’’لوحِ ادراک‘‘میرا پہلا شعری مجموعہ ہے جو2013 میں منظرِ عام پر آیا‘یہ مجموعہ اس لیے بھی میرے دل کے قریب ہے کہ اس میں شامل غزلیں اور نظمیںکالج دور کی ہیں‘بلکہ کچھ نظمیں تو کالج سے بھی پہلے کی ہیں۔اس مجموعے میں شامل غزلوں کا مجموعی مزاج رومانوی ہے‘ایک نوآموز شاعر کے ذاتی تجربات و مشاہدات‘جن میں محبت بھی ہے اور محبت سے بنے رشتوں سے توقعات بھی۔مگر اس مجموعے کی نظمیں بہت مختلف ہے‘یوں سمجھیں کہ نظموں کا مزاج غزلوں سے بالکل الٹ‘میں اب بھی ان نظموں کو پڑھتا ہوں‘لطف لیتا ہوں اور بعض نظموں کی قرات کرتے ہوئے مسکرا بھی دیتا ہوں۔آج سے دس سال قبل یہ نظمیں لکھتے ہوئے میرے پیارے ملک کے جو حالات تھے‘ان میں ایک فیصد بھی تبدیلی نہیں آئی‘آج بھی یہاں کا جمہوری ڈکٹیٹر ویسا ہی ہے ‘جیسے 2013 میں تھا‘آج بھی ملک دشمن اسی طرح شرپسند کارروائیوں میں مصروف ہیں جیسے دس سال قبل تھے‘یہاںکا معزز شہری آج بھی اتنا ہی غیر محفوظ ہے جیسے دس سال پہلے تھا‘کچھ بھی نہیں بدلا،اگر اس ملک میں بدلے تو صرف چہرے‘نظام اور نظام چلانے والے ہمیشہ سے ایک جیسے رہے۔کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے کہ اس ملک پر حکومت کرنے والے تمام ’’جمہوری لیڈر‘‘ایک ہی ادارے سے فارغ التحصیل ہیں‘ان کی ٹرنینگ ایک جیسی ہوئی ہے‘انھیں ایک ہی سبق سکھا کر اس ملک پر مسلط کیا گیا ہے۔ مجھے یاد ہے میں جن دنوں یہ نظمیں لکھ رہا تھا‘استاد محترم حکیم ربط عثمانی مرحوم اکثر کہا کرتے کہ تمہارے مزاج میں مایوسی کیوں ہے؟یہ سچ ہے کہ ان مزاحمتی نظموں میں امید سے زیادہ مایوسی ہے ‘ایسے لگ رہا ہے کہ یہاں سب ایسے ہی رہے گا‘یہاں نہ تو سماج بدلے گا اور نہ ہی سماج سیوک‘ان نظموں میں گہری مایوسی بھی ہے اور گہری اداسی بھی‘ان میں مزاحمت بھی ہے اور صدائے انقلاب بھی‘ان میں آہیں اور سسکیاں بھی ہیں اور ٹوٹے خوابوں کا نوحہ بھی۔میں پچھلے ایک گھنٹے سے یہ نظمیں پڑھ رہا ہوں‘یہ نظمیں اگرچہ ایک نوآموز قلم کار کے مشاہدات ہیں مگر ان میں اٹھائے جانے والے سوالات اور ان میں زیر بحث آنے والے مسائل کبھی نہیں بدلے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کچھ نظموں کو پڑھتے ہوئے سوچا کہ کیوں نہ انھیں اپنے کالم میں سجایا جائے‘اپنے قارئین سے یہ نظمیں شیئر کی جائیں۔ اس مجموعے میں شامل نظم’’ پس ِ آئینہ‘‘ ایسے شخص کی کہانی ہے جو عرصہ دراز سے دیارِ غیر میں مقیم ہے‘وہ اپنے ملک کے حالات یعنی مہنگائی‘ بدامنی‘ کرپشن‘جھوٹ‘رشوت سے تنگ آ کر ہجرت کرچکا ہے‘وہ دیارِ غیر میں اپنے وطن کو یاد کرتا ہے‘اپنے لوگوں کو یاد کرتا ہے اور اس وطن پر قابض مافیا کے بارے سنجیدگی سے سوچتا ہے۔دیارِ غیر میں بیٹھا یہ شخص وطن واپس آنا چاہتا ہے‘اپنے لوگوں کے درمیان زندگی گزارنا چاہتا ہے مگر یہاں کے خراب حالات سے تنگ وہ اپنے دیس سے دورزندگی گزارنے پر مجبور ہے۔دیارِ غیر میں بیٹھے اس شخص سے جب بھی کوئی سوال کرتا ہے کہ تم اپنے وطن کیوں نہیں چلے جاتے تو اس کے ذہن میں آنے والے جوابات اس نظم میں سمو دیے گئے ہیں۔وہ سوال پوچھنے والے کو بہت کچھ بتانا چاہتا ہے مگر اس ڈر سے چپ ہو جاتا ہے کہ اپنے وطن کی رسوائی نہ ہو۔