جانے کیوں اپنی ہنسی آپ اڑانا چاہوں دل کا ہر درد زمانے کو بتانا چاہوں اس کو خوشبو کی طرح ساتھ بھی رکھوںاپنے اور پھر اس کو زمانے سے چھپانا چاہوں کہتے ہیں عشق اور مشک کہاں چھپتا ہے۔ دیکھا نہیں رانا ثناء اللہ شیر والا ماسک لگا کر احتساب عدالت آئے اور سب کی توجہ کا مرکز بن گئے۔ ہم تو یہ محاورہ سنتے تھے کہ فلاں اندر سے شیر ہے مگر یہاں تو باہر سے شیر نظر آیا تاہم یہ عام سی بات نہیں یہ کوئی بلیغ اشارہ بھی ہے اور کنایا بھی۔ رانا صاحب ویسے بہت دلیر ہیں ماضی میں تو انہیں کسی نے چہرے کی زینت یعنی ابرو سے محروم کر دیا تھا مگر انہوں نے راجپوتوں والی آبرو پر حرف نہیں آنے دیا وفاداریاں نہیں بدلیں شیر کا ماسک اصل میں جزو ہے اور اس سے کل مراد لی جا سکتی ہے ۔ایسے ہی جیسے واوڈا صاحب ایک پروگرام میں اپنے ساتھ بوٹ لے گئے تھے۔ ترجیحات ہی بندے کی پہچان بن جاتی ہیں ۔گاندھی اپنی بکری کو اقوام متحدہ کے اجلاس میں لے گئے تھے اور گاندھی جی کو تنگ کر نے کے لئے محمد علی جوہر گول میز کانفرنس میں بکرا لے گئے۔ یہ محبت ہے محبت کو کوئی نام نہ دو۔ میرے معزز قارئین کیا کروں کوئی دلچسپ بات سنتا ہوں یا کوئی دل نواز خبر پڑھتا ہوں تو بہک جاتا ہوں ابھی شاہ محمود قریشی صاحب کی پیش کش دیکھ رہا تھا کہ انہوں نے چین اور امریکہ سے کہاہے کہ پاکستان حکومت ان کے مابین صلح کروانے کے لئے اپنا رول ادا کر سکتی ہے۔ ہم مگر شاہ صاحب سے ہم یہی کہیں گے کہ تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو ویسے آپ اتنی سی بات بھی نہیں سمجھتے کہ ہماری اہمیت اور عزت بھی اسی وقت تک ہے جب تک ان دو ہاتھیوں میں لڑائی ہے مگر ہمیں محتاط پھر بھی رہنا ہے اگر ان کی صلح ہو گی تو ہمیں سعودیہ نے بھی خیرات نہیں دینی۔ تو شاہ صاحب اس گیت سے لطف اٹھائیے: میری زندگی ہے نغمہ میری زندگی ترانہ میں صدائے زندگی ہوں مجھے ڈھونڈ لے زمانہ اب آتے ہیں ذرا اپنے حال احوال اور حالات کی طرف ابھی میں تنزیلا عمران خاں کی پوسٹ پڑھ رہا تھا۔ تنزیلا عمران خاں پی ٹی آئی کی نہایت پرخلوص اور پرجوش یوتھ رہنما تھی اور شاید ہوں تب ہم بھی تو خان صاحب کے لئے ترانے لکھ رہے تھے خیر اس کی پوسٹ بہت مزیدار ہے۔ بدترین سبق ہمیشہ پسندیدہ ترین شخص دیتا ہے۔ میں محترمہ کا کرب محسوس کر سکتا ہوں ہم کئی جگہ اکٹھے ہی شریک ہوئے اور تبدیلی کے آرزو مند لوگ کتنے پرجوش تھے آنکھوں میں روشنی ہوا کرتی تھی۔