ایک اعرابی نے اہلِ بصرہ سے پوچھا : اس علاقے کے لوگوں کا سردار کون ہے؟ جواب ملا : حسن بصریؒ۔اس نے کہا:انھیں لوگوں پر سیادت کیسے حاصل ہوئی؟ بتلایا گیا : لوگ ان کے علم کے محتاج ہیں، جب کہ حسنؒ ان کی دنیا سے بے نیاز ۔ بذلہ سنج حافظ حسین احمد کی جے یو آئی میں واپسی پر اعرابی کا تبصرہ یاد آیا ۔حافظ حسین احمد مار دھاڑ سے بے نیاز ،جبکہ جے یو آئی ان کی ظرافت کی محتاج۔ہنسی، مذاق اور طنزو مزاح سے محفل کوکشت زعفران بنانے کا سلیقہ انہیں خوب آتا ہے مگراس کے باوجود زہد و تقوی‘ شرم و لحاظ ان کا طرہ امتیاز۔ ان کی قربت میںحد درجے کی ایسی کشش کہ طبیعت کبھی نہ اکتائے۔ایسی نظافت، پاکیزگی اور نورانیت ان کے ہم قافلہ میںکہاں۔ حافظ حسین احمد نے 1973 میں جے یو آئی میں شمولیت اختیار کی تھی، اس کی رسید حضرت مولانا مفتی محمودنے باقاعدہ اپنے دستخط سے جاری کی۔ جبکہ مولانا فضل الرحمن نے جمعیت میں شمولیت 80-81 میں اختیار کی ۔حافظ حسین احمد کا جرم کیا تھا؟ بذلہ گفتار نے کہا تھا : ملک میں جمہوریت کے قیام اور اظہار رائے کی آزادی کے دعویدار جمعیت میں موروثیت کے قائل ہیں جس کے بعدانہیں کوئی نوٹس بھیجا گیا، نہ ہی فرد جرم عائد کی گئی، بلکہ ایک ڈکٹیٹرانہ انداز میں پارٹی سے نکال دیا گیا۔ حافظ حسین احمد نہ صرف منجھے ہوئے سیاستدان ہیں بلکہ مولانا بھی ۔منطق اور دلیل ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوتی ہے ،اسی بنا پربڑی سے بڑی سیاسی جماعت کا ترجمان ان کے مقابلے میں ٹی وی پر آنے کو تیار نہ ہوتا تھا ۔مگر جب سے حافظ صاحب کو جماعت سے نکالا گیا ،اس کے بعدجون ایلیا کی زبان میںجے یو آئی کا حال کچھ اس طرح ہوا۔ ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک بات نہ کہی گئی بات نہیں سنی گئی شاید میڈیا میں کسی کو اب جے یو آئی کے ترجمان کا نام بھی نہ آتا ہو،جے یو آئی میں لاکھوں علما کرام موجود ہیں ،مگر حافظ حسین احمد کا نعم البدل ان کے پاس نہیں ۔ اسی بنا پر مولانا فضل الرحمن کو ان کے پاس جانا پڑا۔جے یو آئی کے کارکنان بھی شش وپنج میں تھے ۔ایک اداسی سے اداسی تھی ۔محفل میں وہ مزہ نہ تھا جوان کی موجودگی میں ہوا کرتا تھا ۔ برادرم حافظ اعجاز الحق کے دولت کدے پر کئی بار حافظ حسین احمد سے ملاقات ہوئی ۔ہر باروہ نئے روپ میں نظر آئے ۔ انھوں نے گھر کی باتوں کو گھر میں رکھنے کی کئی بار کوشش کی تھی مگر جب ان کی خاموشی پر سوالات اٹھے تو مجبورا وہ بولے ۔مولانا فضل الرحمن نے حافظ حسین احمد سے کہا ہو گا : یہ تمہارے ہی دم سے ہے بزم طرب ابھی آ جائونہ تم کرو یہ غضب کوئی بیٹھ کے لطف اٹھائے گا کیا کہ جو رونق بزم تمھیں نہ رہے پاکستان میں سیاسی فضا کم بوجھل کبھی نہیں رہی‘ ماضی بعید میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی نے اپنا اپنا مورچہ سنبھالے رکھا‘ حال کے کرداروں میں اضافہ ہوا۔اب عناصر اربعہ‘ مسلم لیگ (ن) ‘ پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف اور جے یو آئی ہیں۔باقی سب بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ۔