یا اللہ یا رسول بے نظیر بے قصور ایک زرداری سب پہ بھاری جئے بھٹو کا نعرہ تو سدا بہار ہے۔ہونا بھی چاہئے کہ پاکستانی سیاست میں چار دہائی سے پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹواپنے عظیم الشان کار ناموں اور بہادرانہ شہادت کے سبب گڑھی خدا بخش سے کروڑوں عوام کے دلوں پر راج کر رہے ہیں۔اُن کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کی سیاسی زندگی تو خیر جد وجہد سے عبارت تھی ہی۔ مگر اُن کی شہادت نے بھی انہیں سنہری حروف سے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں محفوظ کردیاہے۔رہے ہمارے محترم سابق صدر ،چیئر مین آصف علی زرداری کہ جہاں بھٹو خاندان کا فخر محترمہ بے نظیر بھٹو نے اُن کیلئے خوش قسمتی کے دروازے کھول دئیے۔ وہیں شادی کے ساتھ ہی اُن پر الزامات و ملامت کا ایک ایساسلسلہ شروع ہوا جو 32برس سے اُن کا پیچھا کر رہا ہے۔یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے کسی اور سیاستدان کا ایسا ریاستی اور میڈیا ٹرائل نہیں ہوا۔اس سے بھی بڑھ کر محترم آصف علی زرداری کو اس پر بھی داد دینی پڑے گی کہ چہار جانب سے ساری ملامت ہی نہیں بلکہ جیل ،جلاوطنی اور تھانوں کچہریوں کے برسہا برس سے پھیرے لگانے کے باوجود وہ پوری استقامت سے نہ صرف اپنی خوش مزاجی اور خود اعتمادی کو برقرار رکھے ہوئے ہیں بلکہ ۔ اپنی شہید بیگم کے بعد انہوں نے پارٹی پراپنی گرفت بھی مضبوط رکھی ہوئی ہے۔ یہ درست ہے کہ 2008ء میں محترم آصف علی زرداری کا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر بننے کا محرک محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت ہی تھی۔ مگر اسے معجزہ ہی کہا جائے گا کہ ساری دنیا میں کرپشن کے حوالے سے متعصبانہ شہرت رکھنے والے آصف علی زرداری ایک جمہوری پارلیمنٹ سے منتخب ہو کر پورے پانچ سال صدارتی منصب پر بڑی شان و شوکت سے فائز رہے۔ کوشش ہوتی ہے کہ ذاتی حوالے سے گفتگو سے گریز کیا جائے کہ عام طور پر اس میں’’ فدوی ‘‘مبالغہ آرائی کا شکار ہونے کے ساتھ ساتھ یہ تشہیربھی کررہا ہوتا ہے کہ وہ صاحب اقتدار سے کتنا قریب ہے۔جن کے آگے بڑے بڑوں کے پر جلتے ہیں۔ مگر محترم آصف علی زرداری کے حوالے سے گفتگو کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ اُن کی ذاتی شخصیت کی پرتیں بھی کھلیںکیونکہ بہرحال یہ کوئی معمولی بات نہیںکہ ایک دہائی سے اوپر گمنامی اور جلا وطنی میں زندگی گزارنے والا 27دسمبر2007ء کو پاکستان واپس آتا ہے اور محض چند ماہ بعد مملکت خداداد پاکستان کی سب سے بڑی کرسی پر جا بیٹھتا ہے۔محترم آصف علی زرداری سے میری پہلی ملاقات 2002ء کے لگ بھگ ہوئی ۔اور دوسری سال ڈیڑھ پہلے ۔لندن کے سرد موسم میں اُن کے پر شکوہ اپارٹمنٹ میں۔2002ء اور2017ء کے دوران گو گاہے بگاہے آمنا سامنا اور سلام دعا رہی مگر ان دو ملاقاتوں کا تاثر ذرا زیادہ دیر پا اور گہرا رہا۔ 2002ء میں اُن سے ملاقات انڈس ٹی وی کے پروگرام ’’دوٹوک‘‘ کیلئے تھی۔نئے نئے نجی چینل آئے تھے ،اس لئے اُن دنوں ہمارا پروگرام بھی ذرا زیادہ دیکھا جاتا تھا ۔ زرداری صاحب یقینا یہ پروگرام دیکھتے رہے تھے۔