قیام پاکستان کے بعد مولانا محمد صادق کی کاوشوں سے یہاں بھی جمعیت علماء ہند کے نہج پر ایک اور جمعیت کی داغ بیل ڈالی گئی۔ مولانا محمد صادق 1953 ء میں انتقال کرگئے اور ان کے وصال کے چند سال بعد اکتوبر 1956 کو ملتان میں علما کی ایک اکثریت کی موجودگی میں جے یو آئی پاکستان کی باقاعدہ تنظیم سازی کی گئی جس کے نتیجے میں مولانا احمدعلی لاہوری جے یوآئی پاکستان کے امیر جبکہ مولانا غلام غوث ہزاروی ناظم اعلیٰ اور مولانا مفتی محمود نائب منتخب ہوئے۔ خدا ان سب اکابرین ِجمعیت کو غریق رحمت کردے، جنہوں نے پوری زندگی جماعت کے اس نعرے ’’اللہ کی عبادت، رسول ؐ کی اطاعت، ہر ظالم سے بغاوت اور ہر مظلوم کی حمایت اور بلا تفریق پوری انسانیت کی خدمت‘‘ کی لاج رکھ دی۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہاہے کہ ’’پھراس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی‘‘ سچی بات یہ ہے کہ حضرت شیخ الہند، مولانا دہلوی اور مولانا مدنی کی یہ جماعت اب ڈی ریل ہوچکی ہے۔ دین دوستی مطمح نظر رہنے کی بجائے یہاں پر ایک طویل عرصے سے دنیاوی مفادات، ذاتی تشہیر، اقربا پروری اور خوشامد کا کھیل پوری آب وتاب کے ساتھ جاری ہے۔ جائیدادیں اور مال بنانا آج کل یہاں بھی کچھ مشکل کام نہیں رہا کیونکہ صوبائی اسمبلیوں کیلئے منتخب ہونے والے عام ایم پی ایز بھی راتوں رات کروڑ پتی اور وزارتوں کی ایک دو باریاں لینے والے بڑی آسانی کے ساتھ ارب پتی بن جاتے ہیں۔ لطف کی بات تویہ بھی ہے کہ بیت المال کو مال ِ غنیمت کی طرح لے اڑنے والے ان لوگوں کوصلے میں ’’محسن ِ دین اور مْحسن ِ بلوچستان‘‘ کے مایہ ناز القابات بھی ملتے ہیں۔ جس درویش صفت مفتی محمود کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کی جائز تنخواہ قبول کرنا بھی گوارا نہیں تھی، آج ان کے نام لیوا اور ورثاء ایک نئی دنیا میں جی رہے ہیں۔ جمعیت علمائے ہند اور مولانا مفتی محمود کے یہ وارث آج یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ سیکولر اور لادین قوتیں جے یو آئی سے خوف زدہ ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ سیکولر قوتوں سے اس جماعت کے رہنماوں کی کیا مراد ہے؟ اگر تو ذوالفقار علی بھٹو کی قائم کردہ پیپلز پارٹی ایک سیکولر پارٹی ہے، تو وہ کیونکر جمعیت علمائے اسلام سے خوف زدہ ہوگی؟ جتنا پیپلز پارٹی پٹڑی سے اتر چکی ہے اتنا ہی جے یو آئی اپنے منشور اور دستور سے منحرف نظر آرہی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی دو مرتبہ ایک مقتدر قوت کے طور پر ابھرکر سامنے آئی اور دونوں ادوار میں جمہوریت کے نام پر حتی الوسع قومی خزانے کو کھوکھلا کردیا۔ اسی حساب سے مولانا مفتی محمود کے بعد جے یو آئی کو ایک مرتبہ خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے کا موقع ملنے کے علاوہ یہ جماعت بلوچستان میں بھی کئی مرتبہ مخلوط حکومت میں شامل رہی ہے اورساتھ ساتھ مرکز ی دسترخوان سے بھی اس جماعت کے لوگ ہروقت مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ کہیں صوبے میں پوری اور کہیں آدھی حکومت لے اڑنے والے جے یوآئی کے ان وزراء کا اس طویل عرصے میں آخر ایسا کونسا مثالی کردار رہا ہے کہ جس سے سیکولر جماعتوں کو خوامخواہ پریشانی لاحق ہو۔ اسی جماعت کے ایک سرکردہ رہنما سے جب ان کی جماعت میں بدعنوانی کے بارے میں پوچھا گیا تو خود ان کا جواب یہ تھاکہ ’’ہاں جمعیت میں بھی بدعنوانی ہو رہی ہے البتہ دوسری جماعتوں کے مقابلے میں یہاں کم ہو رہی ہے‘‘۔ اس کا واضح مطلب یہی لیا جاسکتا ہے کہ اس حمام میں اس جماعت کے وزراء صاحبان بھی ڈھکے ہوئے نہیں ہیں۔ موصوف رہنما کے اس اعترافی جملے میں ’’دوسری جماعتوں‘‘ سے مراد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن جیسی جماعتیں ہی ہوسکتی ہیں جنہیں دو دو اور تین تین مرتبہ پورے ملک کی حکمرانی مل چکی ہے۔ گو کہ حکمران جماعت بننے کی صورت میں جے یو آئی میں بھی اس کی حریف جماعتوں کی طرح بدعنوانی اور لاپرواہی کا قوی امکان موجود ہے۔جے یو آئی، سیکولرز کی انٹرا پارٹی الیکشن میں بے اعتدالیوں کو بھی بے انصافی سمجھتی ہے لیکن کوئی تو ہمیں بھی سمجھا دے کہ دین کے نام پر سیاست کرنے والی اس جماعت میں اس برائے نام شورائی نظام کو عملی جامہ درخور اعتنا کبھی سمجھا نہیں گیا ہے؟ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی طرح جے یو آئی بھی ایک موروثی جماعت ہی تو ہے۔ جس طرح پیپلز پارٹی پر بھٹو خاندان کی اجارہ داری اور بعد میں قحط ِ رجال کے باعث بھٹو زرداری خاندان کی بیک وقت اجارہ داری قائم ہے، مِن و عن جے یو آئی کی قیادت بھی مولانا خاندان کے گرد گھومتی رہی ہے۔ جس طرح مسلم لیگ ن کی قیادت سے میاں نواز شریف منہا ہونے کی صورت میں اْن کا برادر شہباز یا دخترِ مریم اس جماعت کے مطلق العنان قائدین ہونگے، اسی طرح مولانا صاحب کے بھی بعد یہ سلسلہ اسعد محمود جیسے فرزندوں کی طرف منتقل ہوگا۔ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ طاقت کا سرچشمہ عبدالخیل (ڈی آئی خان) سے بلوچستان اورسندھ کے کسی اہل مولانا کو منتقل کیا جا سکے؟ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ جے یو آئی میں سوائے مولانا محمدخان شیرانی کے سوا کسی نے اس موروثیت کو شورائیت میں بدلنے کا مطالبہ کیا ہو۔ بلکہ مولانا محمدخان شیرانی نے بھی اس خاندانی اجارہ داری کے خاتمے کا مطالبہ ایک ایسے وقت میں شروع کیا جب بلوچستان کی صوبائی امارت کے مسئلے پر مولانا فضل الرحمن سے ان کے اختلافات پیدا ہوئے۔ کون نہیں جانتاکہ اقتدار کے مہ و سال میں اس جماعت کے وزراء صاحبان نے میرٹ کا ایک کڑا نظام وضع کرنے کی بجائے سفارشات اور عزیز و اقارب کی خاطر مدارات کو ملحوظ رکھا۔یہاں یہ بتاتا چلوں کہ جمعیت علماء اسلام کے ساتھ خود میرا بھی پرانا تعلق رہا ہے۔ اپنی زندگی کے کم وبیش سولہ سترہ برس اس جماعت کے جلسوں، جلوسوں اور انتخابی مہمات میں لٹا دیئے۔خدا گواہ ہے کہ ان سطور کے لکھنے سے نہ تو کسی کی دل آزاری مقصود ہے اور نہ ہی کسی سے انتقام، بلکہ مطلق یہ التجا کرنا تھا کہ خدارا دین کے مقدس نام پر دنیوی مفادات سمیٹنے کا یہ کھیل بند کیا جائے۔