سوائے چھان بورے کے کچھ نہیں۔ملک کی کسی کو کوئی فکر نہیں ،ہر کوئی اپنا الو سیدھا کرنے میں جتا ہوا ہے ۔اب تک ہم انگریزوں اور ہندوئوں کے عیب تلاش اور شمار کرتے رہے۔ عناصر اربعہ کو قریب سے دیکھا‘ تو وہ دونوں فرض شناس نظر آئے۔ انگریز نے دہلی کو اس طرح نہیں لوٹا ،جس طرح عناصر اربعہ ملک کے ساتھ کر رہے ہیں۔ معاف کیجیے گا۔75برسوں میں ہم قوم نہیں بن سکے۔ریوڑ ہیں۔ ایک لاٹھی سے ہمیں کوئی بھی ہانک سکتا ‘ جدھر رخ موڑنے کا حکم ملا‘ چل دیے ۔پہلے انگریز کی غلامی تھی اب عناصر اربعہ کی۔ عظیم دانشور نے کہا تھا: سلطنتوں کی پہرہ داری وہی قومیں کر سکتی ہیں۔ جو نیند میں ہوں تو ان کی ایک آنکھ کھلی رہے۔ ہم نیند میں مدہوش تو ہوتے ہی ہیں ،مگر کھلی آنکھوں کے سامنے بھی ہمارے ملک کے ساتھ جو کچھ ہوا،وہ قابل بیان نہیں ۔ حافظ حسین احمد کے صوبے میں ریکوڈک کا معاملہ کیسے التوا کا شکار رہا ۔ضلع چاغی کے نوکنڈی علاقے سے تقریبا 70ً کلومیٹر کے فاصلے پر ایک قصبہ ’’ریکو دق‘‘ہے۔ اسی علاقے کے قریب سے وہی مشہور زمانہ ’’ٹیتھیان بیلٹ‘‘ گزرتی ہے جو ایران، ترکی سے ہوتی ہوئی، یورپ تک جاتی ہے ۔ جسے دنیا میں تانبے و سونے کا مرکز کہا جاتا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس علاقہ میں تانبے اور سونے کے ذخائر اپنی مقدار کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہیں۔ٹیتھیان کمپنی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا:اس مقام پر اتنا تانبہ اور سونا موجود ہے، جسے 56 سال تک متواتر نکالا جاسکتا ہے۔ ریکوڈک سے 2 لاکھ ٹن خالص تانبا اور 180 من خالص سونا سالانہ نکالا جاسکتا ہے۔ یہ معاملات درست طریقے سے چلتے رہے مگر اچانک کچھ لالچی لوگوں نے رشوت نہ ملنے پر اسے متنازعہ بنا دیا تھا ۔ مگر اب عدالت عظمیٰ نے ریکوڈک منصوبہ کے نئے معاہدے کو قانونی اور ماحولیاتی اعتبار سے درست قرار دیتے ہوئے ،اسکی توثیق کردی ہے۔عدالتی فیصلے کے بعد پاکستان 10ارب ڈالر جرمانے سے بچ گیا ۔ بیرک کمپنی کی جانب سے عدالت کو یقین دلایا گیاکہ تنخواہوں کے قانون پر مکمل عملدرآمد ہوگا ،مزدوروں کے حقوق کا مکمل خیال رکھا جائیگا،علاقہ میں سوشل منصوبوں پر سرمایہ کاری کی جائیگی۔ اگریہ منصوبہ سیاستدانوں کے ہاتھوں میں ہی رہتا تو اب تک نہ صرف اس کی بندر بانٹ ہو چکی ہوتی بلکہ کمپنی بھی ان کے آئے روز کے مطالبات سے تنگ آ کر بھاگ چکی ہوتی ۔ٹیتھیان کمپنی کو 5 ارب 97 کروڑ ڈالرز کا جرمانہ ادا کرنے کا حکم دے دیا۔ چھ ارب ڈالر کا مطلب ، بلوچستان کے چار سالانہ بجٹ کے برابر رقم۔ اگر یہ رقم ہمیں دینا پڑتی تو آپ اندازہ کرلیں، ہمارے ساتھ کیا ہوتا؟ شکریہ عدالت عظمی۔ عظیم دانشور نے کہا تھا: غلطی کرنا انسانی فطرت ہے مگر غلطیوں کی اصلاح نہ کرنا،خودکشی کے مترادف۔ درحقیقت ہم نے ایک غلطی کی اصلاح کر کے اپنے آپ کو خود کشی سے بچا لیا ہے ۔
حافظ حسین احمد
اتوار 11 دسمبر 2022ء