وہ وطن واپس جانا چاہتا ہے مگر اسے لگتا ہے کہ اپنے ملک میں وہ جو بھی کمائے گا‘اُس ملک کا مافیا اس سے چھین لے گا‘وہ اپنے ملک میں ٹیکس تو دے گا مگر اس کے اپنے بچے دوائی کو ترس جائیں گے‘وہ سوچتا ہے کہ اس کا بڑھاپا اپنے ملک میں انتہائی غیر محفوظ ہے لہٰذا وہ دیارِ غیر میں اپنی زندگی کے دن گن رہا ہے۔وہ چاہتا ہے کہ اس کے بچے اپنے وطن جائیں اور اپنوں میں زندگی گزاریں مگر وہ اس ملک کے مستقبل سے مطمئن نہیں‘یہ نظم’’پسِ آئینہ‘‘ اسی شخص کے تجربات و خیالات ہیں۔ آپ نظم ملاحظہ فرمائیں:معاشی فکر جب مجھ کو؍دیارِ غیر میں لائی؍یہاں میں اجنبی تھااور مزدوری کے چکر میں؍کہاں یہ ہوش سوچوں؍میں کچھ دنیا کے بارے میں؍مگر اک روز مجھ سے اک مقامی شخص نے پوچھا؍کہاں سے آئے ہو تم؟؍اور تمہارا ملک کیساہے؟؍ہو تم کس شہر کے باسی؍وہاں سے آئے ہو کیوں کر؟؍وہاں مجبوریاں کیا تھیں؍ کہ کچھ نہ کام کر پائے؍کہ اپنے اہل خانہ سے بچھڑ کر دور تم آئے؍تمہارے ملک کا منشور کیسا ہے؍وہاں دستور کیسا ہے؍یہ سن کر میرے دل پر ایک بجلی سی گری جیسے؍مجھے معلوم تھا کہ میں نے اپنا ملک کیوں چھوڑا؍وطن سے کیوں تھا منہ موڑا؍اسے کیسے بتاتا میں؍کہ میرے ملک کے حاکم ؍اندھیروں میں کہیں گم ہیں؍انھیں اپنی رعایا سے ؍نہیں شاید غرض کوئی؍وہ اپنا نام چمکاتے ہیں‘اپنا پیٹ بھرتے ہیں؍جو مبنی جھوٹ پر ہووہ ؍پراپیگنڈا کرتے ہیں؍ انھیں کیسے بتاتا میں؍جہاں ہم سانس لیتے ہیں؍نہیں نظم و ضبط کوئی؍وہاں اک ہو کا عالم ہے؍وہاں سچ کہنا مشکل ہے؍کہ سچ کا موت حاصل ہے؍وہاں باطل ہی باطل ہے؍سفارش اور شوت کی وہاں دیوی ہے جلوہ گر؍بنا اس کے نہیں ملتا ہے مزدوری کا بھی گوہر؍وہاں جاگیرداری ہے؍وہاں سرمایہ داری ہے؍عوام الناس کے دل میں مگر اک بے قراری ہے؍وہاں پولیس کا ڈنڈا ہے؍وہاں طاقت کا جھنڈا ہے؍وہاں تھانے ہیں امرا کے؍وہاں انصاف بکتا ہے؍بنا دولت ہے تاریکی؍کسی کو کچھ نہ دکھتا ہے؍مرے معصوم لوگوں پر بہت ہی ظلم ہوتے ہیں؍عجب الزام لگتے ہیں؍وہاں مظلوم کی آہ و فغاں کوئی نہیں سنتا؍وہاں پر بے گناہ لوگوں کا اکثر خون بہتا ہے؍وہاں پر ڈاکوئوںکا راج ہے ؍اور ان کا دبدبہ کچھ اس طرح ذہنوں پہ طاری ہے؍کوئی بھی ان کے آگے لب کشائی کر نہیں سکتا؍وہاں معصوم بچے آج بھی دورِ غلامی کا تصور پیش کرتے ہیں؍وہاں معصوم دوشیزائیں ہمیشہ چھپ کے رہتی ہیں؍وہاںپر دن دیہاڑے لٹتی ہے بازار میں عصمت؍کہاں محفوظ ہے عزت؍وہاں بیمار بوڑھے سسکتے ہیں‘بلکتے ہیں؍وہ روٹی اور دوا کے واسطے اکثر ترستے ہیں؍وہاں کے گل ستانوں میں؍لہو شامل ہے انساں کا؍وہاں محلوں کی دیواروں میں بھی ہے خونِ انسانی؍وہاں پر حق بیانی کی سزا ہے کنجِ زندانی؍خوشامد ہے وہاں رقصاں؍صداقت پر ہے ویرانی؍وہاں پر غربت و افلاس نے ڈیرے جمائے ہیں؍وہاں حق مانگنے والوں نے اپنے سر کٹائے ہیں؍وہاںپر بھوک ہے اتنی کہ اب افلاس کے مارے؍جو بھوکے اور ننگے ہیں؍کفن حاصل وہ کرنے کو لحد بھی پھاڑ دیتے ہیں؍کہ تن اپنا چھپا پائیں؍کسی کو کیا وہ بتلائیں؍مگر میرے سبھی حاکم نشاط و عیش میں گم ہیں؍انھیں جمہوریت کی رٹ لگانے کی ہے اک عادت؍جو ان کی بات کو کاٹے؍زباں اس کی وہ اک دن کاٹ دیتے ہیں۔