممکنات کی دنیا میں بہت کچھ عجیب وغریب تو ہوتا ہے لیکن 'نجیب 'نہیں ہوتا۔کون سوچ سکتا تھا کہ جنہیں ایوان اقتدار سے دربدر ہوئے زمانے بیت گئے وہ بغیر گولی چلائے واپس ایوان میں اقتدار میں پوری آب وتاب کے ساتھ واپس آجائیں گے۔ وہی امریکہ جس نے ا نہیں کابل سے نکالا تھا ، انہیں کابل کی کنجی بھی دے گا۔ امریکہ کا پچھلے سال فروری میں ہونے والا امن معاہدہ امارات اسلامی کے ساتھ تھا۔ یوں امریکہ پہلا ملک تھا جس نے طالبان کو بین الاقوامی طور پر تسلیم کیا۔ اس کے بعد روس ، چین اور ایران نے ان سے مذاکرات کیے۔کابل میں طالبان کی آمد پر پاکستان میں جشن منایا گیا۔ اخباروں کے ادارتی صفحے استقبالی کالموں سے بھرے ہیں اور سینئیر تجزیہ نگا ر انکی بلائیں لیتے نہیں تھکتے۔ روایتی مذہبی طبقے میںکیف و سرور اور سرمستی کا سا عالم ہے کہ کیسے ننگے پائوں اور بے سروسامان لوگ اپنے خلوص ووفا کے بل بوتے پر تخت و تاج کے وارث بن گئے ہیں ! لیکن نجیبیت یہاں پر ختم نہیں ہوتی۔ جنگ اور تعمیری عمل میں شامل بہت سی امریکی تنظیموں اور اداروں کی آبرو بھی رہ گئی ہے۔ بے سروسامان طالبان نے کیسے ساڑھے تین لاکھ افغان فوج کے اوسان خطا کردیے؟ کیسے ہفتے کے اندر اندر پورا ملک ان کے ہاتھ سے چھین لیا۔کابل میں داخل ہوئے تو صدارتی محل انکے لیے خالی تھا! افغانستان میں لگائے گئے کھربوں ڈالرکیوں اور کہاں خرچ ہوئے ؟ اگرچہ یہ سوال انتہائی سنجیدہ نوعیت کا ہے۔ دنیا دیکھے گی کہ امریکی سینیٹ کی کمیٹی برائے بین الاقوامی امور تند وتیز سوالات سے اداروں اور حکومت کا مواخذہ کرے گی ، معاملہ تحقیقات کی طرف جائے گا اورریکارڈ کی عدم دستیابی مواخذے کے عمل کو پہلے رینگنے اور پھر دم توڑنے پر مجبور کردے گی۔ نہ ڈھولا ہوسی تے رولا ہوسی! امریکہ اور امارات اسلامی کے درمیان جب معاہدہ ہوا تھا تو دنیا کورونا جیسی افتاد سے نبر د آزما تھی۔ امریکی اتحادیوں نے اس وقت رولا نہیں ڈالا تھا ۔ اس معاہدہ کی ایک شق کے مطابق غیرملکی افواج کی واپسی طالبان کے افغان حکومت کے ساتھ امن معاہدے سے مشروط تھی لیکن اس سلسلے میں مذاکرات ہی نہ ہوسکے۔ یوں غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کی اکتیس مئی والی ڈیڈ لائن کا حامل امریکہ۔ طالبان معاہدہ اپنی موت مر چکا لیکن اچانک امریکی صدر بائیڈن نے پینترا بدلا اور معاہدے پر عملدرآمد کے متعلق طالبان سے تحفظات کے باوجود معاہدے پر یکطرفہ عملدرآمد کا اعلان کردیا اور اس کے ساتھ اپنی دی گئی اکتیس اگست کی نئی ڈیڈ لائن کی روشنی میں فوجی انخلا کا تیز تر عمل بھی شروع ہوگیا۔ مغربی اتحادیوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ بچا کے وہ اس ڈیڈ لائن پر عملدرآمد کریں۔ صرف ترکی وہ ملک تھا جس نے بعد از فوجی انخلا کابل ائیر پورٹ کے تحفظ کی حامی بھری اور وہ بھی اس شرط پر کہ امریکہ اس کے اخراجات اٹھائے گا۔ طالبان کا اس پر رد عمل شدید تھا اور انہوں نے واضح الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ ڈیڈ لائن پر مکمل عمل درآمد ہونا چاہیے اور کسی کو بھی اس حوالے سے کوئی استشنیٰ حاصل نہیں ہے۔جمہوری ممالک کے اقتصادی فورم جی سیون میں جب امریکہ پر دباو بڑھا کہ وہ کابل ائر پورٹ پر ہونے والی افراتفری کے تناظر میں فوجیوں کے قیام میں توسیع کے لیے طالبان کیساتھ مذاکرات کرے تو اس کی بھی طالبان نے شدید مخالفت کی اور دھمکی دی کہ اگر ایسا ہوا تو ایک تو وہ غیر ملکی فوجیوں کے تحفظ کی ضمانت نہیں دیں گے دوسرے عبوری حکومت کا اعلان بھی نہیں کریں گے۔ ڈیڈ لائن سے چند روز پہلے کابل ائیر پورٹ پر دھماکے ہوئے تو امکان پیدا ہوا کہ شاید امریکہ اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے لیکن دنیا نے دیکھا کہ صدر بائیڈن نے واقعے کی مذمت کی ، طالبان کو بے قصور قرار دیا اور واقعے میں ملوث داعش کو قرار واقعی سزا دینے کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی کہہ ڈالا کہ وہ امریکی فوجیوں کے انخلا کے ڈیڈ لائن سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ طالبان کی نجابت کو ابھی بھی چیلنج درپیش ہیں۔ لوگ جنگ کی وجہ سے در بدر ہیں اور سردیاں سر پر ہیں۔ امریکہ کے پاس افغانستان کے دس ارب ڈالر اثاثے گروی ہیں جو اس نے ابھی تک واپس نہیں کیے۔ بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے فنڈ روکے ہوئے ہیں۔ افغانستان معاشی طور پر مفلوج ہے۔ لے دے کے تین کھرب ڈالر کی معدنیات ملک میں موجود ہیں لیکن انہیں نکالنے کے لیے سرمایہ بھی چاہیے اور ٹیکنالوجی بھی۔ امن ہوگا تو بحالی و ترقی کا عمل آگے بڑھے گا اور امن کا دارومدار طالبان کی دیگر سیاسی گروہوں کے ساتھ مفاہمت پر بھی منحصر ہے اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والے نظام پر عالمی برادری کے اتفاق پر بھی۔ بنیادی سوال جس پر عالمی برادری متفق ہے وہ یہ ہے کہ کیا نیا سیاسی نظام عالمی معیار کے مطابق بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی یقینی بنائے گا۔ بچوں ، عورتوں اور اقلیتوں کے ساتھ وہی کچھ تو نہیں ہوگا جو طالبان کے پچھلے اقتدار کے دوران ہوا تھا اور اس سے امریکہ اور اس کے حواریوں کو افغانستان پر چڑھ دوڑنے کا موقع ملاتھا؟ فی الحال یہی لگتا ہے کہ طالبان شرعی نظام کی بات کریں گے لیکن توقع ہے کہ وہ شریعت کی تشریح رجعت پسندانہ طریقے سے نہیں کریں گے اور اس بات کا ثبوت دیں گے کہ اسلام کی ترقی پسندانہ اور روشن خیال روایت بنیادی حقوق سے کئی گنا زیادہ دیتی ہے۔ یعنی ایسا نظام جو انسانی عظمت و وقار کو نئی بلندیوں تک لے جانے کی ضمانت دے۔ مساوات ، رواداری اور عدل کے ستونوں پر استوار نظام بھوک ، غربت اور انتشار کی ماری انسانیت کے لیے ایک نئی مثال قائم کرسکتا ہے۔کیا طالبان افغانستان میں ایسا نظام دے سکتے ہیں؟ ہاں ، اگر وہ واقعی تبدیل ہوگئے ہیں اور وہ مکتب ِ عشق میں انکا گزر ہوگیا ہے تو ایسا ممکن ہے اور یہی انکے ' نجیب ' ہونے کا تقاضا بھی ہے!