یہ ان دنوں کی بات ہے جب بھارت قیام پاکستان کے بعد پہلی بار اپنی فوجیں سرحدوں پر لے آیا اور دونوں ممالک میں جنگ کے خطرات منڈلانے لگے۔ اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے بھارت کو مکا لہرا کر باز آنے کی تلقین کی اور ملک بھر میں جوش و جذبے کی لہر دوڑ گئی، مخدوم زادہ حسن محمود ریاست بہاولپور کے وزیر اعظم تھے ‘انہوں نے بھی ریاست کے سرحدی علاقوں کا دورہ کیا اور عوام کو بھارت کے مقابلے میں ڈٹے رہنے کی تلقین کی۔ دورے کے دوسرے دن مخدوم زادہ صاحب طبی چیک اپ کے لیے لندن چلے گئے۔ محمد علی درویش بہاولپور کے نڈر اور بے باک صحافی تھے اور مخدوم زادہ کے ناقدین میں شامل، درویش صاحب نے اپنے اخبار میں شہ سرخی لگائی، ’’عوام بھارت کے مقابلے میں ڈٹے رہیں، میں لندن جا رہا ہوں‘‘ اس حسب حال سرخی پر مخدوم زادہ کی جو درگت بنی وہ محتاج بیان نہیں، قارئین نے داد دی اور عوام نے درویش کی اس بے باکی کو سراہا۔ یہ واقعہ مجھے گزشتہ روز میاں شہباز شریف کا ایک بیان پڑھ کر یاد آیا۔ چھوٹے میاں صاحب نے کہا کہ ’’کارکن حالات کی پروا کئے بغیر اپنے قائد کے ساتھ کھڑے ہیں شریف خاندان نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ ہم الزامات سے ڈر کر بھاگنے والے نہیں‘‘ میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور مسلم لیگ(ن) کی نئی قائد مریم نواز شریف نے بھی اپنی ٹویٹس میں کارکنوں کو خوب ہلہ شیری دی‘ مگر جاتی امرا سے کوٹ لکھپت جیل تک چار گھنٹے کے سفر میں یخ بستہ گاڑی سے نکل کر اپنے کارکنوں کے نعروں کا جواب دیانہ کسی جگہ پر خطاب کیا۔ ذاتی معاملات میں اس قدر احتیاط اور غریب و سادہ لوح کارکنوں سے بے جا توقعات؟واقعی سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ پانامہ سکینڈل سے لے کر منی لانڈرنگ کیسز تک شریف خاندان مسلسل ابتلا میں ہے، میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز شریف اس دور ابتلا میں دو کشتیوں کے سوار ہیں، میاں شہباز شریف اور ان کے کئی قابل اعتماد ساتھی ہمیشہ انہیں پتلی گلی سے نکلنے اور بچی کھچی توانائی بہتر وقت کے لیے بچا کر رکھنے کا مشورہ دیتے رہے جبکہ پرویز رشید، طارق فاطمی جیسے عقابوں کی رائے ’’چڑھ جا بیٹا سولی پر رام بھلی کریگا‘‘ کے حق میں ہے۔ 2017ء سے اب تک ان عقاب صفت مشیروں کے بھرے میں آ کر شریف خاندان نے صرف اقتدار ہی نہیں گنوایا ‘کرپشن کے الزامات سہے، مقدمات کا سامنا کیا اور اڈیالہ و کوٹ لکھپت جیل کی سیر کی، ضمانت ملنے کے بعد مریم نواز شریف کی سرگرمیاں جاتی امرا کی ملاقاتوں اور بے ضرر ٹویٹس تک محدود ہیں جبکہ میاں شہباز شریف اپنے صاحبزادے سلمان شہباز شریف اور داماد علی عمران کے ساتھ لندن میں پائے جاتے ہیں، مسلم لیگ کی تنظیم سازی سے یہ تاثر گہرا ہو گیا ہے کہ شریف خاندان بلند بانگ دعوئوں کے باوجود میدان سیاست سے پسپا ہو رہا ہے اور بخوشی یا بادل نخواستہ وہ پارٹی کی باگ ڈور شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ اور رانا تنویر کے حوالے کر کے اسٹیبلشمنٹ سے رعایت کا خواہاں ہے۔ گزشتہ روز فلاپ شو کے موقع پر بھی کارکنوں کی یہ خواہش اور توقع دم توڑ گئی کہ مریم نواز شریف چار پانچ ہزار کے اس مجمع کو گرمانے اور پنجاب کے طول و عرض سے اکٹھے کیے گئے کارکنوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے دھواں دھار تقریر کریں، مستقبل کا لائحہ عمل دیں اور پاکستان کی سیاسی تاریخ پر شریف خاندان کی دلیری، جرأت، استقامت اور دانش مندی کا نقش ثبت کریں، سادہ لوح کارکن بے چارے اپنے خواب فروش لیڈروں سے مانگتے ہی کیا ہیں؟ بلند بانگ دعوے، ناقابل ایفا وعدے اور خوش نما الفاظ ؎ دو حرف تسلی کے جس نے بھی کہے اس کو افسانہ سنا ڈالا، تصویر دکھا ڈالی خبر یہ گرم تھی کہ ریلی میاں نواز شریف کی ولی عہد مریم نواز کی ری لانچنگ کا اہتمام ہے اور کارکنوں کے لیے یہ پیغام کہ اب مسلم لیگ کی قیادت شہباز شریف کے بجائے مریم نوز کرینگی ‘مگر؟ ریلی کے اختتام تک مریم نواز کچھ بولیں نہ میاں نواز شریف نے لب کھولے۔ میاں نواز شریف کیمرہ سے آنکھ ملائے بغیر کچھ بولے بھی تو لہجہ مایوس، الفاظ بے جان اور عزم و ارادہ پست ۔کہا ’’جس والہانہ انداز سے میرا استقبال کیا گیا اس جذبے کا شکریہ ادا کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں، انشاء اللہ کارکنوں کا جذبہ اور دعائیں رنگ لائیں گی اور یہ سیہ رات ختم ہو کر رہے گی، اس میں کوئی شک نہیں ہے‘‘ ضمانت منسوخ ہونے کا خوف تھا یا درپردہ رابطوں کا دبائو، مریم نواز کا اس موقع پر خاموش رہنا اور جیل کے دروازے پر پرجوش کارکنوں کے نعروں کا جواب دینے کے بجائے میاں نواز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز کا بجھے چہروں کے ساتھ باہم محو گفتگو رہنا ہر ایک کو شاق گزرا۔ لاہور اور وسطی پنجاب میں مسلم لیگ کے سیاسی اثرورسوخ اور انتخابی مقبولیت سے انکار ممکن نہیں‘ احتجاجی سیاست مگر مسلم لیگ کے بس کی بات ہے نہ میاں نواز شریف نے الیکٹ ایبلز کی اس جماعت کو سنجیدگی سے کبھی نظریاتی بنانے کی سعی کی‘ حب مال‘ حب جاہ اور ذاتی و خاندانی مفاد کے مارے جاگیرداروں‘ سرمایہ داروں‘ لینڈ مافیا اور ایسے ہی دیگر طبقات کی نمائندہ اس جماعت پر نظریاتی ہونے کی تہمت صرف وہی لگا سکتے ہیں جنہیں سیاسی حرکیات کا علم اور نظریے کا ادراک نہیں۔ شخصی وخاندانی غلامی کا خوگر یہ طبقہ جوڑ توڑ‘ خریدوفروخت‘ دھونس‘ دھاندلی اور ذات برادری کے زور پر انتخابی کامیابی تو حاصل کر سکتا ہے کسی نظریے اور اصول کی بنیاد پرقربانی دیناکٹھن حالات کا مقابلہ کرنا اس کی سرشت و جبلت میں نہیں‘ ایک ایسے شخص کو رخصت کرنے کے لئے وہ اپنے کارکنوں کو سڑکوں پر کیوں لائے ان پر پیسہ کیوں نچھاور کرے جو جیل جا رہاہے اور جس کے سیاسی و خاندانی وارث عمران خان کا سیاسی مقابلہ کرنے کے بجائے اپنی جان بچا رہے ہیں یا درپردہ ڈیل کے لئے بے قرار و بے تاب۔ لاہور‘ گوجرانوالہ‘ کامونکی‘ قصور‘ شیخو پورہ‘ سیالکوٹ اور اوکاڑہ کے ارکان صوبائی و قومی اسمبلی کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں بلدیاتی نمائندے اگر صدق دل سے چاہتے تو پندرہ بیس ہزار کارکن بآسانی جاتی امرا اور کوٹ لکھپت جیل کے باہر اپنے قائد سے اظہار یکجہتی کے لئے لا کھڑے کرتے مگر جب انہیں اور کارکنوں کو معلوم ہے کہ قائد محترم کے دونوں صاحبزادگان اور برادر خورد کو دلچسپی نہیں اور مریم نواز بھی ضمانت کے قانونی تقاضوں یا سیاسی مصلحتوں کے تحت مہربہ لب ہیں‘ گاڑی میں کھڑے کھڑے بھی چند احتجاجی جملے دہرا نہیں سکتیں‘ کہ مباداضمانت منسوخ ہو جائے اور رعائت واپس ‘تو کسی کو بائولے کتے نے کاٹا ہے کہ وہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے اور مئی کی گرمی میں سڑکوں پر خوار ہوتا پھرے۔ ویسے بھی اقتدار کے دنوں میں سیاسی جماعتیں اور ان کے قائدین اپنے جاں نثار کارکنوں کے ساتھ جو سلوک کرتی ہیں وہ ہر غیرت مند اور حقیقی سیاسی کارکن کو یاد رہتاہے۔13جولائی کی طرح 7مئی کو بھی مسلم لیگ ن کے چوری کھانے والے مجنوں صفت لیڈروں اور’’ قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘کے نعرے لگانے والے بریانی خور کارکنوں نے شریف خاندان کو مایوس کیا۔ لیکن قصور وار کون ہے؟ کارکنوں کو سڑکوںکا راستہ دکھا کر خود لندن کے محلات اور شاپنگ مالز میں شب وروزبتانے‘ خوشگوار موسم سے لطف اندوز ہونے اور جاتی امرا میں من و سلویٰ کے مزے اڑانے اور حیرت انگیز خاموشی سے اسٹیبلشمنٹ و حکومت کو اپنی نیک چلنی کا پیغام دینے والے یا کوئی اور؟ میاں نواز شریف ایک قانون پسند شہری کی طرح خاموشی سے قبل از افطار کوٹ لکھپت جیل چلے جاتے تو فائدے میں رہتے۔ حکومت اسٹیبلشمنٹ اور انتظامیہ کے علاوہ عدلیہ کو مثبت پیغام ملتا اور سیاسی طاقت و مقبولیت کا بھرم قائم رہتا۔ مگر فوج اور ریاست کے دوسرے اداروں کو تہس نہس اور اپنے روبرو سرنگوں کرنے کی خواہش غالب آئی اور انجام معلوم ۔ارادہ اور خواہش بے لگام ہوں اور زاد سفر حقیر تو انتخابی مقبولیت بھی بھرم کھو دیتی ہے۔ 13جولائی کی طرح 7مئی بھی شریف خاندان پر بھاری گزرا۔ شائد قسمت ابھی مہربان نہیں بقول خواجہ فریدؒ ؎ جے ڈینہ بھلڑے متروی بھلڑے قسمت جوڑیے جوڑ کلڑے یار شدید تے بخت عنید