اس لئے بلاول ہاؤس کے ایک نسبتاً مختصر ڈرائنگ روم میںداخل ہوتے ہی انہوں نے اپنی مخصوص چھڑی کو جس کے سہارے وہ چل رہے تھے ،اچانک قریب آکر میری آنکھوں کے سامنے لہراتے ہوئے کہا۔’’دو ٹوک بات ہوگی،تم اسے کیا دکھا سکو گے؟‘‘ اعتراف کرنے میں حرج نہیں کہ میں اُن کے اس انداز ِ تخاطب سے رعب میں آگیا۔مگر انٹرویو جب شروع ہوا تو دونوں طرف سے دوٹوک تھا۔سو اس لئے جب یہ ختم ہوا تو انگریزی زبان کے محاورے کے مطابق ۔’’وہ کوئی خوش آدمی نہ تھا‘‘۔ صدر مملکت کی حیثیت سے بھی غالباً 2009ء میں مجھے انٹرویو لینے کا موقع ملا ۔مگر زیادہ تفصیلی نشست 2016ء کے اختتام میں لندن میں ہوئی۔جس چینل سے میں منسلک تھا اُس کے سربراہ نے جنہیں محترم آصف علی زرداری اپنے بچوں کی طرح پیار کرتے ہیں۔ مجھ سمیت پانچ سینئر صحافیوں کے ساتھ اس کا اہتمام لندن میں اُن کے ذاتی فلیٹ میں کیا تھا۔اس انٹرویو سے پہلے سابق صدر آصف علی زرداری پاکستان میں اپنا مشہور زمانہ بیان دے چکے تھے کہ وہ ’’اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے‘‘۔ سو اس گفتگو کا آغاز اُس بیان سے ہی ہوا جس کی وضاحت میں زرداری صاحب کا کہنا تھا کہ میں نے یہ پیغام نمبر 2کو دیا تھامگر اسے پورے ادارے کے خلاف لے لیا گیا۔پر تکلف ڈنر پر یہ گفتگو ساڑھے تین چار گھنٹوں پر محیط تھی۔ اتنہائی مہذبانہ اور متفقانہ انداز میں مستقبل کی سیاست کے حوالے سے اُن کے دلائل بڑے متاثر کن تھے۔انہوں نے خبر بھی دی کہ وہ تمام تر افواہوں کے باوجود اگلے تین ماہ بعد پاکستان میں ہوں گے۔کسی بھی جماعت کو اکثریت نہ ملنے کی وہ پیشنگوئی کر رہے تھے۔سو حسبِ وعدہ وہ واپس آئے ۔بلوچستان میں زہری حکومت گرانے اور عبد القدوس بزنجو کو وزیر اعلیٰ بنانے اور پھر سینیٹ کے الیکشن میں جس طرح ن لیگ کو مار پڑی ۔اُس میں مرکزی کردار سابق صدرآصف علی زرداری کا ہی تھا۔شریف خاندان کو جن پے در پے شکستوں اور پھر عدالتوں اور جیلوں میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑا ،اُس میں ہمارے محترم آصف علی زرداری اور اُن کی پارٹی کا کردار محض خاموش تماشائی کا نہیں ،تالیاں بجانے والوں میں تھا۔مگر اسلام آباد کے سیاسی پنڈت پیشنگوئی کر رہے تھے کہ شریفوں کے بعد اگلی باری ’’زرداریوں ‘‘کی ہی ہوگی۔ابھی مہینے بھر پہلے بھٹو خاندان سے انتہائی قریب ایک خاتون وکیل نے مجھ سے اس خدشے کا اظہار کیا کہ ’’منی لانڈرنگ کیس‘‘ زرداری خاندان کے گلے کا پھندا بن سکتا ہے۔پیر کو ایک کثیر الاشاعت اخبار کے سینئر کالمسٹ نے اپنے باخبر رپورٹر کو quoteکرتے ہوئے کہا ’’آصف علی زرداری اگلے ماہ میں جیل میں ہونگے‘‘موصوف کالم نویس بہر حال 25جولائی کے الیکشن سے پہلے شریف خاندان کے سیاسی مستقبل پر اپنی کتاب Party is Overلاچکے ہیں۔سپریم کورٹ میں جس طرح منی لانڈرنگ کیس کے مرکزی ملزمان ، بزنس ٹائیکون انور مجید ، اُن کے صاحبزادے غنی مجید ،ممتاز بینکر حسین لوائی کی پیشیاں ہو رہی ہیں۔ خود دونوں بہن بھائی یعنی محترمہ فریال تالپور اور محترم آصف علی زرداری کو ایف آئی اے کی دہلیز پر جس طرح آتے جاتے اسکرینوں پر دکھا یا جارہا ہے۔ اُس سے تو یہی لگ رہا ہے کہ یہ سال ہمارے کھلاڑیوں کے کھلاڑی ۔آصف علی زرداری پر کہیں بھاری نہ پڑ جائے۔