اقوام متحدہ کی نمائندہ تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوںبارے شائع کردہ رپورٹ کے مطابق بھارتی فوج کی جانب سے مقبوضہ کشمیر وادی کوسب جیل میں تبدیل کرکے مظلوم کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں جبکہ تعلیمی اداروں کو گرانے اور بند کرنے کے علاوہ گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ بھارتی افواج نے مقبوضہ وادی میں مساجد ، تعلیمی اداروں اور مدرسوں کو بند کرکے باقاعدہ فوج تعینات کررکھی ہے۔ عوام کا گھروں سے باہر نکلنا مشکل ہو کر رہ گیا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی رسائی کو ناممکن بنانے کیلئے انہیں وادی میں جانے نہیں دیا جاتا جوکہ انسانی حقوق کی بدترین پامالی ہے۔ سوال یہ ہے کہ شام ، برما میں اگر انسانی حقوق کی تنظیمیں جاسکتی ہے تو بھارت انسانی حقوق کی تنظیموں کو مقبوضہ کشمیر میں کیوں نہیں جانے دیتا۔ عالمی دنیابھارت پر سفارتی دباؤ کیوں نہیں ڈالتی ؟ بھارت نے ہٹ دھرمی کی انتہاء کرتے ہوئے مختلف یونیورسٹیز جِن میں دہلی ، بمبئی ، پونا ، آگرا ،سمیت دیگر یونیورسٹیز شامل ہیں، میں زیر تعلیم مسلمان اور عیسائی طلبا و طالبات کو تنگ کرنے کے علاوہ مذہب تبدیل کرنے کے لئے مختلف لابیاں بنا رکھی ہیں جو طلبا و طالبات پر تشدد اور مختلف طریقوں سے ہندو مذہب پر لانے کے لئے سرتوڑ کوششیں کر رہی ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا ہے کہ اقوام ِ متحدہ بھار ت پرسفارتی دباؤ ڈال کر مختلف اقلیتی مذاہب کو تنگ کرنے کے بجائے ان کو مکمل آزادی فراہم کروائے۔ بھارت کے زیرقبضہ جموں و کشمیر کے طبی ماہرین نے کہا ہے کہ اگست 2019ء کے بعد مسلسل دہرے محاصرے کی وجہ سے علاقے کے عوام کو ذہنی صحت کے بدترین بحران کی طرف دھکیلا گیا ہے۔ 5 اگست 2019 ء کوجب بھارتی حکومت نے یکطرفہ طور پر مقبوضہ جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کردی اور سخت فوجی محاصرہ نافذ کیا تو اس سے زیادہ تر کشمیریوں خاص کر خواتین اور بچوں کی ذہنی پریشانی میں اضافہ ہوا۔ مختلف جیلوں میں قید کشمیریوں کو ذہنی طور پر مفلوج کرنے کے لئے جیلوں کے اند ردی جانے والی غذا میں ناقص اور خصوصی قسم کے کیمیکل ڈال کر کھانا دیا جاتا ہے جِس کے باعث کشمیری ذہنی طور پر مفلوج اور پاگل ہورہے ہیں ۔ کشمیر میں مختلف بین الاقوامی تنظیموں کی طرف سے کئے گئے سرویز سے ظاہر ہوتا ہے کہ علاقے میں جاری قتل و غارت، تشدد، نوجوانوں کی بینائی چھیننے، نظربندیوں اور شہریوں کی تذلیل سمیت انسانی حقوق کی مسلسل پامالیاں سماجی اور اقتصادی بدحالی کا باعث بن رہی ہیں۔ ڈاکٹرزود آؤٹ بارڈرزنے 2015ء میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مقبوضہ علاقے میں کل آبادی کے 45 فیصدافراد میں ذہنی پریشانی کی علامات پائی جاتی ہیں۔ اس کی آزادانہ تحقیق کے مطابق بالغ افراد میں سے تقریباً نصف میں ذہنی پریشانی کی علامات ہیں، 41 فیصدمیں ذہنی تناؤ، 26 فیصدمیں اضطراب اور 19 فیصدمیں پوسٹ ٹرامیٹک سٹریس ڈس آرڈر کی علامات پائی جاتی ہیں۔ وادی کے سرکاری ہسپتال کے کشمیری ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ ہم اب ذہنی صحت کے بدترین اور تاریک ترین مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ مایوسی، اضطراب، تناؤ اور صدمے کے مسائل میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ سرینگر میں گورنمنٹ میڈیکل کالج کے ماہر نفسیات ڈاکٹر جنید نبی نے انکشاف کیا کہ 30 سال سے زیادہ کے عرصے میں پہلی بارکشمیر میں ذہنی صحت کی صورتحال اتنی خراب ہوئی ہے۔ دہرے محاصروں کی وجہ سے بے چینی اور پریشانی میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہواہے۔ ہم روزانہ تقریبا300 سے 400 مریضوں کو دیکھتے ہیں جن میں ذہنی دباؤ کی علامات پائی جاتی ہیں لیکن معاشرتی اقدار کی وجہ سے زیادہ تر لوگ مدد نہیں لیتے۔ سوپور ، گندربل ، کپواڑہ ، سرینگر ، بارمولا ، اڑی سمیت دیگر مقامات پر خفیہ ٹارچر سیل بنانے کا انکشاف بھی ہوا ہے جس میں نوجوانوں کو گرفتار کرکے ٹارچر کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔4سو 90افراد کو ان ٹارچر سیلوں میں معذور کیا گیا ہے جبکہ سول آبادی کے بے گناہ 13سو سے زائد افراد کو گرفتار کرکے مختلف جیلوں میں منتقل کیا گیا ہے۔مقبوضہ وادی میں 14خواتین کے ساتھ گینگ ریپ کیا گیا ہے جو کہ تشویشناک ہے۔ کشمیریوں کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج، جب چاہے جِس وقت چاہے گھروں کی چار دیواری کا تقد س پامال کرتے ہوئے ہمارے بچوں کو اٹھا کر لے جاتی ہے جن پر نہ تو کوئی مقدمہ درج کیا جاتا ہے اور نہ ہی اْن کی سنوائی ہوتی ہے۔ چند روز بعد ان کشمیری بچوں کی یا تو مردہ حالت میں میت واپس دی جاتی ہے یا پھر جیل میں سڑنے کے لئے چھوڑ دیاجاتا ہے ۔ اقوام ِ متحدہ بھارتی حکومت پر سفارتی دباؤ ڈالے تاکہ نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا کے علاوہ انسانی حقوق کی تنظیموں کو مقبوضہ وادی میں رسائی حاصل ہو اور مظلوم کشمیریوں کی ِ رائے معلوم کی جا سکے ۔گزشتہ برس سے تو مقبوضہ وادی دنیا سے کٹ کررہ گئی ہے نہ وادی کے اندر انٹرنیٹ سروس اور نہ ہی نیوز چینلز جبکہ ٹیلیفون بھی بند کررکھے ہیں اخبارا ت پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ ہزاروں کشمیری بچے اپنے ماں باپ کا سایہ کھونے کے بعد یوں بے یارو مددگار پھر رہے ہیں کہ انہیں دیکھ کر پتھر دل اور بڑے سے بڑے سنگدل کا سینہ بھی ایک لمحے کو دہل جاتا ہے۔ مگر بھارتی حکمران ہیں کہ اپنی سفاکی کے نتائج دیکھ کر بھی ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ جانے یہ ٹولہ کس مٹی کا بنا ہوا ہے۔ وگرنہ کوئی بھی معاشرہ کتنا بھی زوال پذیر کیوں نہ ہو ،وہاں کے سوچنے سمجھنے والے اور اہل شعور افراد کو یہ احساس ضرور ہوتا کہ ان کے حکمرانوں کے ہاتھوں جو لوگ رزق خاک ہو رہے ہیں وہ بھی انہی کی طرح گوشت پوست کے بنے ہوئے ہیں۔ ان کے سینوں میں بھی دل دھڑکتا ہے اور ہر دھڑکن میں جانے کیسی کیسی خواہشات پوشیدہ ہیں۔ یہ ناحق ماردیے جانے والے بھی کسی کے بیٹے تھے، کسی کے بھائی تھے اور کسی کی آنکھ کا نور اور دل کا قرار تھے۔ آخر ان بے کسوں کو کس گناہ کی سزا دی گئی۔