تاریخی حقائق کامطالعہ بتلاتاہے کہ نسلی یا مذہبی آبادی کی بنیادپرکسی ملک کی اقلیت کی شہریت ختم کرنے کے بعد اس کی نسل کشی کا آغاز نہیں ہوتابلکہ چند سالوں تک اکثریتی آبادی میں نفرت کا پروپیگنڈا کرکے پہلے ماحول بنایا جاتاہے اور پھر نسلی کشی کے خوفناک منصوبے کو انجام دیا جاتا۔اس پس منظر میں یہ بات یادرکھنی چاہئے کہ کسی بھی علاقے میں نسل کشی اچانک نہیں ہوتی ہے، بلکہ فاشسٹ طاقتیں اس کے لیے اسٹیج تیار کرتی ہیں، اس کے پیچھے کئی برسوں کی محنت ہوتی ہے، تب جاکر نسل کشی کا ارتکاب ہوتا ہے ۔جینوسائڈ واچ کے صدر ڈاکٹر جارج اسٹانٹن نے نسل کشی کے دس ادوار لکھے ہیں۔آج ہم اس کاتذکرہ کریں گے اوردیکھیں گے کہ ہندوستان کی موجودہ صورت حال کس خوفناک انسانی المیے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ڈاکٹر جارج اسٹانٹن نے نسل کشی پراپنی ریسرچ کے جو دس مراحل لکھے ہیںان میں سے سب سے پہلا یہ کہ جس ملک میں اقلیت کی نسل کشی مقصود ہو توسب سے پہلے وہاںکلاسیفیکیشن کی جاتی ہے یعنی عوام کو نسلی، لسانی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا جاتا ہے، ہم اور وہ کے درمیان آبادی کو بانٹ دیا جاتا ہے، نسل کشی کی طرف یہ پہلا قدم ہوتاہے۔ سمبلائزیشن نسل کشی کی طرف دوسرا قدم ہوتاہے، اس درجے میں آکر مختلف نسلی اور مذہبی گروہوں کے مختلف لباس اور رنگ متعین ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ یہ چیز فطری ہیں اور یہ ضروری نہیں ہے کہ الگ رنگ ولباس کا نتیجہ نسل کشی ہی ہو، لیکن جب رنگ ولباس سے اچھے اور برے کی پہچان ہونے لگے تو سمجھ لیجیے کہ نسل کشی کی طرف دوسرا قدم اٹھا لیا گیا ہے۔تیسرا مرحلہ ڈسکریمنیش: یعنی نسلی امتیازکا ہونا ہے۔ غالب گروہ اقلیتوں کے معاشرتی اور قانونی حقوق رفتہ رفتہ چھیننا شروع کردیتا ہے۔ حتی کہ ایک وقت ایسا آتا ہے کہ مغلوب گروہ کی شہریت بھی سلب کرلی جاتی ہے، جس سے ان پر ظلم وستم کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد ڈی ہیومنائزیشن ہے: اس درجے پر آکر غالب گروہ مغلوب کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرنا شروع کردیتا ہے۔ مغلوب گروہ کو جانور کے برابر سمجھ لیا جاتا ہے اور ان کو معاشرے کا ناسور اور کینسر تصور کیا جاتا ہے۔ اس پروپیگنڈے کو بڑھاوا دینے کے لیے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا بھی سرگرم ہوجاتا ہے۔ پانچواں عمل آرگنائزیشن ہے: نسل کشی ہمیشہ منظم ہوتی ہے، اس کے لیے کبھی حکومت کھل کر میدان میں آجاتی ہے اور کبھی اپنی نجی گروہوں کا سہارا لیا جاتا ہے اور ان کو تیار کیا جاتا ہے۔ جارج اسٹانٹن کے مطابق دارفور میں سوڈانی فوج کے ذریعے جنجاویڈ نامی گروپ کا اسی لیے استعمال کیا گیا۔پولرائزیشن: اس اسٹیج پر اکثریت اور اقلیت کے تعلقات کو بری طرح سے مجروح کیا جاتا ہے، بین المذاہب شادیوں پر پابندی عاید کی جاتی ہے، اکثریتی سماج کی معتدل شخصیات کو نشانہ بنایا جاتا ہے، ان کو گرفتار یا قتل کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اقلیتی سماج کی لیڈر شپ کو ختم کیا جاتا ہے۔پرپریشن:کے مرحلے میں نسل کشی کی ٹریننگ ہوتی ہے، لوگوں کو ہتھیار چلانے کی مشق کرائی جاتی ہے، ان کو یہ بتایا جاتا ہے کہ آخری حل یہی ہے۔ جرمنوں میں یہود کے خلاف فائنل سلوشن کی صدا بلند کی گئی تھی۔ لوگوں کو بتایا گیا کہ اگر ہم نے یہ قدم نہیں اٹھایا تو ہم ختم ہوجائیں گے۔ پرسیکیوشنکے مرحلے میں اقلیتی گروہ کو سب سے پہلے اکثریتی سماج سے ممتاز کردیا جاتا ہے، ان کے علاقے الگ کردیے جاتے ہیں، اپنے علاقوں میں ان کو جگہ نہیں دی جاتی ہے، بلکہ اقلیتی برادری کے لوگوں کی زمینیں اور جائیدادیں ضبط کرلی جاتی ہیں، ان کو ڈٹینشن یا کانسنٹریشن کیمپس میں ڈال دیا جاتا ہے۔ ایکسٹرمنیشن کے مرحلے میں آکر قتل عام شروع ہوتا ہے، جس کو عالمی قانون کی زبان میں نسل کشی کہا جاتا ہے۔ عورتوں کا ریپ کیا جاتا ہے، لاشوں کی بے حرمتی کی جاتی ہے، اس مرحلے پرسرکاری فوج بھی نجی گرپوں کے ساتھ مل جاتی ہے اور اقلیتوں کے خلاف غیر انسانی سلوک کرتی ہے اور لاکھوں لوگوں کو قتل کردیتی ہے اور ان کی لاشوں کو اجتماعی قبروں میں ڈال دیا جاتا ہے۔آخر میں ڈینایل: یعنی انکارکا مرحلہ آتا ہے۔ عموما مرقومہ بالا تمام مراحل میں اور خصوصا نسل کشی کے بعد حکومت کی طرف سے انکار کیا جاتا ہے کہ کسی بھی قسم کی نسل کشی سر زد ہوئی ہے۔ حکومت آزادانہ انکوائری میں رکاوٹ بنتی ہے اور کبھی اپنا جرم تسلیم نہیں کرتی۔ وہ امتیازی قانون بناتی بھی ہے اور اس کو تسلیم بھی نہیں کرتی ہے۔واضح رہے کہ یہ دس ادوار ہمارے خود ساختہ نہیں ہیں، بلکہ ڈاکٹر جارج اسٹانٹن کی ریسرچ کا حصہ ہیں۔ جینوسائڈ واچ کے صدر ڈاکٹر جارج اسٹانٹن کے ریسرچ کوسامنے رکھتے ہوئے ہم آج سوویت یونین ،جرمنی اوربرمامیں ہوئی نسل کشی پرنظردوڑاتے ہیں اورپھرمودی کے ہندوستان میں پیداشدہ حالات کاموزانہ کرکے مو دی کے مسلم کش ایجنڈے کے تانے بانے تلاش کرتے ہیں۔ زار روس کی موت کے بعد ولادیمیرلینن نے سوویت یونین کی بنیاد رکھی۔ زار کی موت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یوکراین نے روس سے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ لینن نے میں یوکراین پر دوبارہ قبضہ کی مہم کا آغاز کیا اور تین چار سال کی جدوجہد کے بعد قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ 1924میں لینن کے مرنے کے بعد اسٹالن اس کا جانشین بنا۔ اس ظالم حکمران کو یہ برداشت نہیں تھا کہ اس کے ماتحت علاقوں میں کسی بھی طرح کی آواز اس کے خلاف اٹھے۔ چنانچہ 1929میں اس نے پانچ ہزار سے زائد یوکراینی پروفیسرز، سائنس داں، ماہرین تعلیم اور مذہبی قائدین کو گرفتار کرلیا اور ان کی بڑی تعداد کو بغیر کسی مقدمے کے قتل کر دیا گیا باقی بچ جانے والوں کو(detention camps)میں بھیج دیا گیا۔ یوکراین کی 80فیصد آبادی زراعت پیشہ تھی۔ ان کسانوں میں کچھ ایسے بھی تھے جن کی ملکیت میں 24ایکڑ سے زائد زمینیں تھیں اور یہ لوگ نسبتا امیر تھے۔ یوکراین میں ان لوگوں کو کلاک کہا جاتا تھا۔ اسٹالن کو یہ خدشہ تھا کہ زمین داروں کے اسی طبقے کے ذریعے دوبارہ بغاوت ہو سکتی ہے، لہذا اس نے اس طبقہ کے افراد کو تمام انسانی اور شہری حقوق سے محروم کردیا۔ ان کو سرکاری طور پر عوام دشمن اور ملک دشمن قرار دیا گیا، ان کی نسل کشی کی گئی اور بچ جانے والوں کو سائبیریا کے جنگلات میں قائم ( (detention centesمیں بند کردیا گیا۔ اسٹالن کے ذریعے کی جانے والی اس نسل کشی میں سات لاکھ لوگوں نے اپنی جانیں گنوائیں۔ ظلم کی بنیاد پڑنے کے بارہ سالوں بعد یہ نسل کشی ہوئی۔