حضرت جنید بغدادی علیہ الرحمۃ آسمانِ تصوف کے نیر تاباں اور سلسلہ عالیہ جنیدیہ کے بانی ہیں۔آپ اللہ تعالیٰ کی عبادت و ریاضت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و فرماں برداری اور سلف صالحین کے منہج کے مکمل طور پہ پابند رہے ۔ساری زندگی کتاب و سنت کی تعظیم اور بدعات و خرافات کا قلع قمع آپ کا شیوہ رہا۔ عوام الناس آپ کو ’’سید الطائفہ‘‘ (جماعت ِصوفیاء کا امام)کہتے ہیں لیکن اہل علم کے ہاں آپ ’’سید الطائفتین‘‘ ہیں۔ یعنی آپ صرف جماعت ِصوفیاء کے شیخ نہیں بلکہ گروہ ِ فقہاء کے بھی سردارہیں۔یہ حقیقت ہے کہ تصوف ہو یا فقہ ، دونوں میں آپ درجۂ امامت پہ فائز ہیں ۔ ولادت:آپ علیہ الرحمۃ کی ولادت تیسری صدی ہجری کے شروع میں ہوئی۔ سال ولادت کے بارے میں ارباب سیرو تاریخ کا کافی اختلاف ہے ۔ بعض مؤرخین کے مطابق آپ کی ولادت 210ھ تا 220ھ کے درمیان ہوئی۔آپ کاآبائی علاقہ نہاوند ہے ، لیکن آپ کی پیدائش و پرورش بغداد میں ہوئی۔ نام و نسب:آپ کا نام جنید بن محمد بن جنید ، کنیت ابو القاسم اورلقب’’ قواریری‘‘ اور’’ زجاج ‘‘ہے ۔آپ کو قواریری اورزجاج اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ کے والد ِگرامی شیشہ کا کاروبار کرتے تھے ۔آپ مشہور و معروف صوفی حضرت سری سقطی کے بھانجے ،مرید اور شاگرد ہیں ۔ القابات وخطابات :بلند و بالا مرتبہ کے باعث آپ کے کئی القابات و خطابات ہیں جن میں لسان القوم،طاؤس العلماء ،سلطان المحققین،عمدۃ المشائخ، ماہر شریعت، چشمۂ انوار الٰہی، منبع فیوض لا متناہی، سید الطائفہ اور امام الائمہ کافی مشہور ہیں۔ آپ کا تصوف: آپ علیہ الرحمۃ کا تصوف غیر اسلامی نظریات و اثرات سے بالکل پاک اور قرآنی تعلیم کے عین مطابق ہے ۔اس سلسلے میں آپ علیہ الرحمۃ کا فرمان ہے :جس شخص نے نہ توقرآن حکیم حفظ کیا ہو اور نہ ہی حدیث کی کتابت کی ہو ایسے شخص کی تصوف میں پیروی نہیں کی جاسکتی کیونکہ ہمارا یہ علم طریقت کتاب و سنت کے ساتھ مقید ہے ۔نیزآپ نے فرمایا: ہمارا یہ علم طریقت ‘حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مضبوط ہوتا ہے ۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع کے بارے آپ کاارشاد ہے :مخلوق پر قرب الٰہی کے تمام راستے بند ہیں، بس ایک ہی راستہ کھلا ہے اور وہ یہ کہ رسول اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں کی پیروی و اتباع کی جائے ۔(اس کے بغیر قرب الٰہی حاصل نہیں ہوسکتا۔) حلول ، تناسخ اور رہبانیت جیسے باطل تصورات کا آپ نے زندگی بھر قلع قمع کیا۔آپ کے تصوف میں وحدت الوجود کے تصور کے بھی کوئی آثار نہیں ملتے ۔آپ نے زیادہ زور تزکیۂ نفس اور تطہیر قلب پر دیا ہے ۔ اس بارے میں آپ کا فرمان ہے کہ ہم نے تصوف قیل و قال اور بحث و مباحثہ سے حاصل نہیں کیا ‘ بلکہ بھوک ، ترک دنیا اور قطع مالوفات و مستحسنات (دل کو بھانے اور پسند آنے والی اشیاء کو چھوڑ دینے ) کے ذریعے حاصل کیا ہے (عوارف المعارف)۔ آپ کے تصوف کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو آپ طریقت کے بہت محتاط راستے پہ چلتے دکھائی دیتے ہیں،جسے عوام اور علماء نے بہت پسند کیا ۔ آپ کے بقول معرفت الٰہی کے اسرار عام لوگوں کے سامنے بیان کرنا ایک غلط اور مذموم عمل ہے ، القاء اور الہام کے اندر جو راز ہے اگر اسے ظاہر کردیا جائے تو علم کا وجود ختم ہو جاتا ہے ۔ آپ اپنے تلامذہ اور دوست احباب سے اکثر فرمایا کرتے کہ چونکہ تصوف در اصل ذات باری تعالیٰ کا راز ہے ، اس لیے اس کی تعلیم بھی رازدارانہ ہونی چاہیے ۔ اپنے مرشد حضرت سری سقطی اور استاد حضرت المحاسبی کی طرح ان کا طریقۂ تعلیم بھی بحث و مذاکرہ پر مبنی تھا، آپ شاگردوں اور احباب کے ساتھ مختلف مسائل و موضوعات پر بحث کرتے ، ان کے سوالات کا جواب دیتے جسے بعد میں وہ تحریر کر لیتے ۔ الغرض اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے جنید بغدادی علیہ الرحمۃ کی صورت میں ایک ایسا صوفی پیدا فرمایا جس نے تصوف کا اس کے حقیقی خد و خال پر دوبارہ سے احیاء کیا ۔ اگر آپ کی ہستی اس وقت رونما نہ ہوتی تو حقیقی تصوف کا خوش نما ڈھانچہ ہم تک کبھی نہ پہنچ پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی تصوف کے چاروں بڑے سلاسل میں جنید بغدادی علیہ الرحمۃ کو مرکزی مقام اور نمایاں مرتبہ حاصل ہے ۔ تعلیمات: آپ نے میدان تصوف میں ایسے انمٹ نقوش و آثار چھوڑے ہیں کہ رہتی دنیا تک سالکین ان سے فیضیاب ہوتے رہیں گے ۔ چند تعلیمات حسب ذیل ہیں:(1) شکر: شکر یہ ہے کہ انسان اس خدا کی نافرمانی نہ کرے جو اسے بے حد و حساب انعامات سے نوازتا ہے ۔ (2)صوفی: وہ ہے جو زمین کی مانند ہو جسے نیک و بد دونوں روندتے ہیں، صوفی وہ ہے جو بادل کی مانند ہو جو ہر چیز کو سایہ مہیا کرتا ہے ، صوفی وہ ہے جو بارش کی مانند ہو جو ہر چیز کو یکساں سیراب کرتی ہے خواہ کوئی اسے پسند کرے یا نہ کرے ، جب تم صوفی کو دیکھو کہ وہ اپنے ظاہر کو بہت زیادہ درست کرنے کے اہتمام میں لگا ہوا ہے تو جان لو کہ اس کا باطن خراب ہے ۔ (3)اطاعت : اے جماعت صوفیاء ! تم اطاعت ہی کی بدولت جانے جاتے ہو اور اسی کی بدولت ہی تمہاری عزت ہوتی ہے ۔ تم غور کرو کہ جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ خلوت میں ہوتے ہو تمہیں کیسا ہونا چاہیے ؟۔ (4) امراء کی صحبت: تمہیں چاہیے کہ امراء و سلاطین کی بجائے عارفین اور اہل اللہ کی صحبت اختیار کرو۔ (5) نماز: یہ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے کا نام ہے ، نماز ادا کرتے وقت تمہیں اس بات کی خوشی ہونی چاہیے کہ تمہارا تعلق اس ذات سے قائم ہو رہا ہے جس تک پہنچنے کا اس کی مدد کے بغیر کوئی وسیلہ نہیں۔(6)صبر: آئی ہوئی مصیبت کے ٹل جانے تک رضائے الٰہی کی خاطر تکلیف برداشت کرنا صبر کہلاتا ہے ۔ (7) رضا: اپنے اختیار کو ترک کر دینا ۔