28سال۔۔۔ جی ہاں پورے 28سال بعد۔۔۔ سپریم کورٹ میں ایئر مارشل (ر) اصغر خان کیس میں۔۔۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی کے حلف نامے میں دئیے گئے 31 ناموں کی آواز لگ رہی تھی۔۔۔ سپریم کور ٹ کا کورٹ نمبر 2کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔۔۔ بڑا ڈرامائی ماحول تھا۔ حلف نامے میں دی گئی 31شخصیات میں سے صرف دو موجود تھیں۔۔۔ ایک مشہور زمانہ باغی مخدوم جاوید ہاشمی اور دوسرے ریٹائرڈ جنرل اسلم بیگ۔۔۔ آوازیں لگنا شروع ہوئیں تو بیشتر کے بارے میں جواب آیا۔۔۔ مرحوم ہوگئے۔۔۔ جبکہ بقیہ کے وکیل پیش ہوگئے۔ ایئر مارشل (ر) اصغر خان مرحوم کے نام سے یہ منصوب کیس بڑی تاریخی نوعیت کا حامل ہے‘ گزشتہ 28برسوں میں بڑے بڑے نامی گرامی چیف جسٹس گزرے۔۔۔ مگر کسی نے بھی اسے انجام تک نہیں پہنچایا۔ اب 28سال بعد اس کی بازگشت سنائی دے رہی ہے تو اس کی ٹائمنگ بڑی اہم ہے۔۔۔ کہ الیکشن کے بیچ ہی یہ پینڈورا بکس اس زور و شور سے کیوں کھولا گیا۔ کسی سازشی قصہ کہانی میں جائے بغیر میں آپ کو سپریم کورٹ کی بدھ 7جون کی کارروائی کی جانب لئے چلتا ہوں۔۔۔ جب اٹارنی جنرل پاکستان محترم اشتر اوصاف علی بھی ایک ایک نام کی آوازیں لگا رہے تھے تو اس پر محترم چیف جسٹس کی جملے بازیاں۔۔۔ کورٹ روم میں پھلجڑیاں چھوڑ رہی تھیں۔ مگر ہاں پہلے ذکر مخدوم جاوید ہاشمی کا کردوں جن کی موجودگی پر محترم چیف جسٹس نے خوب خوب داد دی۔۔۔ اٹارنی جنرل نے پہلا نام سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا لیا۔۔۔ جن پر 35لاکھ روپے لینے کا الزام ہے اور پھر خود ہی وضاحت کی کہ نیب کیس میں حاضری کے سبب غیر حاضر ہیں۔۔۔ چیف جسٹس کا جواب تھا اگلی پیشی میں حاضری لازمی بنائے جائے۔ جتوئی 50لاکھ۔۔۔ اٹارنی جنرل نے آواز لگائی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کون سے جتوئی۔ جوا ب آیا غلام مصطفیٰ جتوئی جو مرحوم ہوچکے ہیں۔۔۔ آواز لگی پیر صاحب پگاڑا۔۔۔ 50لاکھ۔۔۔ فوت ہوچکے ہیں۔ جام صادق علی۔۔۔ 30لاکھ۔۔۔ فوت ہوچکے ہیں۔ کاکڑ۔۔۔ 20لاکھ۔۔ اٹارنی جنرل ، چیف جسٹس نے پوچھا، کون سا کاکڑ؟ جواب آیاسرور کاکڑ ، رکن بلوچستان اسمبلی۔۔۔ فوت ہوچکے ہیں۔۔۔ جمالی۔۔۔ 30لاکھ۔۔۔ کو ن سے جمالی؟ چیف کا استفسار۔ ظفر اللہ خان جمالی۔ اٹارنی جنرل کا جواب۔ نوٹس جاری کریں۔ چیف جسٹس نے حکم دیا۔ جام یوسف ، 30 لاکھ ۔۔۔ فوت ہوچکے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے رقم کے ساتھ ان کی وفات کی خبر بھی دی۔ بزنجو۔۔۔ اٹارنی جنرل نے نام پکارا۔ کون سے بزنجو؟ میرحاصل خان بزنجو۔۔۔ اٹارنی جنرل نے پورا نام لیا۔ چیف جسٹس کی اس نام پر حیرانگی دیدنی تھی۔ حکم دیا نوٹس جاری کریں۔۔۔ اٹارنی جنرل نے سابق وزیر اعلیٰ ،حال سینیٹر مظفر حسین شاہ کا نام لیتے ہوئے کہا 30لاکھ دو بار لئے۔۔ چیف جسٹس نے حکم دیا نوٹس دیں۔ ممتاز صحافی صلاح الدین کے نام کے ساتھ 3لاکھ کی خبر دیتے ہوئے اْن کے مرحوم ہونے کی بھی اطلاع اٹارنی جنرل نے دی۔ جبکہ ایک صحافی کے نام کے ساتھ 5لاکھ کی آواز لگانے کے ساتھ یہ اطلاع بھی دی کہ راستے میں ہیں۔ سیدہ عابدہ حسین 10لاکھ کی آواز لگی تو ممتاز ماہر قانون محترم وسیم سجاد نے کہا۔ میں اْن کا وکیل حاضر ہوں۔ جنرل (ر) اسد درانی کی فہرست کے ساتھ ساتھ ملٹری انٹیلی جنس کے برگیڈیئر سعید اختر کی جانب سے دئیے گئے ناموں کی بھی گونج سنائی دی۔ بھٹوصاحب کے سوہنے منڈے عبد الحفیظ پیرزادہ کو 30لاکھ روپے دینے کی آواز لگی تو ساتھ ہی ان کے مرحوم ہونے کی بھی اطلاع دی گئی۔۔۔ ایئر مارشل (ر) اصغر خان کیس کی اگلی پیشی کے بعد بھی کیا پھر کوئی دوسری تاریخ پڑے گی؟ اور پھر دوسری کے بعد تیسری، چوتھی۔۔۔ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے کہ بہرحال موجودہ چیف جسٹس محتر م ثاقب نثار جس جرأت مندی اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سویلین سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ ، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے سابقہ سرخیلوں کو کٹہرے میں لارہے ہیں۔ اْس سے بجا طور پر یہ امید رکھنے میں کیاحرج ہے کہ تاخیر سے ہی ہے مگر بڑے بڑے مگر مچھوں کے خلاف انصاف ہوتا نظر تو آرہا ہے۔ جنرل (ر) اسد درانی اور جنرل (ر) اسلم بیگ کے بارے میں محترم چیف جسٹس نے واضح کہا کہ ا ن کا کیس فوجی عدالتوں میں بھیجا جائے گا۔ ایئر مارشل (ر) اصغر خان کیس یقیناًعدلیہ سمیت پاکستان کے مقتدر سیاسی اداروں کیلئے ایک کڑا امتحان ہے۔ پاکستانی ریاست کے تین بڑوں نے جس بے شرمی اور ڈھٹائی سے براہ راست جمہوری عمل کا رخ موڑنے میں گھناؤنا کردار ادا کیا اور اس سے بھی قابل مذمت بات یہ کہ جس طرح ان 28برسوں میں سب سے بڑی عدالت کی سب سے اونچی کرسی کے منصب پر بیٹھے سرخیل اسے نظر انداز کرتے رہے۔ وہ یقیناًپاکستانی عدلیہ کے نام پر ایک بدنما داغ رہے گا۔ آج تاریخ نے اس کیس کی صورت میں اعلیٰ عدلیہ کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ اپنے دامن پر لگے ماضی کے داغوں کو بھی دھو دیں۔ اور آئندہ بھی ایسی مثال قائم کردیں کہ کوئی دوسرا مہم جو ’’جنرل‘‘ جمہوریت کے ساتھ اس طرح کا کھلواڑ نہ کر سکے۔ ایئر مارشل (ر) اصغر خان کیس میں بہر حال بنیادی کردار تو اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان کا ہی تھا۔ مگر زیادہ ذمہ دار افواجِ پاکستان کے سربراہ جنرل اسلم بیگ، آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سربراہوں کا تھا۔ کہ اگر سابق صدر غلام اسحاق خان اپنی ذاتی اور سیاسی خواہشوں کے سبب پیپلز پارٹی کی قیادت۔۔۔خاص طور سے محترمہ بے نظیر بھٹو سے انتقام کی حد تک نفرت کرتے تھے۔ بہر حال یہ قومی مفاد میں نہیں تھا۔ جب کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی جیسے عسکری قومی اداروں کو سیاسی مفا د کی بھینٹ نہیں چڑھنا تھا۔ سیاسی قیادت کے خلاف تو ان کے ماضی کے کردار کے حوالے سے تواتر سے تنقید ہی نہیں کی جاتی ہے بلکہ کٹہرے میں کھڑا کردیا جاتا ہے۔کیا آج کی عسکری قیادت جس نے ماضی سے بہت سیکھا ہے۔۔۔ آئی ایس آئی اور ایم آئی کے ماضی کے داغ دھبوں کو صاف نہیں کرے گی؟ بہر حال جنرل (ر) اسد درانی ہوں یا جنرل (ر) اختر رحمان یا پھرجنرل (ر)پرویز کیانی اور جنرل (ر) قدوائی۔۔۔ اسی طرح ملٹری انٹیلی جنس کے بھی سابق سربراہوں نے اپنے اختیارات سے بڑھ کر ان اداروں کو استعمال کیا ہے۔ یقیناایئر مارشل (ر) اصغر خان کیس ایسا ہے جس پر ہماری سویلین اور ملٹری قیادت کو معذرت ہی نہیں اجتماعی طور پر معافی بھی مانگنی چاہئے۔ ورنہ حاضر ہوں، حاضر ہوں کی آوازیں عدالتوں میں بھی لگیں گی اور چوکوں چوراہوں پر بھی۔