کنج دل تباہ میں کیا ہے بچا ہوا اک نقش پائے یار ہے حیرت بنا ہوا سچ مچ نفس زدہ ہے چراغ مزار دل کچھ کچھ جلا ہوا ہے تو کچھ کچھ بجھا ہوا چند ساعتوں کی گوشہ نشینی ہی آنکھیں کھول دیتی ہے۔ تنہائی میں وہ کچھ بھی روشن ہو جاتا ہے جو بھیڑ اور مصروفیت میں صرف نظر ہو جاتا ہے۔ وہی چند تصویر بتاں والا معاملہ ہے الماس شبی نے کالم ،کہ جس میں سرکاری ڈرامے کا تذکرہ تھا کہا کہ آپ ڈرامے کی طرف آ رہے ہیں۔ میں نے کہا ڈرامے دیکھ رہا ہوں ایک تو ڈرامے میں حقیقت ہوتی ہے یہاں حقیقت میں ڈرامہ ہے اور لوگ دیکھنے میں محوہیں اور کچھ ساعتوں کے لئے وہ مہنگائی لاقانونیت اور ابتری کو بھول جاتے ہیں۔ حالات ایسے متغیرہوتے ہیں کہ کہیں بریک نہیں آتا۔ ہاں بریک اپ آتا ہے تو بجلی کا ہفتہ میں ایک یا دو یوم پانچ گھنٹے کا۔ ہفتہ کی رات تو بڑا بریک ڈائون ہوا اور پورا ملک ہی تاریکی میں ڈوبا رہا ۔ مقدر کی بات ہے: چاند روشن ہے نہ چمکا ہے ستارا کوئی شب گزرنے کا مرے یار اشارہ کوئی حالات ہمارے بس ایسے ہی ہیں اور پھر کچھ قدرت بھی مہربان نہیں ہے ۔صاحب سمجھا رہے تھے کہ اچانک ترسیلی نظام میں فریکوینسی 50سے صفر ہو گئی دل میں آئی کہ یہ ہمارے ساتھ کیا ہو رہا ہے ،بس بلیک آئوٹ ہو گیا چہ مگوئیاں اور افواہیں اپنی جگہ ہمیں تو یہاں بھی وہ معروف شعر یاد آ گیا جسے میر کے ساتھ منسوب کیا جاتا ہے: وہ آئے بزم میں اتنا تو ہم نے دیکھا میر پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی بریک ڈائون کی تیرگی کے ساتھ تو سیاہ بختی بھی تو جڑی ہوئی ہے کہ اے کاش سپید و سیاہ کے مالک کالا باغ ڈیم بھی بنا سکتے اسے بھی سیاستدانوں نے سیاست کی بھینٹ چڑھا دیا۔بے چارے معصوم عوام کو بتایا کہ پانی سے اگر بجلی نکال لی گئی تو باقی پھوکا پانی بچ جائے گا جس سے فصلوں کی آبیاری کا کوئی فائدہ نہیں کبھی کہا کہ فلاں شہر ڈوب جائے گا اندھیروں کے ساتھ اندھیر نگری بھی تو جاری ہے۔ جس کے جی میں جو آتا ہے وہ کر گزرتا ہے۔ وزیر اعظم کو پوچھنا پڑتا ہے کہ مہنگائی کیونکر ہو گئی اس کا نوٹس لیا جائے اگر وہ خود نوٹس لیتے ہیں تو جواباً مہنگائی دوگنا بڑھتی ہے۔ انڈے واقعتاً کچھ سستے ہوئے ہیں ،سنا ہے کہ مہنگائی کو مصنوعی انداز میں کم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ پی ڈی ایم کا دبائو کم کرنے کے لئے ایسے اقدام ضروری ہیں۔ دوائیوں کی قیمتیں بھی کم ہونا ضروری ہے ۔ تعلیم کے حوالے سے والدین کو بہت زیادہ تشویش ہے اور غالب امکان ہے کہ حکومت کسی طرح ایک سیشن کھا جانا چاہتی ہے ۔ بچوں کی نفسیات پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ سکولوں کو فیسیں جا رہی ہیں اور والدین جیسے تیسے برداشت کر رہے ہیں۔ سمجھ سے بالاتر ہے کہ ایسی صورت حال میں حکومت آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کا کیسے سوچ سکتی ہے: خوئے گریزپائی نقش قدم نہ پوچھ منزل کی سمت کوئی بھی رستہ نہیں گیا اب تھوڑا سا تذکرہ اپنے ایک بزرگ دوست کا کہ سعدیہ قریشی نے ایک پوسٹ لگائی کہ معروف شخصیت اور کالم نگار محمد یاسین وٹو صاحب ہمیں چھوڑ گئے۔ ایک دم دھچکا سا لگا ان کے ساتھ بہت رفاقت رہی۔ ایک عرصہ تک وہ سی این اے کونسل آف نیشنل افیئر کے ممبر رہے جس کے روح رواں ارشاد احمد عارف اور مصطفی خاں میرانی ہیں۔ ان کے ساتھ میرا ایک تعلق میرے ماموں جاں ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی کے حوالے سے بھی تھا کہ وہ صدیقی صاحب کے حلقہ اثر میں تھے وہ دست شناس بھی تھے اور زائچہ بھی بناتے تھے جب ان سے بے تکلفی ہو گئی تو میں نے مذاق میں کہا کہ وٹو صاحب آج تو کوئی ایسی پیشین گوئی کی جائے وہ خوش ہو کر میری طرف متوجہ ہوئے میں نے فقرہ مکمل کیا ایسی پیشین گوئی جو پوری ہو جائے۔ وہ ناراض ہوئے اور ماموں سے شکایت کی۔ وہ بہت پیارے تھے۔ ان کے ساتھ مزے مزے کی باتیں ہوتیں۔ اس کے بعد وہ نوائے وقت میں باقاعدہ کالم لکھنے لگے تب بھی ایڈیٹوریل روم میں ہماری محفل ہوتی تھی۔ ڈاکٹر تنویر حسین بھی آ جاتے۔ سعید آسی اور فضل حسین اعوان بھی ہوتے۔ بہت یادگار نشستیں تھیں محمد یاسین وٹو پھر مجید نظامی صاحب کے زیادہ قریب ہو گئے تو پھر ان کے ٹی وی چینل پر و ایسا ہی ایک پروگرام کرنے لگے جس میں وہ قسمت کا حال بتاتے یا پھر اس طرح کے سوالوں کے جواب دیتے۔بنیادی طور پر وہ بہت پرخلوص اور محبت کرنے والے تھے۔ دست شناس زیادہ تر تیز ہوتے ہیں کہ وہ ہاتھ دیکھنے کی بجائے ہاتھ دکھاتے ہیں۔ مگر وٹو صاحب درد دل رکھنے والے نیک سیرت تھے۔ وضعدار فراخدل تھے۔ جب ملتے تو کالم نگاری کے حوالے سے تعریف کرتے۔ وہ سعدیہ قریشی کے کالم کے بہت معترف تھے۔ واقعتاً رئوف طاہر صاحب کی رحلت کے بعد وٹو صاحب کا چلا جانا بہت محسوس کیا گیا۔ وہ ہم سے تھے ہماری محفلوں کا حصہ تھے جب بھی کوئی تقریب ہوتی یا حمید نظامی ہال میں کوئی پروگرام ہوتا تو وہ اکثر پہلی صف میں نظر آتے۔ خوش لباس وہ تھے خیر کی طرف ان کا رجحان تھا محب وطن اور پیار کرنے والے بہت قریب کے لوگوں کے چلے جانے سے جمال احسانی یاد آ جاتا ہے: چراغ بجھتے چلے جا رہے ہیں سلسلہ وار میں خود کو دیکھ رہا ہوں فسانہ ہوتے ہوئے جو بھی ہے یہ دنیا ہے اور یہ چل چلائو اس کا حصہ ہے۔ لائی حیات آئے‘ قضائے چلی چلے۔ اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوش چلے۔ مگر یہ تو انسان کے اختیار میں ہے کہ امر ربی کو خوش اسلوبی سے لینا۔ اپنے ماحول کو مہکائے اور اپنے دوستوں کو خوش رکھے۔ عمل کرے اور اپنے ہونے کا پتہ دے۔ وہ جائے تو اس کی غیر موجودگی بھی محسوس ہو۔ ہمارے پرنسپل صاحب ایک نہایت اچھی بات کیا کرتے تھے یار لمبی عمر کی امید رکھو مگر ہر لمحے موت کے لئے تیار رہو۔ محمد یاسین وٹوکے ہوتے ہم ایک گونہ طمانیت محسوس کرتے تھے اللہ پاک سے ان کی مغفرت کے لئے دعا ہے۔ وہ خود بھی باشرع اور پکے نمازی تھے۔ مجید امجد کا لازوال شعر: کٹی ہے عمر بہاروں کے سوگ میں امجد تری لحد پہ کھلیں جاوداں گلاب کے پھول