مولانا محمدخان شیرانی مزید جے یو آئی کی دنیا میں نہیں رہے۔جمعیت علماء اسلام سے اس بزرگ سیاستدان کا رشتہ ایک ایسے وقت میں ختم ہواجب ان کی سیاسی توانائی تقریباًجواب دے چکی ہے۔عمر کے اس حصے میں ایک معمر سیاستدان عموما ًپارٹی میں پیہم محبتیں اور عزت سمیٹتا ہے لیکن بدقسمتی سے مولانا شیرانی کے حق میں یہ سعادت نہیں آئی۔ سماجی رابطوں کے اس بے رحمانہ دور میں ہر کس و ناکس کو اُن کی ذات پر ایک دو جملے کھسنے کا موقع مل گیایہاں تک کہ انہیں ننگی گالیاں تک سننا پڑیں۔اس میں کوئی دو رائے نہیںکہ مولانا شیرانی کی سیاسی بصیرت اور دوربینی مذہبی جماعتوں کے بہت کم افراد میں دیکھنے کو ملتی ہے، باالخصوص نائن الیون کے بعد دہشتگردی، انتہاپسندی اور فرقہ واریت کے خلاف ان کا بیانیہ حد درجے دوٹوک اور دلیرانہ رہا۔ میرے نزدیک مذہبی حلقوں سے دہشتگردوں کے خلاف اٹھنے والی ایک موثر آواز شہید مولانا حسن جان کی تھی اور دوسری مولانا شیرانی کی ۔اسی بیانے کے ساتھ کھڑے ہوکرمولانا حسن جان نے بارہ برس پہلے شہادت کو گلے لگالیاجبکہ مولانا شیرانی کئی قاتلانہ حملوں کے باوجود معجزانہ طور پر محفوظ رہے۔ سو اس پرخطرمیدان میںان کے عزم اور استقامت کا اعتراف نہ کرنا بڑی بددیانتی کے زمرے میں آتاہے، تاہم ان کی بے شمار آراء سے اختلاف بھی یہ طالبعلم اپنا حق سمجھتاہے ۔ جے یوآئی کے اندر ویسے تومولانا شیرانی اپنے سیاسی اور مذہبی تفردات کا جابجااظہار کرنے میں بسا اوقات متنازعہ رہے تھے تاہم جماعت سے ان کی ناراضگی کا دورانیہ لگ بھگ چھ سال پر محیط ہے۔دو ہزار چودہ میں پارٹی اسٹبلشمنٹ نے مولانا شیرانی کی جگہ صوبہ بلوچستان میں ایک متبادل امیرلانے کو ضروری سمجھا،تب سے وہ پارٹی کے اندر ایک متوازی حلقے کی قیادت کیلئے کمربستہ ہوگئے تھے۔ شروع میں جے یوآئی بلوچستان کے حالیہ امیر اور ایم این اے مولانا عبدالواسع اور سابق سینیٹر حافظ حمداللہ اُن کے خاص مریدوں میں شامل تھے تاہم دوسال پہلے صوبائی امارت کے چناو کے موقع پر مولانا عبدالواسع مکمل طور پران سے کٹ گئے۔ کیونکہ اس خاص مرید کو اپنے مرشد کے مدمقابل میدان میں اتارکر بھاری اکثریت سے کامیاب بھی کروایاگیا۔دوسری طرف حافظ حمداللہ اگرچہ مولانا شیرانی کیلئے نرم گوشہ اب بھی رکھتے ہیں تاہم حال ہی میں وہ بھی ان کے سیاسی حلقے سے وہ بھی فرار ہوچکے تھے۔ پی ڈی ایم ، مولانا فضل الرحمن کے خلاف اوراسرائیل کے حق میںجن باتوں نے مولانا شیرانی کوچند روز پہلے اپنے ہی گھر سے نکالا، کیا یہ ان کااپنا نقطہ نظرتھایا اُن سے ایسی باتیں کہلوائی گئیں ؟ اس سوال کے جواب میں سردست میں واللہ اعلم کہنے کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا، کیونکہ نادیدہ قوتوں کے بارے میں مولانا شیرانی کی رائے ہمیشہ ناقدانہ بلکہ نہایت جارحانہ رہی ہے ۔