ایک اعرابی نے اہلِ بصرہ سے پوچھا : اس علاقے کے لوگوں کا سردار کون ہے؟ جواب ملا : حسن بصریؒ۔اس نے کہا:انھیں لوگوں پر سیادت کیسے حاصل ہوئی؟ بتلایا گیا : لوگ ان کے علم کے محتاج ہیں، جب کہ حسنؒ ان کی دنیا سے بے نیاز ۔ بذلہ سنج حافظ حسین احمد کی جے یو آئی میں واپسی پر اعرابی کا تبصرہ یاد آیا ۔حافظ حسین احمد مار دھاڑ سے بے نیاز ،جبکہ جے یو آئی ان کی ظرافت کی محتاج۔ہنسی، مذاق اور طنزو مزاح سے محفل کوکشت زعفران بنانے کا سلیقہ انہیں خوب آتا ہے مگراس کے باوجود زہد و تقوی‘ شرم و لحاظ ان کا طرہ امتیاز۔ ان کی قربت میںحد درجے کی ایسی کشش کہ طبیعت کبھی نہ اکتائے۔ایسی نظافت، پاکیزگی اور نورانیت ان کے ہم قافلہ میںکہاں۔ حافظ حسین احمد نے 1973 میں جے یو آئی میں شمولیت اختیار کی تھی، اس کی رسید حضرت مولانا مفتی محمودنے باقاعدہ اپنے دستخط سے جاری کی۔ جبکہ مولانا فضل الرحمن نے جمعیت میں شمولیت 80-81 میں اختیار کی ۔حافظ حسین احمد کا جرم کیا تھا؟ بذلہ گفتار نے کہا تھا : ملک میں جمہوریت کے قیام اور اظہار رائے کی آزادی کے دعویدار جمعیت میں موروثیت کے قائل ہیں جس کے بعدانہیں کوئی نوٹس بھیجا گیا، نہ ہی فرد جرم عائد کی گئی، بلکہ ایک ڈکٹیٹرانہ انداز میں پارٹی سے نکال دیا گیا۔ حافظ حسین احمد نہ صرف منجھے ہوئے سیاستدان ہیں بلکہ مولانا بھی ۔منطق اور دلیل ان کے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑی ہوتی ہے ،اسی بنا پربڑی سے بڑی سیاسی جماعت کا ترجمان ان کے مقابلے میں ٹی وی پر آنے کو تیار نہ ہوتا تھا ۔مگر جب سے حافظ صاحب کو جماعت سے نکالا گیا ،اس کے بعدجون ایلیا کی زبان میںجے یو آئی کا حال کچھ اس طرح ہوا۔ ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک بات نہ کہی گئی بات نہیں سنی گئی شاید میڈیا میں کسی کو اب جے یو آئی کے ترجمان کا نام بھی نہ آتا ہو،جے یو آئی میں لاکھوں علما کرام موجود ہیں ،مگر حافظ حسین احمد کا نعم البدل ان کے پاس نہیں ۔ اسی بنا پر مولانا فضل الرحمن کو ان کے پاس جانا پڑا۔جے یو آئی کے کارکنان بھی شش وپنج میں تھے ۔ایک اداسی سے اداسی تھی ۔محفل میں وہ مزہ نہ تھا جوان کی موجودگی میں ہوا کرتا تھا ۔ برادرم حافظ اعجاز الحق کے دولت کدے پر کئی بار حافظ حسین احمد سے ملاقات ہوئی ۔ہر باروہ نئے روپ میں نظر آئے ۔ انھوں نے گھر کی باتوں کو گھر میں رکھنے کی کئی بار کوشش کی تھی مگر جب ان کی خاموشی پر سوالات اٹھے تو مجبورا وہ بولے ۔مولانا فضل الرحمن نے حافظ حسین احمد سے کہا ہو گا : یہ تمہارے ہی دم سے ہے بزم طرب ابھی آ جائونہ تم کرو یہ غضب کوئی بیٹھ کے لطف اٹھائے گا کیا کہ جو رونق بزم تمھیں نہ رہے پاکستان میں سیاسی فضا کم بوجھل کبھی نہیں رہی‘ ماضی بعید میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی نے اپنا اپنا مورچہ سنبھالے رکھا‘ حال کے کرداروں میں اضافہ ہوا۔اب عناصر اربعہ‘ مسلم لیگ (ن) ‘ پیپلز پارٹی‘ تحریک انصاف اور جے یو آئی ہیں۔باقی سب بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ۔سوائے چھان بورے کے کچھ نہیں۔ملک کی کسی کو کوئی فکر نہیں ،ہر کوئی اپنا الو سیدھا کرنے میں جتا ہوا ہے ۔