’’ایک زمانہ تھا جب میرا زیادہ تر وقت گھر کی بجائے سڑکوں پر گزرتا تھا۔ میں ان دنوں سکول میں پڑھتا تھا اور شاعری بھی کرنے لگا تھا۔ شاعری‘ مطالعہ اور سکول کی پڑھائی کے لئے جتنے صبر و تحمل کی ضرورت تھی‘ میرا دامن اس سے خالی تھا۔ سکول سے ملنے والے کام کرتے ہوئے مجھ سے زیادہ دیر بیٹھا نہ جاتا۔ کبھی پیچ و تاب کھاتا‘ کبھی کسمساتا ‘ کبھی اٹھ کھڑا ہوتا اور موقع ملتے ہی باہر نکل جاتا۔ آج بھی مجھ میں صبر و تحمل اور انہماک کی کمی ہے۔‘‘ ’’ایک دن کا ذکر ہے ابا نے مجھے تاکید کی کہ میں بیٹھ کر اپنا کام پورا کروں۔ اب مجھے یاد نہیں کہ مجھے سکول کا کام کرنا تھا یا کوئی نظم لکھنی تنی۔ بہرحال اباّ ایک لمحے کے لئے کمرے سے باہر چلے گئے۔کمرے کا دروازہ بند ہوتے ہی میں اٹھ کھڑا اور فوراً گھر کی چھت پر پہنچ گیا۔ ابانے مجھے چھت پر دیکھا اور اماں سے پکار کر کہا: ’’کھونٹی پر جو رسی لٹک رہی ہے‘ ذرا اُسے ادھر تو لانا!‘‘ ’’اس کی کیا ضرورت ہے‘‘ ’’رسول(حمزہ توف) کو رسی سے جکڑنا ہے‘ اس کے بغیر بات نہیں بنے گی۔‘‘ اس کے بعد ابا نے بڑی خاموشی کے ساتھ مجھے کرسی سے جکڑ دیا‘ پھر اپنی انگلیوں سے میری پیشانی تھپتھپائی اور بولے: ’’تمہارے دماغ میں جو کچھ ہے اسے اس پر منتقل کر دو‘‘۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے سامنے رکھی کاپی کی طرف اشارہ کیا۔ ’’دماغ لاکھ کرتا رہے‘ اگر اس کے ساتھ ساتھ ہاتھ حرکت میں نہیں آتے تو دماغ کی مشقت اسی طرح ہے جیسے کسی ہوا چکی کے بازوئوں کی حرکت: بازو لاکھ چکر لگاتے رہیں اگر اناج نہ پیستے ہوں تو ان چکروں سے کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ ’’کچھ دنوں پہلے کی بات ہے ۔ حنزہ میں شانگری نام کا ایک آدمی تھا جو امیر بھی تھا اور جس کی عزت بھی بہت تھی۔ اس کا ایک ہی بیٹا تھا: بڑا کاہل اور متلون مزاج۔ شانگری چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا بھی گائوں کے دوسرے لوگوں کی طرح کام کرے اور صحیح معنوں میں انسان بنے مگر بیٹا کام کی طرف توجہ دینے پر تیار ہی نہ ہوتا تھا۔ ادھر باپ کے اعزا اور دوست اسے طرح طرح کے تحفوں سے نوازتے رہتے؛ کوئی گھوڑا دے رہا ہے‘ کوئی کوٹ لیے چلا آ رہا ہے‘ کسی نے پیسے دیے‘ کسی نے بالکل نیا اور چمچماتا خنجر حوالے کر دیا۔‘‘ ’’پھر ایک دن شانگری بیمار پڑا اور مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ ایک دن سارے عزیز اور دوست اس کے اردگرد جمع ہوئے۔ ’’ہمیں بتائو کہ تمہاری صحت یابی کے لئے کیا کیا جائے؟‘‘ ان سب نے پوچھا۔ ’’میں اچھا ہو سکتا ہوں تو صرف ایک چیز سے‘ مگر وہ تم میں سے کسی کے بس میں نہیں۔‘‘ ’’ہمیں بتائو تو‘ ہم اپنا پورا زور لگا دیں گے!‘‘ جواب ملا۔ ’’میں اچھا اسی وقت ہو سکتا ہوں جب میرا بیٹا پانچ روبل کما کر لائے اور مجھ سے کہے:ابا! یہ آپ کے ہیں۔ آپ انہیں رکھ لیجیے۔‘‘ دو دن کے بعد اس کا بیٹا اس کے پاس آیا اور پانچ روبل کا ایک نوٹ دیتے ہوئے بولا: ’’اباّ !یہ رکھ لیجیے۔ میں نے کوئیسو کی آوارگھاٹی میں لٹھے بہا کر یہ پیسے کمائے ہیں۔‘‘ باپ نے نوٹ کو دیکھا‘ بیٹے پر نظر ڈالی اور نوٹ آتش دان میں جھونک دیا۔ بیٹا دم بخود کھڑا رہا۔ اس کا چہرہ اُتر گیا تھا‘ جیسے کسی نے اسے طمانچے لگائے ہوں۔ بات یہ تھی کہ یہ نوٹ اس کے ایک چچا نے شانگری کی خواہش کے بارے میں سُن کر بطور امداد دیا تھا۔‘‘ ’’پھر کئی دن بیت گئے۔ ایک دن بیٹا پانچ روبل کا نوٹ لئے دوبارہ باپ کے پاس پہنچا۔ ’’گونیب میں نئی سڑک کی تعمیر ہو رہی ہے‘ میں نے مزدوری کر کے یہ رقم کمائی ہے۔‘‘ باپ نے اب کے بھی نوٹ کو اور پھر بیٹے کو دیکھا او رنوٹ کو توڑ مروڑ کر کھڑکی سے نیچے پھینک دیا۔ بیٹا دم سادھے کھڑا رہا۔ یہ نوٹ اسے باپ کے گوتسالی والے دوست نے دیا تھا۔‘‘ کچھ دنوں بعد بیٹا باپ کے پاس آیا‘ ہاتھ میں پانچ روبل کا نوٹ لئے۔ اس بار باپ نے بیٹے کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ ہاتھ سے نوٹ لے کر اس کے دو ٹکڑے کر دیے۔ بیٹے نے باز کی طرح جھپٹ کر نوٹ کے ٹکڑے باپ سے چھین لئے اور ان کو جوڑنے کی کوشش کرنے لگا۔ ’’کیا میں نے پتر ووسک میں اصطبلوں کی صفائی کر کے یہ نوٹ اسی لئے حاصل کیا تھا کہ آپ ردی کاغذ کی طرح اُسے پھاڑ کر پھینک دیں؟‘‘ وہ چلا اٹھا۔’’ذرا میرے ہاتھوں میں پڑے ان گھٹوں کو تو دیکھیے۔‘‘ ’’ہاں !اب مجھے یقین آ گیا کہ یہ پیسے خود تم نے کمائے تھے۔‘‘ شانگری میں جان آ گئی اور وہ دھیرے دھیرے سے اچھا ہونے لگا اور ایک دن اپنے پیروں پر کھڑا ہو گیا۔ جی ہاں‘‘‘ ابو طالب نے مجھے ایک کہانی سنائی تھی۔کمہاروں نے اپنے برتن بڑے بڑے جھابوں میں سجائے اور پھر ان کو اپنے گدھوں اور خچروں کی پیٹھوں پر یوں لادا کہ برتن دونوں طرف برابر سے جھول گئے۔ اس اہتمام کے بعد وہ مٹی کے برتن بیچنے شہر کی طرف چل پڑے۔ راستے میں انہیں گائوں کے شرارتی لڑکوں کا ایک گروہ ملا۔ …کمہارو!کہیں دُور جا رہے ہو؟‘‘ ’’برتن بیچنے بازار جا رہے ہیں۔‘‘ ’’ان برتنوں کی قیمت کیا ہے؟‘‘ ’’چھوٹے برتنوں کی قیمت 20کوپک ہے اور بڑے برتنوں کی 5کوپک۔‘‘ ’’یہ کیوں؟‘‘ ’’اس لئے کہ چھوٹے برتن بنانا زیادہ مشکل کام ہے۔‘‘ لڑکوں نے سارے برتن خرید لئے۔ کمہاروں نے گدھوں اور خچروں کا رُخ گھر کی طرف موڑتے ہوئے لڑکوں سے کہا: ’’تمہیں یہ برتن پسند آئیں گے۔ یہ بڑے مضبوط بنے ہیں‘ اتنے مضبوط کہ تمہارے پوتوں کے کام بھی آ سکتے ہیں۔‘‘ ’’یہ کہہ کر کمہار پہاڑوں کی طرف چل پڑے۔ ایک چوٹی پر پہنچ کر انہوں نے دَم لینے کا ارادہ کیا۔ وہاں سے انہوں نے نیچے اس راستے پر نظر دوڑائی جس سے گزر کر وہ یہاں تک پہنچے تھے اور تب انہوں نے دیکھا کہ گائوں کے وہ لڑکے ‘ جنہوں نے ان کے خوبصورت برتن خریدے تھے‘ کس طرح کے کھیل میں مصروف ہیں۔ انہوں نے کھائی کے سرے پر ایک ایک کر کے وہ برتن رکھ دیے جو انہوں نے خریدے تھے اور پھر 20-20قدم پیچھے ہٹ گئے اور پتھر اٹھا کر انہیں اپنا نشان بنانے لگے۔ غالباً مقابلہ یہ ہو رہا تھا کہ کون کتنے برتن توڑتا ہے۔ برتن ٹوٹتے تو آواز سی ہوتی اور پھر ان کے ٹھیکرے نیچے کھائی میں بکھر جاتے۔ لڑکوں کو اس میں بڑا مزہ آ رہا تھا۔‘‘ ’’یہ دیکھ کر سب کمہار ایک ساتھ چیخ پڑے: ’’بدمعاشو! بند کرو یہ کھیل۔ ہم نے اپنے بہترین برتن تمہارے ہاتھ بیچے تھے اور تم نے ان کا حشر کیا۔ لعنت ہو تم سب پر۔‘‘ کمہار اپنے خنجر چمکاتے دوڑتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔ ’’ناراض کیوں ہو رہے ہو؟ تم لوگوں نے برتن بیچ دیے‘ ہم نے پیسے دے کر خرید لئے‘اب یہ برتن ہماری ملکیت ہیں‘ ہم ان کا جو چاہیں کریں‘ تمہیں اس سے کیا مطلب۔ یہ ہماری مرضی ہے ‘ ہم انہیں توڑ دیں‘ گھر لے جائیں یا کالے چور کو دے دیں۔‘‘ ’’برتنوں کی فکر ہمیں نہ ہو گی تو پھر کسے ہو گی؟ ہم نے برتن بنانے سے پہلے مٹی تیار کی اور یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ پھر ہم نے جی جان لگا کر اس مٹی کو برتنوں کی شکل دی تاکہ لوگ دیکھیں اور ہمارے فن کی داد دیں۔ ہم نے سمجھا تھا کہ لوگ انہیں دیکھ کر خوش ہوں گے‘انہیں حسن و مسرت کا احساس ہو گا۔ جب ہم نے تم لوگوں کے ہاتھ برتن بیچے تھے تو ہم نے کچھ اس طرح سوچا تھا کہ تم کسی کوزے میں مہمان کو بوزا پلائو گے‘ کسی مٹکے میں پہاڑی چشمے کا ٹھنڈا پانی جمع کروں گے اور کسی گملے میں ایسا پیڑ لگائو گے جس میں خوب صورت اور رنگا رنگ پھول کھلیں گے۔ اور بدمعاشو!تم نے انہیں ریزہ ریزہ کر دیا۔ اس کھائی میں برتنوں کے ٹکڑے نہیں بکھرے ہیں‘ تم لوگوں نے ہمارے کام‘ ہماری محنت اور ہمارے خوابوں کی دھجیاں بکھیر دی ہیں۔ تم نے ہمارے برتنوں پر اسی طرح پتھر چلائے ہیں جس طرح بے وقوف بچے کسی خوب صورت اور خوش الحان چڑیا پر پتھر چلاتے ہیں۔‘‘(روسی ادیب رسول حمزہ توف کی کتاب’’میرا داغستان سے‘‘)