لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ‘سانحہ بلدیہ فیکٹری آتشزدگی اور نثار ڈاکٹر مورائی کے متعلق جوائنٹ انوسٹی گیشن رپورٹس عام کر دی گئی ہیں۔ یہ رپورٹس محکمہ داخلہ سندھ کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔ ان رپورٹس سے خوفناک صورت حال کا کچھ حصہ منکشف ہوتا ہے ۔عزیر بلوچ نے جے آئی ٹی کے روبروبہت سے افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ وہ پہلی بار 2006ء سے 2008ء کے درمیان مختلف جرائم میں سزا کے باعث جیل میں رہا۔ 2013ء میں عزیر بلوچ کراچی سے ایران گیا اور وہاں سے دوبئی پہنچ گیا۔ پیشے کے اعتبار سے ٹرانسپورٹر عزیر بلوچ 30جنوری 2016ء کو بلوچستان کے راستے کراچی میں داخل ہوتے رینجرز کی گرفت میں آ گیا۔ عزیر بلوچ کی سیاسی رہنمائوں کے ساتھ ملاقاتوں اور قریبی تعلقات کے حوالے سے کئی بار رپورٹس ذرائع ابلاغ میں نمایاں جگہ پاتی رہیں تاہم اس سلسلے میں جے آئی ٹی رپورٹ میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔ 2013ء میں حکومت تبدیل ہونے کے بعد عزیز بلوچ کو خطرات محسوس ہوئے۔ کراچی میں پاک فوج کی نگرانی میں خصوصی آپریشن شروع ہوا تو وہ جعلی پاسپورٹ پر ایران فرار ہو گیا۔ بلوچستان کے ایک بااثر شخص کی مدد سے وہ ایرانی انٹیلی جنس اہلکاروں سے ملا۔ عزیر بلوچ نے ان اہلکاروں کو پاکستان کے متعلق بعض حساس معلومات فراہم کیں۔ جے آئی ٹی نے عزیر بلوچ کو دو سو کے لگ بھگ افراد کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے‘ پولیس ‘ رینجرز اہلکاروں پر حملے اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کا جرم اس نے قبول کیا ہے‘ ملزم نے دوبئی اور پاکستان میں بلیک منی سے متعدد اثاثے بنائے ہیں۔ اسکے قبضے سے ایران کی غیر قانونی دستاویزات ملی ہیں۔ عزیر بلوچ ہتھیاروں کی غیر قانونی خریداری میں ملوث رہا ہے اور دھماکہ خیز مواد خریدا۔ بھتہ خوری‘ زمینوں پر قبضے‘ منشیات اور چائنا کٹنگ کے جرائم کا مرتکب ہوا۔ سانحہ بلدیہ ٹائون 11ستمبر 2012ء کو ہوا۔ ایک بڑی گارمنٹس فیکٹری کو آتشگیر مادہ پھینک کر نذر آتش کر دیا گیا۔ فیکٹری کے اندر 259مرد و خواتین جل کر جاں بحق ہوئے جبکہ 50جزوی طور پر جھلسے۔ جے آئی ٹی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک بڑی سیاسی جماعت کے عہدیدار حماد صدیقی نے مالکان سے 20کروڑ روپے کا بھتہ طلب کیا۔ رقم نہ ملنے پر فیکٹری کو مزدوروں سمیت جلانے کا کام اصغر بھولا اور اس کے ساتھیوں نے انجام دیا۔ رپورٹ بتاتی ہے کہ پارٹی قیادت کے حکم پر ایم کیو ایم کے ایک سابق وزیر تھانے گئے اور الٹا فیکٹری مالکان کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی۔ جے آئی ٹی نے اس رپورٹ میں انتظامی سطح پر ان رکاوٹوں کو بھی بیان کیا ہے جو تحقیقات کے دوران اس کے سامنے آئیں۔ بعد میں مالکان پر دبائو ڈال کر ایم کیو ایم نے ایک معاہدہ کیا اور چھ کروڑ کے لگ بھگ رقم متاثرین کے نام پر وصول کی ۔ یہ رقم پارٹی کارکن صدیق حسن قادری کے اکائونٹ میں ٹرانسفر کرائی گئی۔ جے آئی ٹی نے حماد صدیقی اور رحمان بھولا کو اس سانحہ کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر نثار مورائی کے متعلق الگ سے قائم جے آئی ٹی کا کہنا ہے کہ نثار مورائی نے مالیاتی جرائم بے خوف ہو کر کرنے کے لئے سیاسی شخصیات سے مضبوط تعلقات استوار کئے۔ نثار مورائی غیر قانونی اسلحہ کے لین دین‘ بھتہ خوری‘ خطرناک نتائج کی دھمکیاں دینے‘ گھوسٹ ملازمین کی بھرتی اور عزیر بلوچ کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں مطلوب تھا۔ مختلف بھیانک جرائم اور جرائم پیشہ افراد کے متعلق جے آئی ٹیز کی یہ رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بااثر گروہوں کے سامنے مفلوج ہو چکے ہیں۔2014ء میں لاہور میں عوامی تحریک سیکرٹریٹ کے سامنے پولیس کے ہاتھوں 14کارکن مارے گئے۔ اس پر جے آئی ٹی بنی اور پھر ایک اور جے آئی ٹی بنا دی گئی جس کی رپورٹ لاہور ہائی کورٹ میں پیش نہ کئے جانے پر چار دن قبل عدالت عالیہ کے سات رکنی بنچ نے برہمی کا اظہار کیا۔ چھ سال گزرنے کو ہیں اور جاں بحق ہونے والوں کو انصاف کا نہ ملنا حکومتوں اور متعلقہ اداروں کی ناکامی کا ثبوت ہے۔جے آئی ٹی رپورٹس ملاحظہ کرتے ہوئے حکومت اس امر کو یقینی بنائے کہ جو تحقیقات پیش کی گئی ہیں ان کے مطابق ملزمان کو سزا دلانے کے لئے مفلوج نظام کو فعال بنایا جائے اور جس جگہ حکومتی توجہ سے اصلاح احوال کی گنجائش ہے وہاں خرابیاں دور کرنے کے لئے مرکزی اور صوبائی حکومتیں اپنا کردار ادا کریں۔ جے آئی ٹی رپورٹس حقائق تک غیر جانبدارانہ رسائی کا ذریعہ ہیں۔ ان رپورٹس میں پیش کئے گئے حقائق کا بڑا حصہ طاقتور ملزمان اور ان کے سرپرستوں کے اثرورسوخ سے محفوظ سمجھا جاتا ہے اس لئے عوامی حلقے جب پولیس اور مقامی انتظامیہ کی بجائے کسی اہم معاملے میں جے آئی ٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کرتے ہیں تو اس کے پس پردہ ان کا بھروسہ محرک کا کردار ادا کر رہا ہوتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں بااثر افراد اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے ہر سطح پر سرگرم رہتے ہیں۔ اسی لئے انہیں سزا مل پاتی ہے نہ شہریوں کو ان کے جرائم سے امان ملتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہزاروں رکاوٹوں کے بعد اگر جے آئی ٹی رپورٹس عام کر دی گئی ہیں تو موثر اور منظم طریقے سے قصور وار افراد کے خلاف عدالتوں میں تیز رفتار مقدمات چلائے جائیں۔ عوام کا نظام پر اعتماد بحال کرنے کے لئے تحقیقات کافی نہیں بلکہ بھیانک جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دلانا ہو گی۔ دوسری طرف متعلقہ اداروں کو وفاقی وزیر علی زیدی کے اٹھائے ان اعتراضات کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے جن میں انہوں نے سندھ حکومت کی جاری رپورٹس کو جعلی اور تحریف شدہ قرار دیا ہے۔ اگر رپورٹس تبدیل کی گئی ہیں تو یہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ جسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