یہ ایک صدی کی کہانی ہے ایک دور کا تذکرہ ہے‘ ایک نسل کی داستان ہے۔ حمایت علی شاعر ہمارے بزرگوں میں وہ آخری آدمی تھے۔ جنہیں ہم بھائی کہہ کر پکارتے تھے۔ خدا سلامت رکھے ہمارے سینئرز میں ایک سحر انصاری باقی ہیں جنہیں میں اپنی طرح نوجوان سمجھتا ہوں۔ جب کینیڈا سے اطلاع آئی کہ حمایت بھائی کا انتقال ہو گیا ہے تو یادوں کے دریچے پر ایک فلم سی چل گئی۔ صرف ذاتی حوالوں سے نہیں۔ تہذیبی حوالوں سے بھی۔ کس طرح ایک شخص حیدر آباد دکن سے نکلا اور پاکستان والے حیدر آباد اور کراچی سے ہوتا ہوا ٹورنٹو میں آسودہ خاک ہو گیا۔ اس کی ابتدا اورنگ آباد سے ہوئی تھی۔ اسے یہ نام پسند نہ تھا کہ اورنگ زیب عالم گیر کی یاد دلاتا تھا جو حمایت علی شاعر کے نظریات سے لگا نہ کھاتا تھا۔حیدر آباد کی مسلم تہذیب میں پروان چڑھتا ہوا یہ شخص کشاں کشاں پاکستان آ گیا۔ کراچی ان دنوں پورے برصغیر کی تہذیبوں کی کھٹال(melting potتھا نہیںشاید ایسا نہ تھا۔ ایسا ہوتا تو حمایت بھائی کو دوسری ہجرت کیوں کرنا پڑتی۔ کینیڈا والے کہتے ہیں کہ میلٹنگ پوٹ ہو گا امریکہ‘ سب کچھ کو مل کر ایک بنا دینے کی جدوجہد ہم تو ایک کولاژ کی طرح ہیں۔ ایک ایسی پینٹنگ جس میں مختلف تصاویر یا امیج مل کر ایک خوبصورت کل بناتے ہیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ حمایت بھائی کو اپنے پورے خاندان کے ساتھ کینیڈا ہجرت کرنا پڑی۔ اگر الگ ایک امیجز میں جینا ہے تو پھر کینیڈا کیا برا ہے۔ صرف آپ کو وہاں کا شہری بن کر رہنا پڑے گا اور اس لحاظ سے سب کے ایک جیسے حقوق ہوں گے۔ تقسیم کے وقت لوگ کن کن خوابوں کو ذہنوں میں سجاتے جتنوں کے ساتھ اس نئے دیس میں آئے تھے۔ لاہور کی اپنی کہانی ہے‘ کراچی کی اپنی شاید دونوں الگ الگ ہوں۔ مگر ایک بھی کس طرح پورے برصغیر سے آئے ہوئے لوگ دیوانہ وار پھرتے تھے۔ ایک ایک اینٹ پر ایک ایک پتھر پر ان کی آوارہ گردیوں کے نشاں ثبت ہیں۔ آوارگی میں ہم نے زمانے کی سیر کی۔ مرے مولا نے خیر کی۔ یہ پردیسی جب اس شہر میں وارد ہوا تھا تو ابھی اس نسل کی بے تابیوں کے نشاں باقی تھے میں لاہور کے ریستورانوں‘ سڑکوں ‘ بازاروں میں کھوئی بے چین روحوں سے واقف تھا۔ کراچی مرے لئے ایک تجربہ تھا۔ اس نسل نے کیسے کشٹ کاٹے‘ یہ سب ہمارے تہذیبی سفر نامے کا حصہ ہے۔ یہ ادب میں انقلاب کا پرچم تھامے لوگ تھے جو حیدر آباد کی مسلم تہذیب کا تشخص لے کر آئے تھے۔ یہاں یو پی اور بہار کی اردو بولنے والے لوگ بھی تھے۔ سی پی کے عزیز حامد مدنی بھی تھے۔ پنجاب اور شمال سے آئے ہوئے زعما بھی تھے ۔اندرون سندھ کا رہنا الگ تھا۔ جگہ جگہ محفلیں جمتیں ‘نظریات آپس میں ٹکڑاتے تو گونج پورے ملک میں سنائی دیتی۔ سب لوگ نئے سرے سے پائوں جمانا چاہتے تھے۔ حمایت بھائی نے تعلیم کے مراحل یہیں آ کر طے کئے۔ ایم اے کیااور سندھ یونیورسٹی میں استاد ہو گئے۔ اس سے پہلے انہوں نے اس شہر میں بڑا وقت وقت گزارا اور بہت ادبی مچاٹے ان سے وابستہ رہے۔ قابل اجمیری‘ محسن بھوپالی ‘ کیا کیا چپقلشیں ہوئیں۔ یہ نظریاتی سے زیادہ ادبی چشمکوں کا محاذ تھا۔ مگر نظریاتی محاذ پر بھی حمایت علی شاعر پیچھے نہ تھے۔ اس محاذ پر ان کا سب سے زور دار ٹاکرا ’’برش قلم‘‘ والے شمیم احمد سے ہوا جو وہی شمیم اختر ہیں جو سلیم احمد کے چھوٹے بھائی تھے مگر ایسے پکے نظریاتی تھے کہ کسی کو بخشتے نہ تھے۔ حمایت بھائی اپنا مقدمہ سلیم بھائی کی عدالت میں لے گئے جو ویسے تو شمیم احمد کے بھائی تھے مگر تعلقات کی نوعیت ایسی تھی کہ انصاف کی امید بھی وہیں پر نظر آتی تھیں۔ ایسی تھی ہماری تہذیب اورایسی تھی یہ نسل ۔ایک آگ کے دریا سے گزر کر آتی تھی اور اپنی منفرد تہذیب رکھتی تھی ۔ کبھی دل کرتا ہے کہ مختلف ثقافتوں کے جو دریا اس سمندر میں آ ملے تھے کبھی ان کا الگ ایک ذکر کروں۔ کیسے ہر کوئی اپنے حال میں مست تھا ۔کیسے کہوں کہ سب دھارے الگ ایک بہتے تھے۔ مگر تھے ایک یہ مواج سمندر کا جوار بھاٹا۔ کیسے کہوں۔ میں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اس شہر میں گزارا ہے۔ اسی شہر کے اینٹ اور پتھر کے ساتھ نہیں۔ بلکہ اس کی رگوں میں دوڑتے خون کے ساتھ۔ بہرحال اس وقت میں حمایت علی شاعر پر یہ چند سطریں لکھ رہا ہوں جن کا ان دنوں 93سال کی عمر میں انتقال ہوا، غالباً وہ گزشتہ صدی کے آخر ہی میں کینیڈا منتقل ہو گئے تھے۔ یہ میں اس اندازے پر کہہ رہا ہوں کہ 2002ء میں میری اہلیہ ٹورنٹو میں تھی جب اس نے اطلاع دی کہ حمایت بھائی کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا ہے اور وہ ان کی تدفین سے واپس آ رہی ہیں۔ ہمارے ان سے کئی واسطے تھے۔ کمانڈر روشن خیالی اس وقت پاکستان نیوی کا افسر تعلقات عامہ تھا۔ بریگیڈیئر صولت رضا کی طرح اس سے بھی دن رات کا اٹھنا بیٹھنا تھا وہ یہاں اپنی نوکری پوری کر کے کینیڈا چلا گیا۔ گو اکثر سال بہ سال پاکستان میں فوجی پریڈ کی 23مارچ کو کمنٹری کرنے کے لئے بلوایا جاتا ہے۔ حمایت بھائی کے جانے سے پہلے ان کے بچے منتقل چکے تھے۔ سب سے پہلے شاید ان کی ایک بیٹی گئی تھی۔میں نے اپنی اہلیہ سے پوچھا کیا نام تھا اس کا جواب ملا گڑیا‘ بس ہمارے ایسے ہی تعلقات تھے۔ روشن کی اہلیہ سائنس کی ماسٹر تھی اور آخری دنوں میں اسی جگہ ملازم ہو گئیں جہاں میری اہلیہ برسوں سے سربراہ کے طور پرکام کر رہی تھیں۔ اس طرح ہمارے گھر میں جو فون کی مختلف ڈائریاں تھیں۔ ان دنوں اسی کا رواج تھا۔ ان میں ہر ایک میں الگ الگ نام سے اندراج تھا کسی میں حمایت علی شاعر کسی میں روشن خیال اور کسی میں ثمینہ روشن۔ اس طرح مجھے ان کے گھر کے انداز حیات کا بھی اندازہ ہے۔ حمایت علی شاعر نے کس طرح پورے خاندان کو یکجا رکھا ہوا تھا۔ پھر انہیں کیسی احتیاط اور اہتمام سے لے کر کینیڈا چلے گئے۔ جہاں تک مجھے علم ہے ان کا صرف ایک بیٹا اوج کمال ہی یہاں پر ہے۔ یہ پاکستان سے جڑی ہوئی شاید ان کی واحد نشانی ہے۔ حمایت علی شاعر نے شاعری بھی کمال کی۔ انقلابی بھی اور قلمی بھی۔ دور دور تک مار تھی۔ ملی نغمے بھی لکھے جو بڑے مقبول ہوئے۔ اب ان کے انتقال پر جو کچھ آیا اس میں ان ملی نغموں کا ذکر نہیں۔ شاید کسی نے سوچا ہو گا کہ کینیڈا میں تو وہ سب سے ملتے ہیں۔ پاکستانی‘ ہندوستانی‘ بنگلہ دیشی کہیں کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ مگر میں تو اپنے شاعر سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں۔ ٹھیک ہے کہ ٹورنٹومیں اورنگ آباد نہ ہو گا۔ نام کا نہ ہو گا۔ اس کی روح تو زندہ ہو گی اور مجھے یقین ہے کہ جس مٹی میں حمایت علی شاعر دفن ہیں وہ مٹی اب ہمارے تہذیبی سفر کا استعارہ ہے۔ ان کے لئے ہی نہیں جو کینیڈا میں ہیں۔ ان کیلئے بھی جو اب بھی یہاں پاکستان میں آباد ہیں۔ اس میں حیدر آباد کی مہک بھی ہو گی اور مٹی میں جو چراغ رکھ دیا ہے اس میں پاکستان کی روشنی بھی ہو گی۔ ایک نسل ختم ہوئی ‘ ایک عہد تمام ہوا‘ ایک باب مکمل ہوا مگر یہ سفر جاری رہے گا۔