مجھے اعتراف ہے کہ ہم خان صاحب کی دیانتداری کی قسمیں کھایا کرتے تھے ہم دلی طور پر سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ خان اگر چاہے گا تب بھی وہ کرپشن یا بددیانتی نہیں کر سکے گا کہ اس پر کروڑوں لوگوں کے اعتبار اور اعتماد کا بوجھ ہے پھر کیا ہوا میں یہ نہیں کہتا کہ خان نے سب کی آرزوئوں امنگوں اور آدرشوں کا خون کر دیا میں تو بس خاموش ہو گیا ہوں کس کو الزام دوں کہ سب کچھ خان کے بس میں نہیں رہا: ساڈا حال نہ پچھو، لوکو ساڈا حال نہ کوئی کدھر جائیے کیہ ہن کریے کھیسے مال نہ کوئی اب آپ خود ہی بتائیے کہ حالات انسان کو کس نہج پر لے آتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال چودھری برادران کے کیسز ہیں جو 2000ء سے آغاز ہوئے اور انہی کیسوں نے انہیں مشرف کے ساتھ باندھے رکھا اور پھر ہوتے ہوتے یہ دن آ گئے زرداری اور شریف ادوار بھی گزر گئے وہ کیس کیوں لٹکے اور کس نے لٹکائے بتانے کی ضرورت نہیں۔ اپنے دوست انور ملک یاد آ گئے: جب بھی آتا ہے مرے جی میں رہائی کا خیال وہ میرے پائوں کی زنجیر ہلا دیتے ہیں اب یکایک سینٹ کے الیکشن کے قریب نیب نہایت عدالت پہنچ گیا اور چودھری برادری کے نیب کیسز کی کارروائی بند ہو گئی ظاہر ہے چودھری برادران بھی سیاستدان ہیں اور وہ بھی نک ونک ہو چکے ہیں ۔ عمران خان کو طعنے دینے کا کیا فائدہ۔ یہی سیاست ہے اسی کا چلن ہے ایسے ہی ہوتا آیا ہے ہم ہوئے کافر تو وہ کافیر مسلمان ہو گیا اسی کو تبدیلی بھی کہتے ہیں اسی کو ایڑھی پر گھومنا کہتے ہیں یہ کرشمہ سازی ہے : تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی وہ تیرگی جو مرے نامہ سیاہ میں ہے چلیے چھوڑیے اس معاملے کو کہ نیب نے عدلیہ میں جا کر چودھری برادران کو کلین چٹ دلوائی اب جس کو اعتراض ہو عدالتوں میں جائے اب وزیر اعظم یقینا عدالتی فیصلے کا احترام کریں گے۔ تنگ کرنے والے بھی تو باز نہیں آتے خوامخواہ نیب کو حرف تنقید بناتے ہیں اب دیکھیے ناں براڈ شیٹ کہ جسے کچھ حاسد فراڈ شیٹ کہہ رہے ہیں کے حوالے سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ نیب کے چیئرمین کو اسمبلی میں پیش کیا جائے مگر اس مطالبے کو مسترد کر دیا گیا ہے وہ ابھی تک اپنے مطالبے پر کہتے ہیں کہ چیئرمین ایوان میں کیوں نہیں لائے جا سکتے اب انہیں کون بتائے کہ نیب سوال کرنے اور احتساب کرنے کے لئے پیدا ہوا ۔ جواب دینے کے لئے نہیں دوسری طرف فضل الرحمن ان سے انہی کی زبان بولتے ہیں: کسی کو اپنے عمل کا جواب کیا دیتے سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے یہ تو میں نے رعاتاً بات کی وہ تو نیب کے سامنے پیش ہونے کے لئے تیار نہیں۔ ویسے پیش ہونا تو کمزور لوگوں کا کام ہے پاکستان میں تو کمزور ہونا جرم ہے وہی جسے اقبال نے جرم ضعیفی کہا ہے جر خیر اقبال نے تو پوری امہ کا رونا رویا ہے ہمارے تواپنے رونے ختم نہیں ہوئے ۔چلیے ہیں ہم امریکہ اور چین کی صلح کروانے۔ ایک تازہ ترین شعر اور اجازت: کیسے امروز بھی برباد ہوا ماضی بھی فکر فردا نے گناہوں میں اذیت رکھ دی