نورل چانڈیو لاڑکانہ میں اپنے اہلخانہ کیساتھ سیلاب متاثرین کیمپ میں گزر بسر کررہا ہے‘ گزشتہ روز اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر سامنے آئی‘جس نے سیلاب متاثرین کی امداد کے حوالے سے حکومت سندھ پر ہونیوالی تمام تر تنقید کو درست ثابت کردیا جبکہ حکومت سندھ کے تمام دعوے زمین بوس ہو کر رہ گئے۔نورل چانڈیو نے اپنے بچے فروخت کرنے کیلئے صدائیں لگانا شروع کردیں‘وہ با آواز بلند لوگوں کو پکارتا رہا کہ میں اپنے بچے فروخت کررہا ہوں‘میرے بچے لے لو‘ کھانے کیلئے کچھ نہیں ہے‘روٹی کیلئے پیسے نہیں‘ کھانے کیلئے پیسے دے دو یا کھانا دے دو‘یہ واقعہ ہمارے حکمرانوں اور بالخصوص حکومت سندھ کے منہ پر زناٹے دار طمانچہ ہے۔پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری تخت پنجاب فتح کرنے کیلئے لاہور یاترا پر ہیں جبکہ بلاول بھٹو زرداری پنجرے سے نکلے ایسے پنچھی کی طرح ہیں جو اپنے ملک تو درکنار سندھ کے سیلاب متاثرین کی مدد کرنے کیلئے کچھ نہیں کر پائے بلکہ ایک سے دوسرے اور تیسرے ملک وزارت خارجہ کی موج مستیاں کرنے میں مصروف ہیں۔ کاش انہیں آصف علی زرداری بتاتے کہ وہ ہر موقع پر جس جئے بھٹو کا نعرہ بلند کرتے ہیں‘پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو لاڑکانہ کو اپنا سیاسی گڑھ قرار دیتے تھے جو لاڑکانہ ان کا مضبوط حلقہ انتخاب تھا وہاں سیلاب متاثرین کی حالت زار مسلسل ابتر ہو رہی ہے‘ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اپنی رپورٹ میں خطرناک انکشاف کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ سیلاب متاثرین میں وبائی امراض بری طرح پھوٹ چکے ہیں۔وبائی امراض مزید پھیلنے اور اس سے اموات بڑھنے کا خدشہ ہے۔ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر نے کہا کہ بھوک اور غذائی قلت کے باعث مائیں بچوں کو دودھ نہیں پلا پا رہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت پی ڈی ایم میں شامل ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے سیلاب متاثرین سے متعلقہ زمینی حقائق پر کیا اقدامات اٹھائے؟ جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ فضل الرحمن نے گزشتہ روز پہلی مرتبہ ہیلی کاپٹر پر سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا‘اس سے پہلے وہ کہاں تھے؟ سندھ کی طرح بلوچستان کی حکومت کہاں ہے؟ کے پی کے اور پنجاب حکومتوں کی کارکردگی بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں۔ مختلف خدشات اور رپورٹس جاری ہونے کے باوجود سیلاب متاثرین وبائی امراض سے اپنی زندگیوں کی بازی ہار رہے ہیں‘ یہ امراض مزید بڑھ رہے ہیں لیکن روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا‘ کے مصداق وزیر اعظم شہباز شریف لندن چل دئیے‘نواز شریف سے منظوری لی کہ انتخابات اپنے وقت پر منعقد کئے جائینگے‘ وزیر اعظم وہاں سے امریکہ پہنچے‘جب اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری پاکستان کا دورہ کرکے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے پوری دنیا کو پاکستان میں سیلاب سے ہونیوالی تباہی سے آگاہ کررہے ہیں اور امداد کا مطالبہ کر رہے ہیں کہ بڑے ترقی یافتہ ممالک کی غلطیوں کی سزا پاکستان بھگت رہا ہے تو وزیر اعظم کو ان حالات میں اقوام متحدہ جانے کی کیا ضرورت تھی؟ وہ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں اس بات کا اقوام متحدہ میں موجود تمام مملکتوں کو علم ہے مگر شاید دل کی تشنگی دور کرنا ضروری تھی‘بہرحال سیلاب کی بدترین تباہ کاریوں کے بعد ایک مزید خطرناک رپورٹ سامنے آئی ہے کہ پاکستان سمیت دس ممالک آئندہ مون سون کی بارشوں کے دوران مزید متاثر ہوسکتے ہیں یعنی پاکستان سمیت دس ممالک میں آئندہ مون سون کے دوران مزید بارشیں ہونگی‘ پاکستان میں سیلاب کی ایک بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔جب عمران خان بلین ٹری سونامی اور شجرکاری کی باتیں کرتے تھے تو ان کا مذاق اڑایا جاتاتھاآج پوری دنیا یہی بات کررہی ہے‘اسی طرح اگر آئندہ مون سون کے موسم سے پہلے ہم نے زیادہ سے زیادہ آبی ذخائر کی تعمیر‘پانی کی گزرگاہوں پر غیر قانونی تعمیرات اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں غربت میں کمی جیسے مسائل پر توجہ نہ دیتوخدا نخواستہ آئندہ مزید اس طرح کی ہولناک تباہ کاریاں ہماری منتظر ہونگی۔ سیلاب کے بعد جہا ں ملک میں غذائی قلت اور قحط کا خطرہ ہے وہاں بیروزگاری‘مہنگائی اور غربت کی شرح میں بھی خوفناک اضافہ ہوا ہے مگر حکومت ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں۔سیلاب کے بعد چاروں صوبوں میں کھڑی فصلیں بری طرح تباہ ہوچکی۔شعبہ زراعت سے وابستہ بڑی تعداد بیروزگار ہوچکی‘سیلاب متاثرہ علاقوں میں پینے کے صاف پانی‘غذائی قلت اور ادویات کی کمی وغیرہ وغیرہ کے مسائل بدستور موجود ہیں جبکہ حکومت ہے کہ ایک مرتبہ پھر پٹرول کی قیمت میں پونے دو روپے اضافہ کرچکی ہے۔میڈیا کو بڑی حد تک اپنے قابو میں رکھنے کے باوجود آٹے کے بحران اور اس کی ہوشربا قیمتوں پر احتجاج بڑھ رہا ہے۔بجلی کی قیمتوں نے ہر طبقے کے کڑاکے نکال دئیے ہیں لیکن حکومت کو صرف اور صرف ایک ہی کام ہے اور وہ ہے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو کسی نہ کسی طرح سیاسی میدان سے ناک آؤٹ کرنیکی سازشیں کرنا۔ عمران خان پر حکومت الزام عائد کرتی چلی آرہی ہے کہ وہ سیلاب کی بجائے سیاست کررہے ہیں‘ حکومت کیا کر رہی ہے؟ اس کا پوری قوم کو بخوبی علم ہے۔ حکومت ہر محاذ پر مکمل طور پر ناکام حکومت ہے‘13جماعتوں کا پی ڈی ایم مربہ اپنی کارکردگی دکھانے میں فیل ہوچکا ہے‘جسے آئندہ انتخابات میں اپنی ناکامی نظر آرہی ہے‘لہذا وہ بوکھلاہٹ میں وہ کام کررہا ہے‘ جس سے اس کی ساکھ مزید بری طرح مجروح ہورہی ہے۔پی ڈی ایم نے عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کامیاب کرکے سیاسی طورپر تحریک انصاف کو نئی زندگی بخشی ہے‘اب ان کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ سارا معاملہ الٹ کیسے پڑ گیا‘ اس لئے ہر مشکل فیصلے کی بھڑک لگا کر اس کی ذمہ داری عمران خان پر عائد کردی جاتی ہے۔ عوام بری طرح مسائل کی چکی میں پس ر ہے ہیں۔ سیلاب متاثرین بے یارو مدد گار ہیں‘حکمرانوں کی خواہش مگر یہ ہے کہ ان کی ان دیکھی کارکردگی کے ڈھول پیٹے جائیں۔ایسا ممکن نہیں‘عوام کو پی ڈی ایم نے فاقوں‘خود کشیوں اور بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور کردیا۔خلق خدا ان کے دامن کو نہیں تھام سکتی۔عوام کی تو یہ حالت ہے کہ وہ کہنے پر مجبور ہیں:’’ جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے زندگی ---جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں‘‘