میں نے جماعت اسلامی کے لوگوں کو اس طرح جذباتی ہوتے کم دیکھا ہے، جیسے وہ حافظ سلمان بٹ کے جنازے میں تھے۔ سنجیدگی ،متانت اور وقار لئے یہ لوگ بڑے بڑے دکھ سہہ جاتے ہیں مگر یوں گریہ زاری نہیں کرتے۔ وہ شخص تھا ہی ایسا۔دراصل وہ ایک علامت تھا استعارہ تھا، جواں مردی کے ساتھ تحریک اسلامی کے لئے کام کرنے کا جوسفرکے عشرے کے بعد اس شہر میں بلکہ اس ملک میں نمودار ہوا۔ایک متحرک فعال اور نڈر نسان جس کے لئے نعرہ لگتا تھا: اچا لمبا شیر جوان حافظ سلمان حافظ سلمان میں جب کراچی گیا تو لاہور شہر میں ایک پوری نسل پروان چڑھ رہی تھی جن کو دیکھ دیکھ یہ خیال ابھرتا تھا کہ اس ملک میں جماعت اسلامی ایک نئی کروٹ لے رہی ہے۔ یہ لوگ ملکی سطح پر چھا گئے۔ لیاقت بلوچ‘ فرید پراچہ‘ امیر العظیم‘عبدالشکور‘ احسان اللہ وقاص۔ لگتا تھا جماعت اسلامی ایک نئی کروٹ لے رہی ہے جس طرح ایرانی انقلاب میں حوضۂ علمیہ قم کے علاوہ تہران یونیورسٹی کا نمایاں کردار تھا اس طرح اندازہ ہوتا تھا پنجاب یونیورسٹی سے ابھرنے والی یہ نوجوان لیڈر شپ ملک کا مقدر بدل دے گی۔ ان میں ایک نام ایسا بھی تھا جو ذرا بعد میں اسلامی تحریک کے افق پر ابھرا اور ایسا چھا گیا کہ بہت سے ستارے ماند پڑنے لگے۔ اگر کوئی شخص نڈر دبنگ اور درویش صفت کہا جا سکتا ہے تو وہ حافظ سلمان بٹ تھا۔ اس کے ہاتھوں خدا نے لاہور کے بڑے بڑے برج گرا ڈالے۔85ء میں اس نے لاہور کی ممتاز سماجی شخصیت میاں صلی کو شکست دی۔ میاں صلی (صلاح الدین) رئیس شہر میاں امیر الدین کے بیٹے اور علامہ اقبال کے داماد تھے۔ انہوں نے اعلان کیا یہ شخص میرے علاقے میں آ کر جلسہ نہیں کر سکتا۔ حافظ سلمان نے نہ صرف جلسہ کیا‘ بلکہ لاہور کی اشرافیہ کی محبوب و مقبول شخصیت کو بچھاڑ کر پورے ملک میں شہرت حاصل کی۔ اسے یہ اعزاز دوسری بار اس وقت ملا جب 2002ء میں اس نے اس شخص کو شکست دی جو اسٹیبلشمنٹ کا لاڈلا ‘ ق لیگ کا صدر اور مستقبل کا متوقع وزیر اعظم تھا۔ جس کی شان میں ہمارے بڑے بڑے لکھاری رطب اللسان تھے۔ میاں اظہر کو ان کے منہ بولے بھائی شریف برادران شکست نہ دے سکے مگر حافظ سلمان بٹ کے ہاتھوں وہ بھی شکست کھا گئے۔ کیا فعال اور متحرک زندگی تھی۔ اس نے لاہور کے میئر(ناظم اعلیٰ) کا الیکشن لڑا اور میاں عامر محمود کو پہلے رائونڈ میں 51فیصد ووٹ نہ لینے دیے۔ اسٹیبلشمنٹ گھبرا گئی۔ حافظ سلمان بٹ جماعت اسلامی میں ہونے کے باوجود جنرل ضیاء پر بھی ہاتھ صاف کرتا تھا۔ ڈر پیدا ہوا یہ لاہور کا ناظم اعلیٰ بن گیا تو جانے جنرل ضیاء کا استقبال کیسے کرے۔ سیاست ہی کے میدان میں نہیں‘ ٹریڈ یونین کے میدان میں وہ ریلوے کی مشہور زمانہ لیبر یونین پریم کا کل پاکستان صدر تھا۔ ان دنوں پی آئی اے میں پیاسی اور ریلوے میں پریم کا بہت چرچا تھا۔ یہ اس کا بھی صدر تھا۔ یہی نہیں یہ آل پاکستان فٹ بال ایسوسی ایشن کا سیکرٹری جنرل بھی تھا۔ جماعت کے کسی رکن کا کھیلوں کے میدان میں یہ حثیثت حاصل کرنا غیر معمولی بات تھی۔ طالب علم کے طور پر وہ پنجاب یونیورسٹی کا سیکرٹری جنرل اور نائب صدر بھی رہا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے پنجاب بھر کے ناظم کے فرائض بھی انجام دیے۔ جانے قدرت کو کیا منظور تھا کہ جلد ہی بیماریوں نے اسے گھیر لیا۔ وہ تحریک کا کام تو آخری دم تک کرتا رہا‘مگر دبنگ سیاست کو اسی طرح جاری نہ رکھ پایا یا پھر شہر کے حالات بدل گئے یا کیا ہوا‘ وہ اب اس طرح فعال نہ تھا۔ میں ہمیشہ ایک شخص کا مداح رہا ہوں جو کراچی کے امیر تھے۔ غلام محمد صاحب غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک اللہ نے انہیں جلد بلا لیا۔حافظ سلمان کو دیکھ کر مجھے وہ یاد آئے۔ یہ جتنا کچھ کر سکتے تھے شاید اپنی صحت کی وجہ سے وہ نہ کر پائے۔ اگرچہ آخری وقت تک ان کی آواز میں آمروں اور بے دینوں کے لئے وہی للکار رہی جو اول روز سے تھی۔ جو شخص قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کا رکن رہا ہو جس نے بڑے بڑے برج الٹے ہوں۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ وہ آخری سانس تک کرایے کے ایک مکان میں رہتا تھا۔ میں نے اسے ایک دبنگ درویش کہا ہے تو اس لئے کہ وہ چاہتا تو بہت کچھ کھا کما سکتا تھا مگر اس نے زندگی دین کی خاطر وقف کر دی تھی۔ شاید اسی لئے حافظ ادریس نماز جنازہ پڑھاتے ہوئے گریاں کناں ہو گئے‘ امیر العظیم اپنے جذبات پر قابو نہ پا سکے اور سراج الحق نے اپنے اس ساتھی کے بارے میں گواہی دی کہ وہ اللہ کی راہ کا سچا مجاہد تھا۔ دین میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے دشمنوں میں کھلبلی مچ جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے تو ہمارے نبیؐ بھی دعا کرتے تھے کہ وہ دائرہ اسلام میں آ جائیں۔ آج امیر جماعت کے اپنے خطبہ جمعہ میں اس صدیق کا حوالہ ہے کہ پوچھا اہل خانہ کے لئے بھی کچھ چھوڑ کر آئے ہو تو جواب آیا: ان کے لئے اللہ اور اللہ کا رسولؐ کافی ہے۔ یہ ایسے ہی جذبات کے پالے ہوئے لوگ تھے۔ انہوں نے اہل خانہ کے لئے دنیاوی طور پر کچھ نہیں چھوڑا مگر اپنے بیٹوں حسان اور جبران کی ایسی تربیت کی کہ وہ بھی تحریک اسلامی کے مجاہد ہیں۔ میں نے عرض کیا یہ ایک شخص نہیں ایک علامت ہے اس دوسری نسل کی جن سے توقع ہو چلی تھی کہ یہ تحریک اسلامی میں نئی روح پھونک سکتے ہیں اور جو کئی محاذوں پر برسر پیکار ہو سکتے ہیں۔ جانے منشائے الہی میں کیا لکھا ہے کہ اب یہ نسل بھی اپنا اثاثہ آنے والوں کو سونپ رہی ہے۔ یہ کارخیر کا ایک تسلسل ہے جو ہمیشہ جاری رہتا ہے۔ ان کا جنازہ اگرچہ جماعت کے مرکز منصورہ میں ادا کیا گیا مگر اس میں ہر پارٹی اور ہر مکتب فکر کے لوگ تھے۔ ملتان روڈ پر ٹریفک کا چلنا مشکل ہو گیا تھا۔ آج ہم جس زمانے میں جی رہے ہیں اس میں درویش صفت لوگوں کے ساتھ زیادتی یہ ہوتی ہے کہ ان کے گن گانے والے تو بہت ہوتے ہیں مگر ان کا تذکرہ جاری رکھنے والے کم ہوتے ہیں۔یہ تذکرے بھی ان کے ہوتے ہیں جن کا تعلق ایک خاص طبقے ایک خاص کلچر ایک خاص کلاس سے ہوتا ہے۔ ایسا ہر شعبے میں ہوتا ہے حافظ سلمان بٹ کو سب سے بڑا خراج تحسین یہ ہو گا کہ اس کے تذکرے کو زندہ رکھا جائے کہ کس طرح ایک شخص ہر بات سے بے نیاز ہو کر صرف دین کی خاطر سینہ سپر ہو جاتا ہے بلکہ بات کرنے اور کام کرنے میں کسی خوف کو خاطر میں نہیں لاتا۔ چلتے چلتے ایک بات کہ سلمان غنی مجھے بتا رہے تھے کہ جب اس کی میت کو ہسپتال کی ایمبولینس میں رکھا گیا تو اس جوان رعنا کی اس میت اس میں سمائی نہیں ہو رہی تھی۔اچا(اونچا) لمبا شیر جوان منوں مٹی تلے دفن کر دیا گیا ہے۔شاید اسے کسی کی نظر لگ گئی، جیسا اچا لمبا وہ دیکھنے میں تھا ایسا ہی دین کے خادموں میں بھی بلند قامت تھا۔ خدا اس کی مغفرت کرے: شاید کہ زمیں میں روشنی ہو مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے