معزز قارئین!۔ 3 اپریل کو ’’ مفسرِ نظریۂ پاکستان‘‘ جنابِ مجید نظامی کی 91 ویں سالگرہ تھی ، لیکن پاکستان کے مختلف شہروں میں پاکستان سے باہر بھی جنابِ مجید نظامی کی یادوں کے چراغ ابھی تک جل رہے ہیں ۔ دو روز قبل لندن میں ’’فاتح سلہٹ‘‘ تحریک پاکستان کے نامور مجاہد اور ’’ تحریکِ تکمیلِِ پاکستان‘‘ کے بانی صدر، جناب محمود علی کے چچا زاد جناب مشرف مشتاق علی اور اُن کی اہلیہ محترمہ سلینہ علی نے اور گلاسگو میں ’’نظریۂ پاکستان فورم برطانیہ‘‘ کے صدر ’’ بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی نے جنابِ مجید نظامی کی سالگرہ کی تقریبات منعقد کر کے اُن کی یادوں کے چراغ جلائے۔ دو روز قبل ’’اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری‘‘ اور ’’ نظریۂ پاکستان فورم‘‘ کے اشتراک سے جنابِ مجید نظامی کی یادوں کے چراغ جلائے گئے ۔ برادرِ عزیز ظفر بختاری کی دعوت کے باوجود مَیں ’’ محفلِ چراغاں‘‘ میں شریک نہیں ہوسکا لیکن، مجھے ٹیلی فون پر ظفر بختاوری اور برادرِ عزیز سیّد شاہد رشید ، محفل کا حال اور سیّد انور محمود ، سینیٹر عبدالقیوم، چیمبر کے صدر ، احمد حسن مُغل ، برادرانِ صحافت جاوید صدیق نواز رضا کے اور دوسرے مقررین ، اقوال سننے کا موقع مِلا۔ برادرِ عزیز ظفر بختاوری کے والد ’’ تحریک پاکستان‘‘ کے کارکن ماشاء اللہ 95 سالہ جناب غلام نبی بختاوری ، امرتسر میں کاروبار کرتے تھے ۔ قیام پاکستان کے بعد سرگودھا میں آباد ہُوئے ۔ وہاں میری چاچا غلام نبی بختاوری سے دوستی ہوگئی ۔ مَیں سرگودھا میں ’’ نوائے وقت ‘‘ کا نامہ نگار تھا ۔ مَیں نے 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں چاچا غلام نبی بختاوری کو صدر محمد ایوب خان کے مقابلے میں مادرِ ملّت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی انتخابی مہم میں سرگرم دیکھا۔ 1986ء میں مَیں نے اپنا ایک گھر اسلام آباد شفٹ کِیا تو، میرا چاچا غلام نبی بختاوری اور برادرِ عزیز ظفر بختاوری سے رابطہ بحال ہوگیا ۔ بیرونی ملکوں میں پاکستان کی ثقافت / تہذیب و تمدن کے فروغ کے لئے برادرم ظفر بختاوری کی چیئرمین شِپ میں ’’ پاکستان کلچرل فورم‘‘ 1982ء سے سرگرم تھا ۔ (جنوری 2019ء تک ) 50 سے زیادہ بیرونی ملک ظفر بختاوری کو "State Guest" کی حیثیت سے مدعو کر چکے ہیں ۔ ’’ پاکستان کلچرل فورم ‘‘ کی تقریبات میں مَیں نے جنابِ مجید نظامی کو بھی صدر / مہمان خصوصی کی حیثیت سے دیکھا اور جنابِ مجید نظامی کو چاچا غلام نبی بختاوری کی خیریت دریافت کرنے کے لئے اُن کے گھر بھی۔ 1988ء کے اواخر میں جب میرے دورۂ سوویت یونین کے میری کتاب ’’ دوستی کا سفر‘‘ شائع ہُوئی۔ ’’ پاکستان کلچرل فورم‘‘ کے زیر اہتمام اسلام آباد کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں اُس کی تقریب رونمائی ہُوئی۔ ظفر بختاوری نے میری کتاب کا "Brochure" اردو، انگریزی اور روسی زبان میں شائع کِیا۔