حضرت حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی رحمۃ اﷲ علیہ 22 صفر المظفر 1233 ہجری بمطابق 31 دسمبر 1817 ء کو ہندوستان کے ضلع سہارنپور کے ایک نانوتہ نامی قصبہ میں پیدا ہوئے جو آپ کے ننھیال کا علاقہ ہے ۔آپ کے تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ والد ماجد نے آپ کا نام’’ امداد حسین ‘‘ رکھا بعد میں حضرت شاہ محمد اسحاق دہلوی اور حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی نے تبدیل کر کے ’’ امداد اﷲ‘‘ تجویز کیا۔’’ ظفر احمد ‘‘آپ کا تاریخی نام ہے ، آبائی وطن تھانہ بھون ضلع مظفر نگر اتر پردیش تھا، آپ کے والد گرامی کا نام حافظ محمد امین اور والدہ ماجدہ حضرت بی بی حسینی جو شیخ علی محمد صدیق کی دختر تھیں۔ ددھیال کی طرف سے آپ کا نسب امیر المومنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ سے ملتا ہے اور ننھیال کی جانب سے خلیفہ اول امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ پر منتہی ہوتا ہے (نوادر ِامدادیہ:پروفیسر نثار احمد فاروقی) سات سال کی عمر میں آپ کی والدہ ماجدہ انتقال کر گئیں، وقت وفات آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کے متعلق وصیت فرمائی کہ میرے اس بچے کو میری وفات کے بعد لاڈ پیار سے رکھا جائے اس لئے ابتدا ئی دینی تعلیم کی طرف کوئی باقاعدہ توجہ نہ دی جا سکی چونکہ آپ کے وسیلہ سے لوگوں کی اصلاح مقصود تھی اس لیے آپ نے اپنے ذاتی شوق کے باعث قرآن مجید حفظ کرنا شروع کر دیا دوران حفظ بعض موانع ایسے پیش آئے کہ اپنے گاؤں میں اس کی تکمیل نہ ہو سکی، بہر حال مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران اسکی تکمیل ہو گئی، سولہ سال کی عمر میں آپ دہلی تشریف لائے اور وہاں چند مختصرات فارسی اور صرف ونحو کی تعلیم حاصل کی ،حضرت مولانا رحمت علی صاحب تھانوی سے تکمیل الایمان حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی کی قرأت اخذ فرمائی۔ اٹھارہ ،انیس سال کی عمر میں حدیث شریف کے مطالعے کا ذوق پیدا ہوا تو مشکوۃ کا ایک چوتھائی حصہ مولانا محمد قلندر محدث جلال آبادی سے پڑ ھا ،ان سے ہی کافیہ کا درس بھی لیا فقہ میں حصن حصین اور فقہ اکبر مولانا عبد الرحیم نانوتوی سے پڑھیں ۔صاحب نوادر امدادیہ لکھتے ہیں کہ حضرت کا کتابی علم اتنا ہی تھا مگر قرآنی آیات،احادیث، مثنوی مولانا روم رحمۃ اﷲ علیہ کے اشعار اور وحدت الوجود کے مسائل کی تشریح نیز سلوک کی اصطلاحوں کی تشریح میں ایسے لطیف نکتے بیان فرماتے تھے کہ بڑے بڑے عالموں کو حیرت ہوتی تھی آپ کی تعلیم ابھی پوری نہ ہوئی تھی کہ طبیعت کا میلان سلوک و تصوف کی طرف ہوا، حضرت حاجی صاحب سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ میں حضرت مولانا نصیرالدین حنفی نقشبندی مجددی دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور اذکار طریقہ نقشبندیہ مجددیہ اخذ فرمائے اور چند دن تک اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر رہ کر اجازت و خرقہ سے مشرف ہوئے ۔’’ امداد المشتاق‘‘ اور’’ نوادر امدادیہ‘‘ میں ہے کہ آپ کی ابھی روحانی تشنگی باقی تھی اور تکمیل سلوک کا تقاضا طبیعت میں موجود تھا کہ ایک رات کو آپ نے خواب میں دیکھا کہ حضور رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس مبارک میں پہنچ گئے ہیں مگر ایسا رعب غالب ہے کہ قدم نہیں اٹھ رہے ہیں اس وقت آپ کے جد امجد حافظ بلاقی رحمۃ اﷲ علیہ تشریف لائے اور انھوں نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر رسول اﷲ علیہ الصلاۃ والسلام کی خدمت بابرکت میں پیش کر دیا ہے ، حضور نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حضرت میاں جی نور محمد جھنجھانوی رحمۃ اﷲ علیہ حاضر ہیں رسول اﷲ علیہ الصلاۃ والسلام نے حاجی صاحب کو ان کے حوالے کر دیا ،اس وقت تک آپ نے میاں جی نور محمد کو دیکھا بھی نہ تھا نہ ان کی شخصیت سے کوئی تعارف تھا آپ فرماتے ہیں کہ جب میں بیدار ہوا تو عجیب انتشار و حیرت میں مبتلا