قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ اب مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس طرح کی بحثیں جھڑ رہی ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ خلق خدا اسے خاموشی سے سن رہی ہے اور اہل دانش گم سم ہیں۔ یہاں میں پردے کی اہمیت اور فضیلت پر گفتگو نہیں کرنا چاہتا۔ یہ مرا مقصد نہیں ہے ‘صرف یہ اشارہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہمارا رخ کس طرف ہے۔ خیبر پختونخواہ میں پہلے ایک ضلع میں میں غالباً سارے صوبے میں طالبات کے لئے سکول میں حجاب‘ عبایا یا چادر کے استعمال کے احکام جاری ہوئے‘ ایک طوفان کھڑا ہو گیا ‘حتیٰ کہ صوبائی وزیر اعلیٰ کو یہ حکم واپس لینا پڑا۔خیال غالب ہے کہ یہ کام انہوں نے ’’ریاست مدینہ‘‘ کے سربراہ اعلیٰ کی ہدایت پر کیا ہو گا۔ اس خیال یا گمان کی وجہ کیا ہے اس کا تذکرہ بعد میں‘ پہلے اس گفتگو کا ذکر ہو جائے جو اس مسئلہ پر ہوئی‘ سب نے سنی‘ کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی حتیٰ کہ یہ حکمنامہ منسوخ کر دیا گیا۔ کیونکہ مخالفین کوئی معذرت قبول کرنے کو تیار نہ تھے۔ وہ ایک ٹی وی چینل پر ہا ہو کار مچی ہوئی تھی کہ غضب ہو گیا۔ بچیوں پر جبر کیا جا رہا ہے۔ ریاست کون ہوتی ہے بچیوں کو خاص لباس پہننے پر مجبور کرنے والی۔ اگر ان کا مقصد بچیوں کی حفاظت ہے تو اس کا یہ طریقہ نہیں‘ اس کے لئے تو انہیں تربیت دینا چاہیے ۔ان کے نصاب میں اس ابواب شامل کئے جانا چاہیے۔ میں نے عرض کیا میں اسے دین کا مسئلہ بنا ہی نہیں رہا‘ صرف اس سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں کہ ریاست کون ہوتی ہے لباس کی پابندی لگانے والی۔ پوچھنا مجھے یہ ہے کہ آپ کی تھوتھنیاں اس وقت کیوں نہیں کھلتیں جب مغرب میں ہماری بچیوں پر پابندی لگائی جاتی ہے کہ وہ حجاب نہیں پہن سکتیں بحث کو اٹھائیے نا‘ صرف یہ بتائیے آپ کی زبانیں کیوں گنگ ہو جاتی ہیں ہم تو پوچھ لیتے ہیں کہ آپ کے ہاں مسلمان بچی کے حجاب کی تو مخالفت ہے مگر اپنی راہبہ کے ہڈ پر کوئی اعتراض نہیں۔ شمالی افریقہ کے ایک مسلمان ماہر عمرانیات نے اس کی بڑی شاندار وجہ بیان کی ہے کہ راہبہ کی ہڈ کلیسا کے خلاف مغربی تہذیب کی فتح کی لڑائی ہے جب کہ مسلمانوں کا لباس انہیں صلیبی جنگوں میں اپنی شکست کا احساس دلاتا ہے ۔ بہرحال یہاں تو میں صرف اتنا عرض کر رہاہوں کہ آپ کو یہ دلیل اب یاد آئی ہے کہ ریاست کون ہوتی ہے ڈریس کوڈ جاری کرنے والی۔ کل تک تو آپ کو اعتراض نہ تھا۔ ہم نے تو ایسی ساری تعلیمی زندگی یونیفارم پہن کر گزاری ہے۔ سکول میں بھی اور کالج میں بھی۔ یونیورسٹی میں تو خیر طلبہ و طالبات گائون پہنا کرتے تھے۔ اب تو شاید اساتذہ بھی نہیں پہنتے۔ کیا خیال ہے آپ کو عبایا‘ حجاب یا چادر سے چڑ ہے تو کیوں نا تعلیمی اداروں میں گائون لازمی کر دیا جائے۔ یہ آخر علمیت کی نشانی ہے۔ یہ طلبہ و طالبات دونوں کے لئے ہو جائے گا۔ انسان کی خصلت ہے کہ وہ کسی پابندی کو برداشت نہیں کرتا۔ چین میں پہلے عورتوں اور مردوں دونوں کے لئے ایک ہی یونیفارم قسم کا لباس تھا۔ مساوات قائم کرنے کے لئے اس وقت زیادہ اعتراض عورتوں کے لباس پرتھا۔ چینی خواتین بیچاری جاپانی‘ کوریائی‘ فلپائنی خواتین سے کم خوبصورت نہیں‘ مائوزے تنگ نے انہیں عجیب جامہ پہنا رکھا ہے۔ اندر کی انسانی خصلت دراصل یہی ہے جسے ہم دوسرے نام دے لیتے ہیں۔ ایک دلیل اور دی جاتی ہے کہ بچیوں کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔ ہمیں اس کی انہیں تربیت دینا چاہیے۔ اس تربیت کے نام پر جنسی تعلیم کا ایک پورا نصاب سنایا جاتا ہے اور ساتھ ہی یہ ٹکڑا لگایا جاتا ہے کہ دینی مدارسوں میں کیا ہوتا ہے۔ حضور بتا دیجیے ‘ مغرب میں جہاں چینی تعلیم دی جاتی ہو گی‘ ان کے اخلاق کا کیا حال ہے۔ ہماری معاشرت میں جو چیز بری ہے تو وہ بری ہے۔ ان کے ہاں رواج یہ ہے کہ بری چیز کو قابل قبول کیسے بنایا جا سکتا ہے؟ مثال کے طور پر سکولوں اور کالجوں کی سطح پر انہیں نہ صرف جنسی تعلیم پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ جنسی آزادی پر اصرار ہے۔ انہیں ڈر اس وقت پیدا ہوا جب ’’ایڈز‘‘ جیسی بیماریوں کا چلن ہوا۔ انہیں اندیشہ ہوا ہماری تو نسلیں تباہ ہو جائیں گی۔ جنہیں آزادی پر انہیں کوئی اعتراض نہ تھا حتیٰ کہ جنسی اختلاط کو بھی روا سمجھتے تھے ۔انہوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ جنسی عمل کو محفوظ بنایا جائے۔ کم از کم آسٹریلیا میں درسگاہوں میں میں نے وہ مشینیں دیکھی ہیں کہ سکہ ڈالو اورکنڈوم نکال لو۔ اسے کنڈوم وینڈنگ مشین کہا جاتا ہے۔ گویا طلبہ کو جنسی آزادی بھی دی جاتی ہے اور اس عمل کو محفوظ بنانے کی تعلیم بھی۔ پھر اس کا بندوبست بھی کر دیا جاتا ہے ۔تاکہ بچوں اور بچیوں کو کہیں دور نہ جانا پڑے یہ جو لوگ پھدک پھدک کر بول رہے ہیں‘ قوم کو اسی منزل پر لے جانا چاہتے ہیں جب کہ ہمارے ہاں شادی سے پہلے جنسی تعلقات کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہ ایک عالمی ایجنڈا ہے جس کی طرف ہمارا الیکٹرانک میڈیا ہمیں خاص طور پر لے جانا چاہتا ہے۔ مشرف سے امریکہ نے جب آزاد میڈیا کی شرط منوائی تھی تو اس کے پیچھے سیاست کی آزادی نہ تھی۔ یہ آزادی تھی جو ہمارے ہاں ایک وبا کی طرح پھیلتی جا رہی ہے۔ ایک معصوم سی بے ضرر سی بات تھی‘ مگر چند گھنٹوں کے اندر کیسا شور مچا دیا گیا۔ گویا انٹرنیشنل ایجنڈا پامال ہو رہا تھا۔ خیبر پختونخواہ کے کلچر میں چادر‘ عبایا یا حجاب کوئی غیر معمولی بات نہیں‘ مگر یہ لوگ چاہتے ہیں کہ افغانوں سے ان کی تہذیب کے یہ سارے رنگ ڈھنگ چھین لئے جائیں۔ یہ ڈریس کوڈ بھی صرف درسگاہوں کے لئے تھا۔ سڑکوں اور بازاروں کے لئے نہیں مگر ایسا ہنگامہ ہوا کہ خدا کی پناہ۔ دلچسپ بات ہے کہ ایسے مواقع پر نام نہاد سول سوسائٹی کے دوچار کارندے آگے آ جاتے ہیں۔ عموماً یہ شوبز کے لوگ ہوتے ہیں یہ کام عالمی مقتدرہ نے ان کو سونپ رکھا ہے۔ گزشتہ سال قصور میں ایک بچی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ ہوا۔ تب بھی اس طبقے کو اہمیت دی گئی۔ عجیب عجیب موشگافیاں نکالی گئیں۔ ایک معتبر اینکر پرسن نے تو حد کر دی۔ بچوں کو اپنی حفاظت سکھانے کے لئے ایک نوجوان کا انٹرویو نشر کیا جس کا باپ اسے دس سال سے جنسی تشدد کا نشانہ رہا تھا۔ کیا بتانا چاہتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ بے راہروی کتنی ہے‘ آپ بچوں کو کیا سکھانا چاہتے ہیں۔ نفسیات کے دوچار اکھر میں نے بھی پڑھ رکھے ہیں۔ ادب کا طالب علم ہوں‘ ان بے راہرویوں سے بھی واقف ہوں۔ مگر ایسے موقع پر آپ جو ایجنڈا لے کر جن لوگوں کے ذریعے چلتے ہیں ‘ وہ تشویشناک ہے۔ میں نے ایک اینکر کو پھدک پھدک کر جھپٹتے دیکھا کہ آپ کون ہوتے ہیں‘ پابندیاں لگانے والے ۔خیبر پختونخواہ کے منسٹر کو بالآخر کہنا پڑا آپ اسلامی قدروں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ انہیں جواب ملا آپ خود کو ایسی باتوں کے پردے میں چھپانا چاہتے ہیں۔ ہم ایسے معذرت خواہ ہو رہے ہیں کہ 24گھنٹے کے شور شرابے کے بعد یہ حکمنامہ واپس لے لیا گیا۔ کیونکہ عمران خاں کا ایک پرانا انٹرویو دکھا دیا گیا تھا جس میں وہ کہہ رہے تھے ہم طالبات پر کوئی پابندی نہیں لگائیں گے ۔مجھے نہیں لگتا‘ عمران اب وہ بات دہرا سکتے ہیں ان کی تو اہلیہ بھی پردے کا سختی سے اہتمام کرتی ہیں۔ یہاں تو صرف چادر‘ عبایایا حجاب کی بات تھی۔ میں ریاست مدینہ والوں کو نہیں پکار رہا صرف یہ یاد دلانا چاہتا ہوں کہ اس ملک میں ایسی بودی اور لغو دلیلیں بھی چلیں گی جیسی اس بحث میں چلیں اور اس پر کوئی بولے گا بھی نہیں۔ مجھے نہ بولنے پر اعتراض ہے۔