اب تک ہم انگریزوں اور ہندوئوں کے عیب تلاش اور شمار کرتے رہے۔ عناصر اربعہ کو قریب سے دیکھا‘ تو وہ دونوں فرض شناس نظر آئے۔ انگریز نے دہلی کو اس طرح نہیں لوٹا ،جس طرح عناصر اربعہ ملک کے ساتھ کر رہے ہیں۔ معاف کیجیے گا۔75برسوں میں ہم قوم نہیں بن سکے۔ریوڑ ہیں۔ ایک لاٹھی سے ہمیں کوئی بھی ہانک سکتا ‘ جدھر رخ موڑنے کا حکم ملا‘ چل دیے ۔پہلے انگریز کی غلامی تھی اب عناصر اربعہ کی۔ عظیم دانشور نے کہا تھا: سلطنتوں کی پہرہ داری وہی قومیں کر سکتی ہیں۔ جو نیند میں ہوں تو ان کی ایک آنکھ کھلی رہے۔ ہم نیند میں مدہوش تو ہوتے ہی ہیں ،مگر کھلی آنکھوں کے سامنے بھی ہمارے ملک کے ساتھ جو کچھ ہوا،وہ قابل بیان نہیں ۔ حافظ حسین احمد کے صوبے میں ریکوڈک کا معاملہ کیسے التوا کا شکار رہا ۔ضلع چاغی کے نوکنڈی علاقے سے تقریبا 70ً کلومیٹر کے فاصلے پر ایک قصبہ ’’ریکو دق‘‘ہے۔ اسی علاقے کے قریب سے وہی مشہور زمانہ ’’ٹیتھیان بیلٹ‘‘ گزرتی ہے جو ایران، ترکی سے ہوتی ہوئی، یورپ تک جاتی ہے ۔ جسے دنیا میں تانبے و سونے کا مرکز کہا جاتا ہے ۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس علاقہ میں تانبے اور سونے کے ذخائر اپنی مقدار کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہیں۔ٹیتھیان کمپنی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا:اس مقام پر اتنا تانبہ اور سونا موجود ہے، جسے 56 سال تک متواتر نکالا جاسکتا ہے۔ ریکوڈک سے 2 لاکھ ٹن خالص تانبا اور 180 من خالص سونا سالانہ نکالا جاسکتا ہے۔ یہ معاملات درست طریقے سے چلتے رہے مگر اچانک کچھ لالچی لوگوں نے رشوت نہ ملنے پر اسے متنازعہ بنا دیا تھا ۔ مگر اب عدالت عظمیٰ نے ریکوڈک منصوبہ کے نئے معاہدے کو قانونی اور ماحولیاتی اعتبار سے درست قرار دیتے ہوئے ،اسکی توثیق کردی ہے۔عدالتی فیصلے کے بعد پاکستان 10ارب ڈالر جرمانے سے بچ گیا ۔ بیرک کمپنی کی جانب سے عدالت کو یقین دلایا گیاکہ تنخواہوں کے قانون پر مکمل عملدرآمد ہوگا ،مزدوروں کے حقوق کا مکمل خیال رکھا جائیگا،علاقہ میں سوشل منصوبوں پر سرمایہ کاری کی جائیگی۔ اگریہ منصوبہ سیاستدانوں کے ہاتھوں میں ہی رہتا تو اب تک نہ صرف اس کی بندر بانٹ ہو چکی ہوتی بلکہ کمپنی بھی ان کے آئے روز کے مطالبات سے تنگ آ کر بھاگ چکی ہوتی ۔ٹیتھیان کمپنی کو 5 ارب 97 کروڑ ڈالرز کا جرمانہ ادا کرنے کا حکم دے دیا۔ چھ ارب ڈالر کا مطلب ، بلوچستان کے چار سالانہ بجٹ کے برابر رقم۔ اگر یہ رقم ہمیں دینا پڑتی تو آپ اندازہ کرلیں، ہمارے ساتھ کیا ہوتا؟ شکریہ عدالت عظمی۔ عظیم دانشور نے کہا تھا: غلطی کرنا انسانی فطرت ہے مگر غلطیوں کی اصلاح نہ کرنا،خودکشی کے مترادف۔ درحقیقت ہم نے ایک غلطی کی اصلاح کر کے اپنے آپ کو خود کشی سے بچا لیا ہے ۔
آج کے کالم
یہ کالم روزنامہ ٩٢نیوز میں اتوار 11 دسمبر 2022ء کو شایع کیا گیا
آج کا اخبار
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
پیر 25 دسمبر 2023ء
-
منگل 19 دسمبر 2023ء
-
پیر 06 نومبر 2023ء
-
اتوار 05 نومبر 2023ء
اہم خبریں