ہوا کہ یا رب یہ کون بزرگوار ہیں کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے میرا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیا اور خود مجھے ان کے سپرد فرمایا اسی طرح کئی سال گزر گئے ایک دن حضرت استاذ مولانا محمد قلندر محدث جلال آبادی نے میرے اضطرار کو دیکھ کر بکمال شفقت و عنایت فرمایا کہ تم کیوں پریشان ہوتے ہو موضع لوہاری یہاں سے قریب ہے وہاں جا کر میاں جی نور محمد سے ملو شاید تمھارا مقصود حاصل ہو جائے ،آپ پیدل ہی لوہاری کی طرف روانہ ہو گئے اور اس مسجد میں پہنچے جہاں میاں جی بچوں کو پڑھایا کرتے تھے جیسے ہی ان کے چہرہ مبارک پر نظر پڑی آپ کو اپنے خواب کی تعبیر سمجھ میں آ گئی فوراً ان کے قدموں میں گر پڑے حضرت میاں جی نور محمد نے دونوں ہاتھوں سے آپ کا سر اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا اور فرمایا تمہیں اپنے خواب پر پورا یقین ہے حاجی صاحب نے حضرت میاں جی کی خدمت میں رہ کر خاص طور پر سلسلہ چشتیہ صابریہ ہادویہ کے سلوک کی تکمیل کی دوسرے سلاسل کی بھی عمومی اجازت لی مگر سلسلہ چشتیہ صابریہ کی خلافت و اجازت خاصہ مرحمت فرمائی ،خلافت دیتے ہوئے حضرت میاں جی نے بطور امتحان آپ سے پوچھا کیا چاہتے ہو تسخیر یا کیمیا؟ جو تمھیں مطلوب ہو وہ دوں حاجی صاحب یہ سن کر رونے لگے اور عرض کیا حضرت میں نے آپ کا دامن دنیا کی طلب میں نہیں خدا کی تلاش کے لئے تھاما تھا وہی میرے لیے بس ہے حضرت میاں جی بہت خوش ہوئے اور آپ کے لیے بہت ساری دعائیں دیں ۔ آپ کے تذکرہ نگاروں نے لکھا : 1260ہجری میں آپ نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو خواب میں دیکھا حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا تم ہمارے پاس آؤ اس خواب کے بعد دل میں در حبیب کی حاضری کا شوق اس قدر بڑھ گیا کہ زاد راہ کی فکر کے بغیر آپ مدینہ منورہ کی طرف چل پڑے ، 1261 ہجری کو بذریعہ جہاز مکہ مکرمہ پہنچے مکہ معظمہ میں حضرت مولانا محمد اسحاق محدث حنفی دہلوی ثم مالکی اور حضرت عارف باﷲ سید قدرت اﷲ حنفی بنارسی ثم مالکی سے مستفیض ہو ئے ، دونوں حضرات اپنے وقت میں بڑے صاحب کشف و کرامت بزرگ مشہور تھے ، چونکہ مقصود سفر حاضری بارگاہ رسالت تھی اس لئے دونوں مذکورہ بزرگوں نے اپنے چند بدوی مریدین کی ڈیوٹی لگائی کہ حاجی صاحب کو بحفاظت تمام مدینہ منورہ لے جاؤ اور دوران سفر انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے ، مدینہ منورہ پہنچ کر آپ نے بارگاہ رسالت مآب علیہ الصلاۃ والسلام میں ہدیہ صلاۃ وسلام پیش کیا اور دل میں خیال آیا کہ اگر کوئی عامل کامل و عارف واصل میری طلب کے بغیر درود تنجینا پڑھنے کی اجازت دے تو بہت بہتر ہوچناں چہ اﷲ تعالیٰ کا کرنا ایسا ہی ہوا حضرت شاہ گل محمد خان رامپوری رحمۃ اﷲ علیہ جو کہ عرصہ تیس سال سے روضہ اقدس پر مجاور تھے ان سے ملاقات کی اور دیگر کئی فوائد کے علاوہ حضرت گل محمد خان صاحب نے بغیر طلب کے درود تنجینا کے ورد کی اجازت دی کہ ہر روز اگر ممکن ہو ایک ہزار بار ورنہ تین سو ساٹھ بار پڑھا کرو اور اگر اس قدر میں بھی وقت نہ ہو تو اکتالیس بار تو ضرور پڑھا کرو اور ہر گز ناغہ نہ ہونے پائے کہ اس میں بہت سے فوائد ہیں۔آپ رحمۃ اﷲ علیہ 13 جمادی الثانی 1317 ھ مطابق 1899 ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے مکہ معظمہ کے مشہور قبرستان جنت المعلی میں آرام فرما میں۔’’ امداد المشتاق‘‘میں ہے کہ حاجی صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کو اﷲ کے ذکر سے بہت لگاؤ تھا اور بڑے سوز کے ساتھ ذکر الٰہی کرتے تھے اس لئے آپ نے انتقال کے وقت مولوی محمد اسمعیل صاحب بن ملا نواب صاحب کو وصیت فرمائی کہ میرے جنازے کے ساتھ ذکر جہر ہوتا رہے مولوی صاحب نے کہا کہ حضرت یہ تو نامناسب معلوم ہوتا ہے مگر جب آپ کا جنازہ اٹھا تو ایک عرب کی زبان سے نکلا مالکم ساکتین اذکروااﷲ یعنی خاموش کیوں ہو اﷲ کا ذکر کرو تو سب ہمراہیوں نے ذکر جہر شروع کر دیا۔( امداد المشتاق ، نوادرِ امدادیہ )