معزز قارئین!۔ آج 18 ذوالحجہ ہے ۔ پاکستان سمیت دُنیا بھر کے مسلمان حضرت علی مرتضیٰ ؑ کا ’’ یومِ اعلان ولایت‘‘ منا رہے ہیں۔ 18 ذوالحجہ 10 ھجری کو ’’ غدیر خُم‘‘ کے مقام پر ’’ مدینۃ اُلعلم ‘‘ پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ’’ باب اُلعلم‘‘ حضرت علی مرتضیٰ ؑ کا ہاتھ پکڑ کر اپنے خطبے میں فرمایا تھا کہ ’’ جس کا مَیں مولا ہُوں ، اُس کا علی ؑ بھی مولا ہے ‘‘۔ آپؐ نے پھر فرمایا’’ یا اللہ ! آپ اُس شخص کو دوست رکھیں جو علی ؑ کو دوست رکھے اور جو علی ؑسے عداوت رکھے، آپ اُس سے بھی عداوت رکھیں!‘‘۔ عربی زبان میں مولاؔ کے معنی ہیں۔ ’’ آقا ، سردار ، رفیق‘‘ ۔ مولا علی ؑ کے پیروکار کو ’’ مولائی‘‘ کہا جاتا ہے ۔ مصّور پاکستان علاّمہ اقبالؒ خود کو مولائی کہتے تھے ۔ آپؒ نے کہا کہ … بُغضِ اصحاب ِ ثلاثہ نہیں ، اقبالؒ کو! دِق مگر، اِک خارجی کے ، آ کے مولائی ہُوا! …O… علاّمہ اقبالؒ نے اِس حقیقت کا بھی اعتراف کِیا کہ … خِیرہ نہ کر سکا مجھے ، جلوۂ دانش فرنگ! سُرمہ ہے ، میری آنکھ کا ، خاکِ مدینہ و نجف! …O… یعنی۔ ’’ یورپ کے علُومِ حکمت کا جلوہ میری نگاہوں میں چکا چوند پیدا نہیں کر سکا، اِس لئے کہ میری آنکھوں میں مدینہ منّورہ اور نجف اشرف کی خاک کا سُرمہ لگا ہُوا ہے ‘‘۔ نجف ، عراق کا ایک شہر ہے ، جہاں حضرت علی مرتضیٰ کا روزہ اقدس ہے ۔معزز قارئین!۔ قیام پاکستان سے قبل ایک صحافی نے قائداعظم محمد علی جناحؒ سے پوچھا کہ آپ سُنّی ہیں یا شیعہ ؟‘‘۔ تو آپؒ نے فرمایا کہ ’’ مَیں تو ایک عام مسلمان ہُوں لیکن، ’’ باب اُلعلم ‘‘ حضرت علی مرتضیٰ ؒ کا یوم ولادت اور یوم شہادت ہم سب مسلمان مل کر مناتے ہیں ‘‘۔ معزز قارئین!۔ میرے آبائو اجداد کا تعلق بھارت کے صوبہ راجستھان کے شہر اجمیر ؔ سے تھا۔ جنہوں نے نائب رسولؐ، سُلطان اُلہند ، خواجہ غریب نواز حضرت مُعین اُلدّین چشتیؒ کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا۔ مجھے میرے والدین نے لڑکپن سے ہی سے حضور پُر نُورؐ ، اہلِ بَیت ؑ اور اپنے جدّی پشتی پیر و مُرشد ، خواجہ غریب نوازؒ سے عقیدت کا سبق پڑھانا شروع کردِیا تھا ۔ مولا علی ؑ کے فرزند خواجہ غریب نوازؒ حسینیت ؑکے علمبردار تھے ۔ 25 فروری 1969ء کو اللہ تعالیٰ نے مجھے فرزند ِ اوّل عطا کِیا تو ، مَیں نے اپنے والد صاحب تحریک پاکستان کے ( گولڈ میڈلسٹ) کارکن رانا فضل محمد چوہان کی فرمائش پر اُس کا نام ذوالفقار علی چوہان رکھا۔ ماشاء اللہ !۔ اُس کے بعد میرے پانچوں بیٹوں کے نام مولا علی ؑ کے نام پر ہیں اور پانچوں پوتوں کے بھی ۔ 1981ء میں میرے خواب میں خواجہ غریب نوازؒ لاہور میں میرے گھر تشریف لائے ۔ آپؒ نے میری طرف مُسکرا کر دیکھا۔ مَیں لیٹا ہُوا تھا اور جب مَیں نے اُٹھ کراُن کی خدمت میں سلام عرض کِیا تو، میری آنکھ کُھل گئی۔ مَیں نے اپنی اہلیہ (مرحومہ ) نجمہ اثر چوہان کو جگایا ، اُن سے پانی مانگا ۔ اُنہوں نے پانی پلایا اور پوچھا کہ ’’ کیا آپ نے بیڈ روم میں کسی خوشبو کا "Spray" کِیا ہے ؟‘‘ ۔ مَیں نے اُنہیں حضرت خواجہ غریب نوازؒ کی تشریف آوری کا بتایا تو، وہ خوشی سے نہال ہوگئیں۔ اُس کے بعد مجھ پر پاکستان کے مختلف صدور اور وزرائے اعظم کے ساتھ مختلف ملکوں کے دوروں کے دروازے کُھل گئے۔ اگرچہ مجھے خواجہ صاحبؒ کے دربار میں جون 2004ء میں حاضر ہونے کا موقع ملا لیکن، میرا جی چاہتا ہے کہ ’’ اجمیر شریف سے وطن واپسی کے بعد مَیں نے اہلِ وطن کو جو، دعوت دِی تھی اُس کا اِس مرحلے پر تذکرہ کر دوں۔ تین شعر یوں ہیں … نِکّے، لِسّے ربّ توں رحمت، منگن، سنجھ سویرے جی! قومی دولت، کھا جاندے نیں، ڈھاڈے لَم ، لمیرے جی! قاضی ، مُلّاں، رجّ کے کھاندے، زردہ پلاء حلویرے جی! حال مُریداں دا بھَیڑا اے، جِیویں بھُکھّے بٹیرے جی! اثرؔ چوہان، دُعا واں منگِئیے، ربّ ساڈے دِن ، پھیرے جی! آئو سارے رَل کے چلِّیئے، خواجہ جیؒ دے ، ڈیرے جی! …O… 1983ء میں مَیں نے پھر اپنے خواب میں دیکھا کہ مَیں کسی دلدل میں پھنس گیا ہُوں ۔ میرا جسم دلدل میں دھنس رہا تھا کہ ، اچانک میرے مُنہ سے یا علی ؑ کا نعرہ بلند ہُوا۔ مجھے محسوس ہُوا کہ کسی "Crane" نے مجھے دلدل سے نکال کر دوسرے کنارے پر اُتار دِیا ۔ پھر مجھے کسی غیبی آواز نے کہا کہ ’’ تُم پر مولا علی ؑ کا سایۂ شفقت ہے !‘‘ ۔ مولا علی ؑ کے سایۂ شفقت سے ستمبر 1991ء میں مجھے صدر غلام اسحاق خان کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے اُن کے ساتھ خانۂ کعبہ میں داخل ہونے کی سعادت حاصل ہُوئی۔ معزز قارئین!۔ مَیں نے راجپوتوں کی تاریخ پڑھنے کے شوق میں 1980ء سے ہندی زبان سِیکھنا شروع کی ( ابھی تک سیکھ رہا ہُوں) بھارت کے صوبہ ہریانہ کے قدیم شہر ’’ کورو کشیتر‘‘ میں ہزاروں سال پہلے ایک ہی داد کی اولاد کوروئوں اور پانڈووئوں میں جنگِ عظیم ہُوئی جِس کا نام ہے ’’ مہا بھارت‘‘ دورانِ جنگ ’’ وِشنو دیوتا‘‘ کے اوتار شری کرشن جیؔ نے پانڈو ہیرو ارجنؔ کو جو اپدیشؔ ( خُطبہ ) دِیا وہ ، مُقدّس کتاب ’’گیتا ‘‘ کہلاتی ہے۔ ارجنؔ ۔ شری کرشن جی ؔکا ۔ پھوپھی زاد ، اُن کی بہن سُبھادرا ؔ کا خاوند، اور شاگرد تھا ۔ شری کرشن جیؔ نے اپنے اُپدیش ؔمیں ارجن کے لئے ’’ ستِھتّ پرتگیہ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ بہت زیادہ عالم و فاضل اور بہت زیادہ بہادر اور جنگ جُو شخص کو ’’ ستِھتّ پرتگیہ‘ ‘ کہا جاتا ہے۔ سرکارِ دو عالمؐ کے چچا زاد ، داماد اور شاگرد ’’ باب اُلعلم‘‘ اور ’’ اسد اللہ ‘‘ ( اللہ تعالیٰ کے شیر ) کہلانے والے حضرت علی مرتضیٰ ؑ جیسا ’’ ستِھتّ پرتگیہ‘ ‘ تاریخِ اسلام میں اور کون ہے؟۔ حضرت علی ؑ تمام غزوات میں آنحضرتؐ کے ہم رکاب رہے ۔ آپ ؑ کے خُطبات کا انتخاب ’’ نہج اُلبلاغہ‘‘ کا ترجمہ دُنیا کی کئی زبانوں میں ہو چکا ہے ۔مولا علی ؑ سے کسی نے پوچھا کہ ’’ آپ ؑبے خطر جنگ میں کود پڑتے ہیں ۔ کیا آپ ؑکو ڈر نہیں لگتا؟۔ تو آپؑ نے کہا کہ ’’ موت علی ؑ پر گِر پڑے یا علی ؑ موت پر ، ایک ہی بات ہے لیکن ، فرزند ابو طالبؓ موت سے ہر گز بھاگنے والا نہیں ‘‘۔ معزز قارئین!۔ مَیں نے مختلف اوقات میں جو نعت ہائے رسول مقبولؐ لکھیں اُن میں بھی مولا علی ؑاور اہل بَیت ؑ کے لئے بھی اظہار عقیدت ہے ۔ ایک نعت کے دو شعر ہیں … یوں ضَو فِشاں ہے ، ہر طرف ، کردار آپؐ کا! ارض و سماء ، ہے حلقۂ انوار ، آپؐ کا! مولا علیؑ و زَہراس، حسنؑ اور حُسینؑ سے! عرشِ برِیںسے کم نہیں ، گھر بار آپؐ کا! …O… پنجابی نعت کے دو بند ہیں … سَرچشمہ ، حُسن و جمال ، دا! کِسے ڈِٹھّا نہ ، اوسؐ دے نال دا! ربّ گھلّیا ، نبیؐ ، کمال دا! مَیں غُلام ، اوسؐ دی ، آل ؑ دا! …O… بُوہا ؔعِلم دا ، تے مہاؔبلی! اوہداؐ جانِشین ، علی ؑ وَلی! جیہڑا ، ڈِگدیاں نُوں، سنبھال دا! مَیں غُلام ، اوسؐ دی ، آل ؑ دا! …O… مولا علی ؑ کی اردو اور پنجابی منقبت الگ الگ رنگ ہے … تُم کو ملی ہے، بزمِ طریقت میں صندلی! تمہارا خَوشہ چِین ہے ، ہر پِیر ، ہر ولی ! علی ؑ علی ؑ …O… مولائے کائنات ہو ، مُشکل کُشا بھی ہو! دیکھا نہ آسمان نے تُم سا مہا ؔبلی! علی ؑ علی ؑ نبی ؐ آکھیا سی ، وَلیاں دا وَلی ؑ مولا! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا! واہ! نہج اُلبلاغہ ، دِیاں لوآں! سارے باغاں وِچّ ، اوس دِیاں خوشبواں! پُھلّ پُھلّ مولاؑ ، کلی کلی مولا ؑ! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا! لوکھی آکھدے نیں ، شیر تَینوں یزداں دا! سارے نعریاں توں وڈّا ، نعرہ تیرے ناں دا! تیرے جیہا نئیں کوئی ، مہابلی مولاؑ! جیِہدا نبیؐ مولا ، اوہدا علی ؑ مولا!