مہمانِ خصوصی ، پاکستان میں ’’ سوویت یونین‘‘ کے سفیر "Excellency Abdulrahman Khalil Oglu, Vazirov" نے مجھے ’’ دوستی کا قلم‘‘ (Pen of the Friendship) پیش کِیا۔ سیّد انور محمود معزز قارئین!۔ سابق سیکرٹری اطلاعات و نشریات و صحت سیّد انور محمود سے میرا تعارف 1973ء میں ہُوا لیکن ،دوستی 1992ء میں، جب موصوف وزیراعظم نواز شریف کے پریس سیکرٹری تھے ۔ میرا مشاہدہ ہے کہ بعد ازاں وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات کی حیثیت سے سیّد صاحب حکمرانوں کو مالکان اخبارات، و مدیران اور الیکٹرانک میڈیا سے نیکی کرنے کا مشورہ دینے میں کامیاب رہے۔ جناب مجید نظامی ، سیّد انور محمود سے بہت محبت کرتے تھے ۔ وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات و صحت کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کے بعد سیّد انور محمود نے یکم رمضان کو اسلام آباد اور اسلام آباد سے باہر کی ’’ مصروف ترین شخصیات‘‘ (خواتین و حضرات) کے لئے افطار و گفتار کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے ۔ سیّد انور محمود اِس ’’ شاہ خرچی‘‘ کے اِس لئے متحمل ہیں کہ ریٹائرمنٹ کے بعد اُنہوں نے ’’ ملٹی نیشنل کمپنیوں‘‘ کے مسائل حل کرنے کے لئے "Consultancy and Advocacy"کا ادارہ قائم کر رکھا ہے ، جِس میں کئی ریٹائرڈ سِول اینڈ ملٹری بیورو کریٹس خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ مَیں نے اکثر تقاریب میں سیّد انور محمود ، جنابِ مجید نظامی کو "Living Legend" قرار دیتے ہُوئے دیکھا ۔معزز قارئین!۔ سیّد انور محمود ددھیال کی طرف سے گیلانی، اور ننھیال کی طرف سے بلخی سیّد ہیں ۔ اِنہوں نے اپنے دَور کے نامور ولی (اپنے نانا ) سیّد شاہ نجم اُلدّین بلخی ؒسے بیعت کی تھی۔ سیّد صاحب کے والد صاحب سیّد محمود شاہ گیلانی ؒاور اُن کے بزرگوں کا قیام پاکستان میں اہم کردار تھا لیکن ، قیام پاکستان کے بعد سیّد محمود شاہ گیلانی ؒ، نے گدّی نشینی قبول کرنے کے بجائے ریلوے میں ملازمت کرلی تھی۔سیّد انورمحمود اکثر کہا کرتے ہیں کہ ’’ مَیں نے پاکستان کی طرف دوبار ہجرت کی ۔ پہلی بار 1947ء میں ’’ بہار شریف‘‘ سے ڈھاکہ ، جب مَیں بہت چھوٹا تھا اپنے والدین کے ساتھ اور دوسری بار بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے ڈھاکہ سے کراچی ۔ سیّد انور محمود کے سماجی تعلقات کو مضبوط بنانے میں اردو اور پنجابی کی شاعرہ اور ادیبہ بیگم نیئر محمود کا اہم کردار ہے ۔ موصوفہ اپنے گھر میں خواتین کی محافلِ میلاد کا بھی اہتمام کرتی رہتی ہیں ۔ اُن دِنوں سیّد انور محمود ڈائرجنرل ریڈیو پاکستان تھے جب، 15 جنوری 1999ء کو ’’نیویارک باسی ‘‘ میرے بڑے بیٹے ذوالفقار علی چوہان کی شادی میں سیّد انور محمود اور بھابھی نیئر محمود صاحبہ باراتی کی حیثیت سے اسلام آباد سے واہ کینٹ بھی گئے تھے ۔ بارات کی روانگی سے پہلے بھابھی نیئر محمود نے پوچھا ۔ ’’ بھائی اثر چوہان!۔ کیا آپ کے یہاں دُلہا کو امام ضاؔمن باندھنے کا رواج ہے؟‘‘۔ مَیں نے کہا کہ ’’ نہیں!‘‘ تو ، بولیں کہ ’’ مَیں تو امام ضاؔمن اپنے ساتھ لائی ہُوں‘‘۔ مَیں نے کہا کہ ’’ تو باندھ دیں ‘‘۔ اور اُنہوں نے باندھ دِیا ۔ میرے بیٹوں کی شادیاں ہُوئی لیکن ، مَیں نے کسی بھی بیٹے کاسہرا نہیں لکھا ۔ 6 اگست 2009ء کو سیّد انورمحمود اور بیگم انور محمود کے بیٹے سیّد بلال محمود کی شادی سے چار دِن پہلے مَیں نے پنجابی میں اُس کا سہرا لکھا اور اُن کے گھر لے گیا۔ بھابھی نیئر محمود کی فرمائش پر مَیں نے وہ سہرا پڑھا تو ،دُلہا کے والدین آبدیدہ ہوگئے ۔ بھابھی صاحبہ نے میرے سر پر 5 ہزار روپے وار کر میرا صدقہ دِیا۔معزز قارئین!۔ 7 اگست 2013ء کو ’’ایوانِ کارکنانِ تحریک پاکستان‘‘ لاہور میں ’’ نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ کی تقریب کے اختتام کے بعد ، ’’چیئرمین نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ جناب مجید نظامی اپنے کمرے کے بجائے ’’سیکرٹری نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘ سیّد شاہد رشید کے کمرے میں رونق افروز تھے مَیں اور ظفر بختاوری بھی کہ ، لندن سے میرے قانون دان بیٹے انتصار علی چوہان کا ٹیلی فون آگیا ، مَیں نے مختصر بات کی ۔ پھر مَیں نے نظامی صاحب کو بتایا کہ ’’ میرے والد صاحب چاہتے تھے کہ ’’ مَیں وکیل بنوں لیکن، مَیں اُن کی مرضی کے خلاف مستقل طور پر صحافی بنا رہا لیکن ، پھر اُنہوں نے مجھے معاف کردِیا‘‘۔ اِس پر جناب مجید نظامی کے چہرے پر ایک لطیف مسکراہٹ پھیل گئی اور اُنہوں نے کہا کہ ’’ مَیں دو سال تک ’’ ہیلے کالج آف کامرس‘‘ میں پڑھتا رہا ، پھر مَیں نے برادرِ بزرگ جناب حمید نظامی کو بتائے بغیر ، گورنمنٹ کالج لاہور میں ایم ۔ اے پولیٹکل سائنس میں داخلہ لے لِیا ۔ جب بھائی صاحب نے مجھ سے وجہ پوچھی تو مَیں نے کہا کہ ’’ مَیں ساری عُمر ’’ دو جمع دو ‘‘ نہیں کرنا چاہتا۔ آپ کی طرح صحافی بننا چاہتا ہُوں ‘‘۔ معزز قارئین!۔ پھر مَیں نے ’’ نوائے وقت ‘‘ میں 9اگست 2013ء کے کالم میں لکھا کہ ’’ بعض اوقات بزرگوں کی مرضی کے خلاف نوجوانوں کے فیصلے ، کِس طرح اللہ تعالیٰ کی مرضی بن جاتے ہیں ؟‘‘۔ آج آپ بھی میرے ساتھ مل کر سوچئے کہ ’’ اگر جناب مجید نظامی کا فیصلہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ نہ بن جاتا تو جنابِ مجید نظامی کی یادیوں کے چراغ جلانے کا سِلسلہ کیسے جاری رہتا؟‘‘۔ ستمبر 1991ء میں ’’ نوائے وقت‘‘ کے کالم نویس اور صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت مجھے خانہ کعبہ کے اندر جانے کی سعادت حاصل ہُوئی تو، میرے والد صاحب اور والدہ نے بھی مجھے اور میری آل اولاد کو اپنی دُعائوں سے مالا مال کردِیا تھا ۔ کتنا خوش قسمت ہُوںمَیں؟۔