آٹھ اگست ۲۰۱۶ کو کوئٹہ میں وکلاء برادری پر ہونے والے ظالمانہ حملے کے اگلے روز پارلیمینٹ میں ان کی گئی تقریر اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ کسی بھی حساس فلور پر طاقتور قوتوں کے خلاف بول سکتے ہیں۔البتہ پی ڈی ایم اوراپنی جماعت ہی کی قیادت کے خلاف صف آرا ہوکرمولانا شیرانی نے ایک نہیں بلکہ کئی نقصانات اٹھالیے۔ اول تو اس جماعت سے ان کے اخراج کا فیصلہ صادر ہوا جس میں ان کا بڑا طوطی بول رہاتھا۔لگ بھگ تیس برس تک وہ جماعت کی طرف سے ایک ایسے صوبے کے امیر رہے جہاں روزاول سے جے یوآئی غالب رہی ہے۔دوم ،اپنا وزن حکومت وقت کے پلڑے میں ڈال انہوں نے اپنے بیانیے کو کمزور کرکے رکھ دیا۔ گو کہ مولانا شیرانی کی سب سے بڑی شناخت یہی بیانیہ رہاتھا تاہم اب اگر وہ اسی بیانیے کے ساتھ کھڑے رہیں گے تو ان کی بات سنجیدہ کم اور مشکوک زیادہ لی جائے گی۔اسی طرح اسرائیل سے تعلقات کی بحالی کی تجویز دے کر مولانا شیرانی نے جے یوآئی کے علاوہ عام مذہبی حلقوں میں بھی اپنے لئے نفرت کا سامان کیا۔اس موقع پر اس طرح کی رائے کا اظہار اُن قوتوں کے حمایت کی دلیل ہے جو بظاہر اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کاراگ الاپ رہی ہیں اور درون خانہ تل ابیب کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہیں۔ مولانا شیرانی کے مذکورہ بیان کو لوگوں نے اس لئے بھی سنجیدہ لیاہے کہ انہوں نے اسرائیل کو غاصب ریاست کہنے کے بجائے الٹا اس کے دفاع میں تاویلات پیش کیں۔ دوسرا سوال : یہ کہ مولانا شیرانی اس جماعت کو کتنا نقصان پہنچا سکتاہے جس سے ان کا آب ودانہ تمام ہوگیاہے؟ سوال کا جواب دینا نظری نہیں بلکہ بدیہی ہے کیونکہ جز کا کُل پر اثر انداز ہونا اگرچہ ناممکنات میں سے نہیں ہے تاہم انتہائی مشکل ضرور ہے ۔ مولانا شیرانی خود بھی سیاست کی دنیا میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں اورپھر ان کے سامنے یہی جماعت متعدد دفعہ تقسیم کے عمل سے گزر چکی ہے لیکن بنیادی ڈھانچے پر چندان اثر نہیں پڑا ہے ۔مرحوم مولاناسمیع الحق گرو پ بھی ایک زمانے میں اسی جے یوآئی کا دست وبازو تھا، لیکن الگ راستہ اختیار کرکے اب اسی دھڑے پر دھڑے کا اطلاق بھی نہیں ہوسکتا۔ دس بارہ برس قبل جے یوآئی کی کھوکھ جمعیت نظریاتی نے جنم لیاتھا۔ حالیہ ایم این اے مولانا عصمت اللہ ، مرحوم حافظ فضل محمد بڑیچ اور مرحوم عبدالخالق بشردوست جیسے کٹرلوگوں کی قیادت میں صوبے کی تقریباً آدھی جماعت ’’نظریاتی ‘‘ کی صف میں شامل میں کھڑی ہوگئی تھی لیکن بعد میںاس دھڑے کے کارکنوں کے علاوہ قیادت کوبھی اصلی جماعت میں پناہ لینا ہونا پڑا۔ اسی حساب سے پی پی پی ، اے این پی اور دوسری جماعتوں سے ٹوٹے ہوئے دھڑوں میں سے کسی کی بیل بھی مینڈھے چڑھ نہ سکی ۔ ٭٭٭٭